ارمانوں کا خون کرنے والے جان لیں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے

پیر 8 اپریل 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

قومی سیاست میں حکمران اور اپوزیشن کے درمیان لفظی جنگ سے قوم پریشان اور دشمنی خوشحال ہے حکمران ہیں اپوزیشن یا اُن کے حواری اور درباری ان میں کسی ایک کا بھی کوئی گریبان نہیں اگر ہے تو گردن ایسی اکڑی ہے کہ جھک کر دیکھ نہیں سکتے ۔حکمران جماعت کے وزیر اعظم عمران خان بھی بدکلامی اور بدزبانی پر اُتر آئے ہیں کہتے ہیں بلاول بھٹو کی جہاں اُردو ختم ہوجاتی ہے وہاں انگریزی بولنے لگتے ہیں ۔

جو پارلیمنٹ میں کسی کو سمجھ نہیں آتی ۔
عمران خان نے نشاندہی کی ہے اُن کی جوجاگیر دار اور سرمایہ دار تو ہیں لیکن انگوٹھا چھاپ ا نگریزی جن کے اُوپر سے گزر جاتی ہے لیکن عمران خان بھول گئے ہیں شاید کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے عہدے کاحلف انگریزی میں لیا تو کیا چیف جسٹس صاحب کو بھی اُردو میں پیدل ہیں ۔

(جاری ہے)

مطلب ہے کہ عوام کو بے وقوف بنانے اور جلسہ عام میں تالیاں بجوانے کیلئے ایسے بیانات اور خطابات وزارتِ اعظمیٰ کی شان نہیں لیکن گلاس میں ضرورت سے زیاہ پانی ڈالیں تو چھلک جاتا ہے۔

عمران خان کی حکمرانی میں الزامات در الزامات کی جوکثر عمران خان سے رہ جاتی ہے وہ فواد چوہدری پوری کر دیا کرتے ہیں اس لیے کہ وہ تنخواہ ہی اسی کی لیتے ہیں یہ ذمہ داری مسلم لیگ ن کے دورِ حکمرانی میں پرویز رشید کی ہوا کرتی تھی جو اقتدار کے بعد اب مریم اورنگزیب بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہیں ۔
مسلم لیگ ن کی سیاست سپریم کورٹ پر حملے سے شروع ہو کر حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کیلئے نیب کے آئے ہوئے اہلکاروں کے گریبان پھاڑنے تک آپہنچی ہے ۔

شہباز شریف کے صاحبزادے کہتے ہیں آج چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ تربیت تو پنجاب میں ان ہی کے دورِحکمرانی میں دی گئی ہے یہ تو مکافاتِ عمل ہے جو کچھ آج ان کی جماعت مسلم لیگ ن کیساتھ ہورہا ہے گزشتہ کل اپنی حکمرانی یہی کچھ وہ اپنے مخالفین کیساتھ کرتے ر ہے درد تو اُسے ہوتا ہے جس کو چوٹ لگتی ہے مسلم لیگ ن کو پہلے ایسے کسی درد کا احساس نہیں ہوا تھا اب ہورہا ہے اس لیے کہ چوٹ ان کو لگ رہی ہے ۔

مسلم لیگ ن نے نہ تو کبھی قانون اور عدل کا احترام کیا،نہ آج کر رہے ہیں اور نہ ہی آئندہ ان سے ایسی کوئی اُمید ہے لیکن افسوس تو ہے ہم اہل وطن میں اُن درباریوں کے عمل پر کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اُن کی قیادت قانون کی نظر میں مجرم ہے لیکن اُنہیں فرشتہ جان کر ہم قانون ہاتھ میں لے کر ماتم کر تے ہیں یعنی اُن کے جرائم کو تحفظ دیتے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے علاقے کے وڈیرے قانون کے مجرم اشتہاریوں کی سرپرستی کر کے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہوئے اُن کو تحفظ دیتے ہیں ۔

میری نظر میں یہ نظریاتی جہالت ہے نظریات سے محبت سیاست کا حسن ہے لیکن نظریات سے محبت میں قوم اور قانون کا احترام نظر انداز کر دیناو طن اور عوام دشمنی کے مترادف ہے اور ہماری اس جہالت کا ہمارے خود پرست لیڈر بڑا فائدہ اُٹھاتے ہیں ہمارے جذبات اور احساسات پر اپنے محل تعمیر کرتے ہیں ہمیں بڑی خندہ پیشانی سے لوٹتے ہیں ہماری نظریاتی محبت کا مذاق اُڑاتے ہیں ہماری توہین کرتے ہیں لیکن ہم پھر بھی ان ہی کے گیت گاتے ہیں ہم اپنی حالت بدلنے کا نہیں سوچتے خدا بھی تو اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو قوم اپنی حالت نہیں بدلتی ۔

گڑھی خدابخش میں جو کچھ ہوا دنیانے دیکھ لیا ۔بلاول بھٹو زرداری نے کس شان سے شہباز شریف کے تقریری سٹائل میں جھومتے ہوئے کہا اگر حکمران جماعت نے 18ویں ترمیم کو چھیڑا تو میں لات مارکر حکومت گرادوں گا ۔بلاول بھٹو ہی کیا ہمارے پاکستان میں تو ہمارے عظیم علماء کرام بھی نماز ِ جمعہ کے عظیم الشان اجتماعات دیکھ کر پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں اور بلاول بھٹو تو گڑھی خدا بخش میں پیپلزپارٹی کی شہید قیادت کے شیدائیوں سے مخاطب تھا ۔

شہدائے جمہوریت کے شیدائیوں سے مخاطب تھا بلاول بھٹو کہتے ہیں ۔آج کے دن پاکستان کی عوام کی اُمیدوں کا قتل ہوا تھا ۔1973ء کے آئین کے خالق کا خون ہوا تھا میں سوال پوچھ رہا ہوں عوام کے محافظ کو قتل کیوں کیا؟لیکن کیا ہی بہتر ہوتا وہ یہ سوال اپنے والد آصف علی زرداری سے پوچھتا کہ آپ عرصہ دراز سے سندھ کے حکمران ہیں صدر پاکستان بھی تھے ، لیکن آصف علی زرداری سے تو وہ یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ میری ماں او رتمہاری بیوی کا سرِعام قتل ہوا میری ماں جمہوریت کی بالادستی اور پاکستان کی عوام سے محبت کے جرم میں شہید ہوئیں ۔

آپ(زرداری)جانتے تھے آپ کہتے تھے کہ میں قاتل کو جانتا ہوں اگر جانتے تھے تو کیفرِ کردار تک کیوں نہیں پہنچایا۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ٹوٹے ہوئے ملک کو جوڑا۔ہاری ہوئی قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جنگی قیدی واپس لایا،جس نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا اُس کو قتل کیوں کیا؟
سوال بڑااہم ہے لیکن آخرکب تک پیپلزپارٹی کی قیادت عوامی جلسوں میں عوام سے یہ سوال پوچھے گی کب تک ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت پر سیاست ہوگی کب تک شہیدانِ جمہوریت کی قبروں پر اپنی سیاست چمکائی جائے گی کب تک عوام کو اُن کے نظریات سے محبت پر گمراہ کرے گی ۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت سے گزشتہ انتخابات تک اقتدار میں رہ کر جمہوریت کے استحکام کے نام پر مسلم لیگ ن کی حکمرانی کا ساتھ دے کر قوم کو بتائے کہ پیپلزپارٹی نے پاکستان اور پاکستان کی عوام کیلئے کیا کیا ؟شہید قیادت نے قومی کردار ادا کیا اس لیے باوجود جسمانی طور پر دفن ہونے کے روحانی طور پر عوام کے دلوں میں دھڑک رہے ہیں لیکن آصف علی زرداری اور اُن کے حواریوں اور درباریوں نے قوم کو کیا دیا ؟
کن خدمات کا واسطہ دے کر حکمرانی کے خواب دکھائے جارہے ہیں حکومتیں لاتوں اور باتوں سے نہیں گرائی جاسکتیں طاقت کا سرچشمہ عوام کے ارمانوں کا خون کرنے والے جان لیں خدا کی لاٹھی بے آواز ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :