کشمیر کو بھول جاؤ

منگل 21 اپریل 2020

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

کرونا احتیاتی لاک ڈاؤن میں بھارتی میڈیا اور سیاست پر حاوی ہندوتا سوچ کے جھوٹے پروپگنڈے کے توڈ میں احقراپنی محدود صلاحتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دلائل سے دنیا اور بھارتی عوام تک حق کی بات پہنچارہا ہے،حق پر مبنی دلائل سے خوف زدہ متعصب ہندوتا افراد گالیاں بکنے کے علاوہ میرے خلاف رپورٹ درج کرکے چھٹے فیس بک اکاؤنٹ کو بلاک کرانے میں کامیاب ہو ئے۔

انکی گالیوں کے جواب میں انکی بہنوں کو اپنی بہن قرار دینا ہی کافی ہے۔ یہاں اپنی مصروفیات اور ہندوتا کی کارستانیوں کا تذکرہ کر نے کے پیچھے میری یہ آرزو ہے ،میرے کالم شائع کر نے والوں اور قارئین کا شکریہ کے ساتھ ایک مہینے کی غیر حاضری کا سبب بتادو ،اور یہ اپیل کروں کہ آپسی اختلافات کو بھلاکر اپنی روایات اور شناخت کو بچائیں، اسکے علاوہ سب سے اہم نکتہ جس کا اظہار اپنے کئی ٹی وی ٹاک شو ، تقاریراور مضامین میں کر چکا ہوں کہ تحریک آزادی کشمیر اور بھارتی اقلیتوں خصوصا مسلمانو ں کے خلاف بھارت میڈیا، سیاست دانوں کے جھوٹے پروپگنڈے کے توڈ کیلئے پاک میڈٰیامیں حق پر مبنی دلائل پر مبنی پروگراموں کی تشکیل ہو، اپی ٹی وی اور مالی خسارے میں بتلاء آزاد کشمیر کے اخبارات کے ساتھ پاک میڈیا بھی اس اہم اور وسیع فریضہ کو انجام دے۔

(جاری ہے)

بھارتی جنتا پارٹیٰ کے اہم رکن اور پالیسی ساز ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کے جھوٹ اور تعصب پر مبنی سوشل میڈیا میں وائرل ویڈیو کے جواب میں کئی حق پرستوں کے ساتھ احقر کے دلائل اور حقائق کی بنیاد پرڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے اپنے ہی بیان کو جھٹلا دیا۔جس نے مسلم اکثریت کو اقلیتوں کیلئے وبال جان قرار دیا ، بھارتی آئین کی شق 24کی غلط تشیریح کی اور بھارتی عوام کو ہندوتاحکمرانوں کی انسان دشمن پالیسیوں پر مطمئن قرار دیا۔

ان متعصبانہ جھوٹ پر مبنی پروپگنڈے کے خلاف حق پر مبنی میری ویڈیو ،جو ڈاکٹر صاحب کو بھی بھیجی ہے، احقر نے دلائل سے مسلم اکثریتی علاقوں میں محفوظ اقلیتوں خصوصا ہندو کا تذکر کیا ہے، اور ثابت کیا کہ ضروریات زندگی سے محروم اکثریت بھارتی ہندوتا ایجنڈے کے برعکس غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور آئین کی شق 24 بھارت میں بستے والے سب لوگوں کو برابر تصور کر تا ہے۔

کسی بھی ملک کے میڈیا کی ذمہ داریاں وسیع ہے، میڈیا کو چوتھا ستون سمجھا جارہا ہے، نظریاتی ملک پا ک کے سیکولر میڈیا سے کئی شکایات اپنی جگہ، لیکن پا ک میڈیا نے کبھی مذہب، رنگ، نسل، علاقائی یا مسلک کی بنیاد پر قوم کو گمراہ نہیں کیا، مگر حالت کی ستم ظریفی سیکو لر ملک بھارت کامیڈیا موجودہ ہندوتا حکمرانوں سے مراعات حاصل کر نے کیلئے حق پر مبنی تحریک آزدی کشمیر اور اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے میں مصروف ہے، حد تو یہ ہے کہ کرونا کو مسلمانوں کی تخلیق قرار دیا جارہا ہے، جس بنیاد پر بھارت میں مسلمانوں کوحقارت اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، بھارت میں سچ کہنے والوں کو غدار اور کئی حق پرست ہندوتا کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں، لیکن اسکے باوجود خالص سیکولر اور صیح معنوں میں بھارت سے مخلص محب الوطن رمیش کمار اور رائے جیسے سپوت طاقت کے مقابلے حق کا پر چار کر رہے ہیں، ایسے تمام افراد خراج تحسین کے مستحق ہیں۔


میرا عقیدہ سکھاتا ہے کہ حق کی پاسدای ہو، مظلوم خواہ کسی طبقے ،نسل یا مذہب سے ہو،قابل رحم و ہمدردی ہے اور اس کو ظلم سے نجات دلانے کیلئے ہر ممکن کو شش کی جا ئے،تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بحثیت انسان ہم سب کی ذمہ داری ہے، ایک دفعہ سبرا منیم سوامی کی طرح ایک بھارت نواز نے دوران مباحثہ مسلمانوں کو قاتل اور سفاک قرار دیا اور میں نے اسے چلینج کیا کہ وہ ثابت کریں کہ کسی مسلم اکثر یتی ملک یا خطے میں مسلمانوں نے غیر مسلموں کا قتل عام ایسے کیا ہو جیسے مسلمانوں کی نسل کشی بھارت، کشمیر، بر ما، اسرائیل اور دوسرے علاقوں میں جاری ہے، تقسیم ہند کے بعد کشمیر میں جموں کے قتل عام سے لیکر وادی میں گاؤ کدل، بجبہارہ، ہندوارہ انسانی سا نحات مسلمانان کشمیر کے حالت زار کی عکاسی ہے، بھارت کے طرفدار میرے دوست کے پاس مسلمانوں کی طرف سے غیر مسلموں کے خلاف اس طرح کے قتل عام کی کو ئی مثال نہیں تھی۔


ڈومیسائل قانون پاس ہو نے کے بعد ثابت ہوا کہ کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کر نے کے پیچھے بھارت کے کیا منفی عزائم ہیں۔جابرانہ ناجائز قبضے کے بعد تسلسل سے کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو کم کر نے کی سازشوں کو عملایا جارہا ہے، ،ممتاز اخبار سٹیٹسمین کے ایڈیٹر آئن اسٹیفن اپنی کتاب Moonhorned ا میں لکھتے ہیں کہ 1947 کی خزاں تک تقریبا 5لاکھ مسلمانوں کی آبادی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی۔

انسان دشمنی کی انتہاء کہ آج تک جموں سے وابستہ کسی فرد نے اس سانحہ پر دکھ یا ملامت کا اظہارنہیں کیا اور نہ ہی جموں وکشمیر سے ہجرت کر نے والوں کو واپس اپنے گھروں کو بلایا گیا، تقسیم بر صغیر کے دوران کشمیر میں مسلم اکثریتی علاقہ وادی میں غیر مسلم بالکل محفوظ رہے،اور گاندھی جی نے بھی اس مثبت پہلو کا بر ملا اظہار کیا ، بھارتی میڈیا ایسے حقائق چھپارہا ہے۔

۔موجودہ تحریک کے اوائل میں جگ موہن کے زریعے تحریک آزادی کو مذہبی منافرت کا رنگ دینے کی سازش کے تحت وادی سے کشمیری پنڈتوں کو بے دخل کیا گیا، اور بھارتی ہندوتا میڈیا اور سیاست دان پنڈتوں کی بے دخلی کیلئے بھی کشمیری مسلمانوں کو مرد الزام ٹھہراتی ہے،حالانکہ مسلمانان کشمیر کی رواداری اور انسان دوستی کہ ان پنڈتوں کی واپسی کا خیر مقدم کر تے ہیں اور جو پنڈت وادی میں مقیم ہیں انکے جان و مال کے حفاظت کر نا مسلمان اپنا قومی و روحانی فریضہ سمجھتے ہیں،کرونا کی وجہ سے کشمیر میں پھنسے بھارتی کشمیریوں کی مہمان نوازی سے متاثر ہو ئے، انتہاء پسندی کومسلم سماج میں حوصلہ افزائی کے بر عکس حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جبکہ برہمن ہندومعاشرے میں حالات اسکے بر عکس ہیں ۔

،مودی کے راج کے سایہ میں سیکولر بھارت میں نہ صرف ہندو انتہاء پسندوں کو مضبوط کیا جا رہا ہے بلکہ سی اے اے جیسے قوانین لاگو کئے جا رہے ہیں جسے گاندھی جی کے ملک بھارت میں سیکولر روایات کا خاتمہ ہو تا جا رہا ہے، دھرم کے نام پر اس سیاسی دہشت گردی سے بھارت میں اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندو کے حقوق پا مال ہو رہے ہیں، بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں ہندو انتہاء پسندوں نے گائے کے گوشت کا بہانہ بناکر کئی مسلمانوں کو شہید کیا، سکھوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کی گئی، یو پی میں نچلی ذات کی ہندو اور اڈیسہ میں عیسائی پادریوں کو زندہ جلا دیاگیا۔


جیو اور جینے دو کی بنیاد پر قائم پاکستان کے وجود سے اس خطے میں نفرتوں کا خاتمہ ہو نا چاہئے تھا،مگر حق کے مقابلے طاقت راج نے اپنی بالادستی قائم رکھنے ،دونوں ممالک ہند پاک کو بلیک میل کرانے کیلئے اور اپنے ہتھیاروں کے کاروبار کے فروغ کیلئے ہند پاک کے درمیان آپسی دشمنی کیلئے مسلہ کشمیر کو جوں کا توں رکھاہے۔نام نہاد سیکولر بھارت میں موجودہ حکمران پاکستان مخالف اور کشمیر کارڈ استعمال کر کے اپنے جرائم کو چھپارہے ہیں، پاکستان اور جائز جمہوری تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کر نے کیلئے نوجوانوں کو دہشت گردی کی لیبل لگا کر شہید کیا جارہا ہے، آسمانی آفت کے بعد احتیاتی لاک ڈاؤن کی بنیاد پر بھارتی ناجائز قبضے میں دہایئوں سے ظلم وجبر ی لاک ڈاؤن میں مقید کشمیری پر امید ہیں کہ دنیا انکے درد کو محصوص کرے گا، مگرابھی تک دنیا کی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے موجودہ بھارتی فرقہ پرست فاشسٹ حکمران ظالمانہ کشمیر پالیسی جاری رکھے ہو ئے ہیں، کشمیر کی خصوصی حثیت کی منسوخی کے بعد معصوم کشمیریوں کو قتل کیا جارہا ہے، کرونا میں مبتلاء مریضوں کیلئے سازو سامان کو متعصب سرکاری اکابرین ہندو اکثریتی علاقوں میں منتقل کر رہے ہیں۔

کرونا آفت کے روک تھام کیلئے جب دنیا میں سیاسی اسیران کو رہائی مل رہی ہے، مگر کشمیر میں نہ صرف گرفتاریاں جاری ہیں بلکہ کرونا وبا پھیلانے کیلئے اس مرض میں مبتلاء افراد کو کشمیر بھیجا جارہا ہے، کریک ڈاؤن میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر جمع کراکے اس وباء کو کشمیر میں پھیلانے کی سازشین جارہی ہیں۔ کشمیریوں نے احتیاطی تدابیر اور مسلسل جدجہد سے جابر اور کرونا کو ہرانے کے عزم کو دھرایا ہے۔

، سینئر حریت لیڈر خان سوپوری نے عوام سے تلقین کی ہے کہ ہندوتا دہشت گردوں کے برعکس بھارت سے آئے لوگوں سے حسن سلوک کریں لیکن ان کو آبادیوں سے دور رکھیں۔ بھارتی ناجائز قبضے کے خلاف بر سرپیکار آزادی پسند کشمیری من حیث القوم مسلمان و غیر مسلم اپنے بنیادی حق آزادی کیلئے پر امن جدجہد جاری رکھکراپنی شناخت کو برقرار رکھنے کیلئے کشمیریت کے خلاف ڈومیسائل قانون جیسے سازشوں کو کامیاب نہیں ہو نے دیں گے ۔

کرونا کی وجہ سے پابندیوں اور بندشوں میں ڈومیسائل قانون کا اجراء، کشمیریوں کا قتل،گرفتاریاں، ایل او سی پر گولہ بھاری،کریک ڈاؤن دنیا کی مجرمانہ خاموشی اوربھارتی حکمرانوں کے مردہ ضمیری کا شاخسانہ ہے، لہذا کشمیر مین جبری لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا کی نجرمانہ خاموشی کی سزاآسمانی بدلہ کرونا لاک ڈاؤن میں مبتلاء دنیا کو انکی ذمہ داری کا احساس دلانے ہو ئے اپیل ہے کہ مزید آسمانی آفات سے بچنے کیلئے مسلہ کشمیر حل کر نے کیلئے بھارت پر دباؤ ڈالیں اوربھارتی موجودہ فاشسٹ حکمرانوں کے عتاب سے بھارتی اقلیتوں اور کشمیریوں کو بچائیں،اگر بھارتی بڑی منڈی کی بدولت دنیا کیلئے کشمیریوں کو بچانا ممکن نہیں تو کشمیر کو بھول جائیں،کشمیر کو بین القوامی برادری سے باہر نکالو اور دنیا اعلان کرے کشمیری اس زمین کا حصہ نہیں، انکے کو ئی انسانی حقوق نہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :