اسٹیبلشمنٹ اور ووٹ کی عزت

جمعہ 25 ستمبر 2020

Faraz Ahmad Wattoo

فراز احمد وٹو

ویسے تو کرنے والے بہت سے اعتراضات کرتے ہیں لیکن اسلام پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ اتنا ہی بڑا اور انقلابی مذہب تھا تو اس نے غلامی کا خاتمہ کیوں نہیں کیا؟ ظاہر ہے یہ ایک بڑا اعتراض ہے اور علماء اس کے جوابات دیتے آئے ہیں۔ آپ مدلل علماء کے پاس جائیں تو آپ کو 8 ایسے طریقے بتائے جائیں گے جن کے ذریعے اسلام نے غلامی جیسی قبیح رسم کا خاتمہ کرنے کی لیے کچھ سٹیپس اٹھائے۔

ظاہر ہے یہ ایک بڑا اقدام تھا اور اس وقت یہ انقلابی فیصلہ یوں گلے پڑ سکتا تھا کہ لوگوں کے پاس ویسے روزگار اور آمدنی کے ذرائع نہیں تھے جیسے یورپ کے صنعتی انقلاب اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے معجزے کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔ لہٰذا اسلام نے محمود و ایاز برابر کیے اور باقی کام Revolution کی بجائے Evolution پر چھوڑ دیا۔

(جاری ہے)


دنیا میں لوگ زیادہ تر نظریاتی ہوتے ہیں۔

یہ نظریہ مذہب ہو تو تاریخ مذہبی نقطہِ نظر سے دیکھی جاتی ہے جس کے بعد عرب کے بنو امیہ ولن بن جاتے ہیں لیکن یہی بنو امیہ سپین جاتے ہیں تو اسلام کے ہیرو ہوتے ہیں اور اقبال تک ان کی بنائی مسجدِ قرطبہ کی یاد میں نظمیں لکھتے ہیں۔ نظریہ اگر دائیں بازو کی سیاست ہو تو یہ صدارتی نظام کو اسلام کے قریب ترین ثابت کرتا رہے گا۔ یہ بادشاہت اور پرانی فقہ کے حق میں بھی دلائل لاتا رہے گا۔

یہ یزید اور تیمور لنگ کی بادشاہت کو اگنور کر کے اورنگزیب اور محمود غزنوی کے مورخین کی لکھی سوانح عمری کے ذریعے اپنے خیالات کی آبیاری کرتا رہے گا۔ نظریہ اگر معاشی ہو تو یہ بدنامِ زمانہ کمیونسٹ ڈکٹیٹرز کے دور کے کمیونزم کے تجربے اور اِس وقت دنیا کی آدھی دولت کے مالک آٹھ سرمایہ داروں کو اگنور کر کے صرف کمیونزم اور کیپیٹلزم کے فوائد بتاتا رہے گا۔


نظریاتی اور انقلابی لوگ کرتے یہ ہیں کہ وہ ایک ہی نظام یا طریقے کو آخری اور بہترین حل سمجھ لیتے ہیں اور اپنے مخالفین کی بات سننا بالکل چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کے دلائل کے سورس سے ناواقف ہوں گے‘ آپ کی بات انہیں پوری طرح سمجھ بھی نہیں آئے گی لیکن پھر بھی یہ صرف اپنے نظریے سے وفا کی خاطر اپنی رائے کو ایجوکیٹ کرنا پسند نہیں کریں گے اور علم اور عمل کا میدان بھی جذبات کا الاؤ بھڑکا دیں گے۔


پاکستان کی سیاست میں بھی دو طرح کے لوگ ہیں: ایک وہ جو فوری پکڑ دھکڑ اور دباؤ سے کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کی خاطر کسی بھی طرح کا کمپرومائز کرنے کیلیے تیار ہیں۔ دوسرے وہ جو سمجھتے ہیں کہ مسائل کا حل تعلیم اور ترقی سے ہو گا اور فوری اقدام اسی طرح غیر نتیجہ بخش ہو گا جس طرح 7ویں صدی میں غلامی ختم کرنا تھا۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک یہ ہے کہ اگر آپ کے ملک میں انصاف دینے والی عدالتوں اور ملک کی حفاظت پر مامور فوج کے اداروں میں بھی کرپشن ہوتی رہتی ہے تو ثابت ہے کہ کرپشن اس قوم کے DNA کا حصہ بن چکی ہے اور اس کا ابھی فوری ایکشن لے کر خاتمہ کیا جائے تو کام کون کرے گا؟
ایک طرف نظریہ اور انقلاب ہے اور دوسری طرف وژن اور زمینی حقائق کا ادراک۔

اب یہی زمینی حقائق کے ادراک والے شریفوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی انجینیئرنگ بند کر کے صرف ووٹ کو عزت دینی چاہیئے۔ اس کے بعد فوج نے سب سے پہلے اعلان کر دیا ہے کہ وہ آئندہ کسی سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ خانِ اعظم اور ان کے منسٹرز سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کے اس مطالبے نے عوام کے سامنے انہیں ایکسپوز کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی عدلیہ اور فوج پر کی نیتوں پر شک کرتے ہیں۔


اب غور طلب بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تو ہر ملک میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ Pentagon کی اہمیت اور اس کے وقار کو دنیا تسلیم کرتی ہے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت اور جمہوریت پسندوں کا طبقہ کیوں اسٹیبلشمنٹ کو اپنے پر سمیٹنے کا مطالبہ کر رہا ہے؟ تو اس کی وجہ بڑی سادی سی ہے جسے سارا ملک جانتا بھی ہے لیکن سیاستدان آئے دن اتنے بدنام ہوتے ہیں کہ عوام کو وہ ڈکٹیٹر ہی فرشتے نظر آنے لگتے ہیں۔


بھارت ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ آبادی سوا ارب ہو چکی ہے اور غربت، مہنگائی اور معاشی نا برابریاں بہت ہیں۔ حکومت ٹوائلٹ تک نہیں بنوا پاتی اور ممبئی کے سمندر کے ساحل پر ہر صبح گند ہی گند ہوتا ہے لیکن بھارت کی 73 سالہ تاریخ میں کبھی مارشل لاء نہیں لگا۔ امریکہ کو برطانیہ سے جنگ کر کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام سے بنایا گیا۔ جارج واشنگٹن جنگ کے ہیرو تھے۔

انہیں ہی امریکہ کی باگ ڈور سنبھالنی پڑی لیکن وہ بندوق کے زور پر یا مارشل لاء کے ذریعے امریکہ کی فلاح کو نہیں دوڑے تھے۔ امریکہ میں کبھی مارشل لاء نہیں لگا اور ووٹ ہی کو عزت ملتی آئی ہے۔ آج امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے خلاف ہیں لیکن امریکی منتخب صدر کے پاس اتنی طاقت ہے کہ صرف ان کی منشاء پر امریکہ افغانستان چھوڑ رہا ہے۔


ہمارے ملک کی آدھی تاریخ فوجی ڈکٹیٹرز سے بھری پڑی ہے۔ باقی آدھی تاریخ کا بڑا حصہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی انجینیئرنگ اور سیاسی عدم استحکام سے پر ہے۔ اسد درانی اور حمید گل نے تسلیم بھی کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بینظیر بھٹو سے خوفزدہ تھی اور وہ پارٹیوں کو ان کے خلاف اقدامات کرنے کیلیے فنڈ کرتے رہے ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ نواز شریف فوج کے ساتھ خراب تعلقات کی وجہ سے 3 دفعہ وزارتِ عظمٰی سے نکالے گئے۔

بھٹو کا سیاسی قتل بھی اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ امریکہ میں 2 صدر قتل ہوئے تو اس کے بعد سیکیورٹی اور پروٹوکولز اتنے سخت ہیں کہ اس ماڈل کو دنیا فالو کرتی ہے۔ یہاں قتل ایسے ہوتے ہیں کہ انکوائری بھی ممکن نہیں رہتی۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے پاکستان میں آج تک کسی منتخب وزیرِاعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔
عمران خان خود مانتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی لازم ہو جاتی ہے۔

دنیا دن بدن تھوڑی بہت سے بہت زیادہ آزادی کی طرف جا رہی ہے۔ کل تک اخبار نہیں چھپنے دیے جاتے تھے، ٹی وی پر خبر، تقاریر اور بیانات کی نشریات کی جگہ قومی ترانہ لگا دیا جاتا تھا۔ وہ دور اب ختم ہو گیا۔ اب ہر بندے کو سوشل میڈیا پر رسائی ہے۔ ہر انسان ہی صحافی اور تجزیہ نگار بھی ہے۔ اب خبر چند ہاتھوں تک رہتی ہے نہ کرپشن اور دھاندلی والی باتیں راز رہتی ہیں۔ کرپشن ارتقاء کی بجائے انقلاب سے ختم کرنا ایک خواب جبکہ اسٹیبلشمنٹ کا ووٹ کو عزت دینا ایک عالمی سطح پر پسندیدہ چیز ہے۔ موجودہ حکومت نے ہمیں سکھایا ہے کہ کرپشن صرف اپوزیشن کے احتساب سے ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان میں آئین کی توقیر اور سول بالا دستی ناگزیر ہے اور فوج سیاست سے دور رہ کر اچھا فیصلہ کر رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :