شہید مقبول بٹ،ضمیر کا ایجنٹ

پیر 11 فروری 2019

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

ایک لمبے عرصے سے عظیم تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ وابستگی اور ذاتی تجربات کی بنیاد پر خود سے مخاطب ہوں کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آزادی کی اس شاہراہ حق پر اپنی ذات کو آزاد و پاک صاف رکھنا اہم فریضہ ہے۔ شاہراہ حق پر سچ کہنے سے کامیابی ممکن ہے، سچ یہ ہے کہ ہم کسی صورت کشمیر کو افغان سے موازنہ نہیں کرسکتے،چند دن پہلے ایک مذہبی غیر سیاسی تنظیم کے زیر اہتمام کشمیر کانفرنس میں ایک مشہور دانشور نے جہاد کشمیر اور جہاد افغان کو ایک ہی عینک سے پر کھا، مجھے وضاحت کر نی پڑی جیسے مظفر آباد پریس کانفرنس میں بر ملا اس حقیقت کا واشگاف کیا کہ افغانستان میں نظام کی تبدیلی کیلئے جبکہ کشمیر میں غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریک جاری ہے۔

اس حقیقت کی بنیاد پر وسیع جدجہد ، قربانیوں اور خدمات کو مدنظر رکھ کر بہادر کشمیریوں پر فغر ہو نا چا ہئے، بحثیت تعلیمی پروگرام کے انچارج افغان دورے کے دوران انکے چندمثبت روایات سے بہت ہی متاثر ہوا، انہوں نے سادگی اپنا ئی ہے ، وہ اپنے صفوں کے اندر ایک دوسرے کی برائیوں کے بر عکس اچھائیاں ڈھونڈرہے ہیں، ایک دوسرے کو سہارا دینا انکی روایت بن چکی ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے عمائدین ظویل جدجہد کی وجہ سے مسائل و مصائب کے گرداب میں بھی معاشرے میں سادگی کو فروغ نہیں دے سکے، معاشرے میں لاچار، مستحق متاثرین کیلئے مشکلات کا ازالہ ضروری ہے،نادان ایک دوسرے کی صلاحتوں اور اعلی صفات و ظرف کیلئے حوصلہ افزائی کر نے میں بخل سے کام لے رہے ہیں، ہم اپنے قابل فخرروشن ستاروں کے برعکس دوسروں کی مثالیں دے کر نہیں تھکتے ۔

قا ئد اعظم نے کشمیر کو شاہ رگ قرار دیا ہے،اس امید کے ساتھ کہ آنے والے پاکستان کے حکمران کشمیر یوں کو غلا می کے چنگل سے نجات دلا ئیں گے اسلئے بھی کہ دریا ؤں کی وجہ سے پا کستا ن کی بقا کشمیر سے وا بستہ ہے ،لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کر نا چاہئے کہ جمہوریت کے علمبردار قائد اعظم کسی صورت کسی بھی قوم پر زبردستی اپنے نظریات لاگو کر نے کے حامی نہیں تھے، لہذا ہمیں چاہئے کہ قائد اعظم کے اس قول کو بھی دھرائیں :مسلما نوں کے ذہن اور توجہ پر چھا یا ہوا یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ آیا کشمیر پا کستا ن میں شا مل ہو رہا ہے میں ایک سے زائد مر تبہ وا ضع کر چکا ہوں کہ ریا ستیں اس امر کا فیصلہ کر نے میں آزاد ہیں کہ وہ پا کستا ن کے ساتھ شا مل ہوں یا ہندوستا ن کے ساتھ یا خود مختار اور آزاد رہیں۔

مگر یہا ں ذاتی طور کشمیر اور پاکستان کی بقاء کیلئے ایک اہم نکتے کیطرف دھیا ن دلا نا اپنا دینی و قو می فریضہ سمجھتا ہوں کہ ہندوں نے تہذیب و تمدن اور طبقا تی کشمکش میں مبتلا ہو نے کے باوجود اکھنڈ بھا رت کے نظریہ کی آبیا ری کی۔جبکہ مسلما نوں کیلئے ملی وحدت کو قائم رکھنا دینی فریضہ ہے ، اور بد قسمی سے امت مسلمہ کے وحدت واخو ت کے شیرا زہ کو بکھیر نے کے بعد کئی مسلم ریاستیں ظالموں کے چنگل میں پھنس گئی ہیں اور کئی مسلم ممالک عراق،شام،لیبیا،یمن،۔

۔۔ میں مسلمان آپس میں حالت جنگ میں ہیں اور مسلما ن حکمرا نوں کی بے حسی اور نادان مسلمانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے دشمن مسلما نوں کو آسان حدف سمجھ کر ان کے خون سے کھیلنے کا سلسلہ دنیا کے کئی حصوں میں جا ری رکھے ہو ئے ہیں، لہذامستقبل کے بقاء اور امن وآزادی کی ضمانت کیلئے نظر یا تی سرحدوں کو تر جیع دینا ہم سب کی اولین قومی و دینی ذمہ دا ری ہے۔

اس حوالے سے الحاق پاکستان میں بھی نوکر شاہی کے کرتوتوں سے بچنے اورکشمیری روایات اور کلچر کو محفوظ رکھنے کیلئے کشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کی شق کی گنجائش سے خود مختار نظریہ کے حامی کشمیریوں کی خواہشات بھی کچھ حد تک پوری ہو سکتی ہیں۔ چند برس پہلے اس حوالے سے اخبارات میں ایک خاکہ پیش کیا تھا مگر بد قسمتی سے چراغ بیگ سوچ کی بنیاد پر اس جا نب کم دھیان دیا گیا۔

اس خاکہ کو مزید بہتر کر نے کی گنجا ئش ہے۔ 
مقبول بٹ 18فروری 1938 ترہگام کپوارہ میں پیدا ہوئے۔کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن اور پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرس ڈگری حاصل کر کے بحثیت استاد اور صحافی قلیل وٍقت کیلئے خدمات سر انجام دیں،لیکن اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے تمام آسائشوں کو چھوڑ کرسر پر کفن باندھ کر مقبول نے اپنے انقلا بی مقاصد کیلئے جے کے محا ذ آزادی کے سر براہ کی حیثیت سے 1966میں خونی لکیر عبور کر کے مقبو ضہ کشمیر میں آزادی پسندوں کو منظم کر نے کا سلسلہ شروع کیا،شمالی کشمیر میں جماعت اسلامی کے لیڈر غلام نبی ہاگرو کے گھر ٹھہرے۔

آزادی وطن کے لئے مصروف عمل مقبول کا ٹکراؤ 14ستمبر کوبھا رتی کرائم برانچ سے ہوااور انکے ساتھی ما یہ نا ز سپوت اورنگ زیب شہید ہو گئے، اس جھڑپ میں بھارتی آفیسر کرم چند بھی مر گیا اور مقبول بٹ چند سا تھیوں سمیت گرفتا ر ہوئے، آزادی کی آواز کو خاموش کر نے کیلئے مقدمہ چلا یا گیااور سزائے موت سنا ئی گئی۔ مقبول 1968ء میں اپنے ساتھیوں سمیت کربناک مراحل میں بھی اپنے بلند عزم و ہمت سے جیل میں سرنگ کھود کر فرار ہو نے میں کا میاب ہو گئے۔

مقبول اپنے ضمیر کا ایجنٹ تھا ۔آئیں ہم سب اپنے اندر بھی جھانکیں، اپنے ضمیر سے پوچھیں، جہاں کوتاہیاں ہیں ان کو دور کریں۔مقبول  کے ارادے کبھی متزلزل نہ ہو ئے ان کا آدرش وطن کی آزادی اور آزادی کی جد جہد میں شہید ہو نا تھا، مقبول چاہتا تو کونسی دنیاوی شان و شوکت میسر نہیں آسکتی تھی۔مقبول کو اپنے جال و دام میں پھنسانے کیلئے بھارت نے کئی سال انتظار کیا مگر اس اللہ کے نیک بہادر کشمیر ی نے جوکہا تھا گردن کٹ سکتی ہے جھک نہیں سکتی،کر کے دکھایا ۔

کشمیر یوں نے شیخ عبدالله کے زیر سایہ ،محاذ رائے شماری میں بے مثال قربا نیا ں دیکر جو خواب تمنا ؤں کے سا تھ دیکھا تھا، 1975ء کے اندرھا عبدالله اکارڈ سے چکنا چور ہو گیا، اس ایکارڈ کے خلاف ابھر نے وا لی ہر آواز کو دبا نے کیلئے ظلم وجبر کے ہر حربے کو آزمایاگیا، ان گھمبیر حالا ت میں بھی عزم و ہمت کے پیکر ہمارے سپوتوں نے شاہراہ حق پرعظیم مشن کو جاری رکھا ۔

1976ء میں مقبو ل نے اپنے خوا بوں کی تعبیر ڈھونڈنے کے لئے نا م نہاد جنگ بندی لا ئن کو روندھ کرپھر مقبو ضہ کشمیر میں قدم رکھا، ان ایام میں بھی اسلام اور آزادی پسند تنظیموں اور افراد کے رول کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پیوپلز لیگ کے چیئرمین ، غلام محمد خان سوپوری جو 1956سے ہی شاہراہ حق پر مصروف عمل ہیں اور انکی عظیم بہن،جنکی آزادی کے پروانوں کیلئے قربانیوں کی لازوال تاریخ ہے، نے اپنی جان پر کھیل کرنہ صرف مقبول بٹ کو اپنے گھر میں پناہ دی بلکہ اسے بھر پور تعاون فراہم کیا۔

آزادی ہندکے ہیرو بھگت سنگھ و اشفاق احمد شہید کے ملک نے تمام اصولی و عدل انصاف کے تمام قد ریں پا مال کر کے 11 فروری 1984کو محمد مقبول بٹ  کو پھانسی پر چڑھاکر جنت میں زندہ رکھا، مقبول نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ آزادی کے راستوں میں کٹھن مر حلے صبر اور حوصلے سے عبور کر کے ہی منزل مقصود حا صل کیا جا سکتا ہے ۔ حالات گواہ ہے،مقبول کی شہادت سے لاکھوں مقبولوں نے جنم لیا اور مقبول برہان  کی شہادت کے بعد تحریک آزادی نہ صرف کشمیر کے کناروں تک پہنچی بلکہ تمام حریت قائدین کا مشترکہ محاذ قائم ہوا، جنکے پروگرام کے مطابق تحریک آزادی جاری ہے ،اس صدی میں کشمیریوں نے اپنے بنیادی حق آزادی کیلئے دنیا کی تمام اقوام سے زیادہ قربانیاں دیکر ثابت کیا کہ آزادی انکا مقدر ہے، اور بھارت شہید مقبول کے تین بھائیوں سمیت لاکھوں کشمیریوں کو شہید کر کے بھی فکر حریت کو زائل نہیں کر سکا ، تحریک آزادی کی آبیاری خون سے ہورہی ہے ۔

انشا ء اللہ۔ مصروف عمل کشمیریوں کواللہ کے بعدصرف اور صرف پاکستان سیاسی و سفارتی تعاون فراہم کر رہا ہے،جسے مزید بڑھانے کی اشدضرورت ہے تاکہ گہرے روحانی رشتے اور مستحکم ہوں ،جنہیں توڑنے کیلئے بھارت نے ظلم و جبر کے علاوہ رعایات و لالچ کے حر بے آزما ئے مگر بھارت کو کچھ نہ ملا نہ ملے گا اسلئے کہ قانون قدرت ہے جیت حق کی ہی ہوگی ظالم جابر کے مقدر میں صرف رسوائی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :