قیادت سے اپنی محبت کا مظاہرہ کیا یہ نہ تو درباری تھے اور نہ حواری!!!

پیر 8 اپریل 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

سنا تو یہ تھا بلکہ یہ حقیقت ہے سیاستدان اور قومی رہنما لیڈر اُس وقت بنتا ہے قوم کا دل اُس وقت جیتتا ہے جب وہ جیل جاتا ہے ۔افریقہ کے نیلسن منڈیلا عوام کیلئے جیل گئے اپنی جوانی سمندر کے بیچ جزیرے کی جیل میں قوم پر قربان کی اور جب رہائی ملی تو افریقہ میں انقلاب لائے اور افریقہ کے صدر بن گئے ایسے کئی رہنما ہیں لیکن ذکر اپنے دیس کا کرتے ہیں ۔


ذوالفقار علی بھٹو عوامی وزیر اعظم تھے جیل گئے بادشاہوں نے کہا پاکستان چھوڑدوجان بچ جائے گی ۔بھٹو نے کہا میں دیس کی مٹی ہوں دیس ہی میں دفن ہوں گا۔تختہ دار پر جھول گئے جسمانی طور پر دفن ہوگئے لیکن روحانی طور پر آج بھی محب ِوطن عوام کے دلوں میں دھڑک رہے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری 11سال تک جیل میں رہے ۔

(جاری ہے)

رہائی کے بعد پاکستان کے صدر بن گئے ۔

بے نظیر بھٹو عوام کیلئے جیل گئیں ،جلاوطن ہوگئیں ،لیڈر بن گئیں اور وزیر اعظم بن گئیں ۔شہید ہوگئیں لیکن آج بھی تاریخ میں ایشیاء کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے قومی کردار میں زندہ ہیں ۔پاکستان کی عوام اور سیاستدان اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے لیکن حیرانی ہے مارشل لاء کی پیداوار مسلم لیگ ن کی قیادت کے قول وعمل ،فکر وکردار پر شاہی محلات میں ہی زندگی کوسوچتے ہیں نہ پاکستان کو سوچتے ہیں نہ پاکستانی عوام کو ۔

وزیر اعظم ہوں تو حزبِ اختلاف کا خون چوستے ہیں جب اپنے کیے کے جرم میں جیل جاتے ہیں تو معافی مانگ کر شاہوں کی گود میں جابیٹھتے ہیں ۔قومی عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ تم صادق اور امین نہیں ہو اور پھر رونا روتے ہیں مجھے کیوں نکالا ۔آزاد فضا میں سانس لینا اپنا حق سمجھنے لگے ہیں جب بولتے ہیں تو لفظ تولتے نہیں نہ ارادوں کو معاف کرتے ہیں ،نہ عدالتوں کو ،نہ افواجِ پاکستان کو جب اپنے کیے کے جرم میں جیل جاتے ہیں تو پھر شور مچاتے ہیں مجھے باہر نکالو ۔

بیمار ہو کر بھی بیماری کا علاج نہیں کرتے اور درباری آسمان سرپہ اُٹھائے پھرتے ہیں خود بھی اپنے کیے کے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں اور قوم کو بھی مبتلا رکھتے ہیں ۔اُن کی درباری مریم اورنگزیب بولتی ہیں تو ایسے جیسے میاں برادران قوم کے سب سے بڑے مظلوم ہوں۔جانے جیل میں اُن کو مچھر لڑتے ہیں یا مچھردانی نہیں ملتی لیڈر ہوکر جیل سے ڈرتے ہیں حالانکہ جیل تو لیڈر کی شان ہوتی ہے شہباز شریف کو دیکھیں سزا یافتہ ہیں لیکن اپوزیشن لیڈر بھی ہیں ۔

جیل بھی جاتے ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی بولتے ہیں۔ سیاست کی ایک عجیب تاریخ رقم ہورہی ہے ۔حمزہ شہباز نے جو تماشہ کر دکھایا مسلم لیگ ن کی رہی سہی ساکھ کا جنازہ نکال دیا اتنا بزدل اور نوجوان سیاستدان گرفتاری کے خوف سے جانثار کارکنوں کے پیچھے گھر میں گھر کی چھت پر چھپ گیا ۔ حمزہ شہباز شریف اگر خوشگوار ماحول میں عزت واحترام میں گرفتاری دے دیتے تو مسلم لیگ ن کی آنکھوں کا تارہ ہوجاتے اگر دودن احتساب عدالت کی زیرحراست رہتے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا ۔

گرفتاری دیتے تو کارکن اُن پر پھول برساتے ۔احتساب عدالت کی نظر میں وہ مجرم تو ہیں آج نہیں تو کل گرفتار ہوجائیں گے معافی توملنی مشکل ہے ، افسوسناک ڈرامہ کر گئے اپنے لیے اور مشکلات پید اکردیں گرفتار بھی ہوں گے اور جیل بھی جائیں گے جیل کے مچھر اُن کا انتظار کر رہے ہیں ۔
حمزہ شہباز سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہیں ۔وہ نہیں جانتے جیل کے مچھر کتنے ظالم ہوتے ہیں ۔

وہ غریب تو رہے نہیں غریب کے درد کو کیا جانیں وہ تو غریب کے درد کو صرف بولتے ہیں غریب کا درد نہ تو کبھی دیکھا ،نہ کبھی سوچا اور نہ کبھی محسوس کیا دراصل ہماری قومی سیاست کے قومی رہنما لاشوں پر سیاست کرتے ہیں دھرنوں کی سیاست میں لیڈر بنتے ہیں ۔عوام کا خون پیتے ہیں قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں ۔
موروثی سیاست کے علمبردار کیا جانیں قوم اور قومیت کس بلا کا نام ہے اُن کو اگر غرض ہے تو اپنی ذات سے اور ذاتی درباریوں سے ذات میں عیاشی سوچتے ہیں اور درباریوں کی مجبوری اور جذبات سے کھیلتے ہیں ۔

مردہ ضمیر لوگ کیا جانیں اُن کو چاہنے والے کس اذیت میں اُن کیلئے قربانیاں دیتے ہیں ۔اُن کی جمہوریت نوازی تو ذاتی مفادات اور درباریوں کیلئے تحفظات میں گزرتی ہے ۔اسمبلیوں میں دیکھیں تو رہنما انگوٹھا چھاپ وزارتوں میں دیکھیں تو بدزبان او ربدکلام ان کے حواریوں اور درباریوں کو شہروں اور گاؤں میں دیکھیں ان کے حواریوں او ردرباریوں کو شہروں اور گاؤں میں دیکھیں تو وہ معاشرتی مجرم جن کی سرپرستی کرتے ہیں وہ عوام کیلئے اُن کے پیر اور فقیر ہوتے ہیں ۔

رفیق اُن کے بھی سب بے ضمیر ہوتے ہیں 
جو بدقماش ہوں گاؤں میں پیر ہوتے ہیں 
تمہیں ہے فکر لٹیروں کا بھول جاؤگل#
ہمارے دیس میں غنڈے وزیر ہوتے ہیں 
موجودہ سیاسی فضا میں مسلم لیگ ن کی قیادت کا سیاسی کردار انتہائی افسوسناک ہے قانون ،عدالت اور اداروں کے احترام کے قریب سے بھی نہیں گزرے ۔اپنے چاہنے والے مخلص اور جانثار کارکنوں سے اگر محبت کرتے ہیں تو صرف ذاتی مفادات کیلئے ۔

ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ ن کے چاہنے والے کارکنوں نے قیادت سے اپنی محبت کا مظاہرہ کیا یہ نہ تو درباری تھے اور نہ حواری بلکہ قیادت کے پروانے تھے لیکن ان پروانوں پر کیا گزری کسی نے را ت کو اُن کونہیں پوچھا ہوگا کہ تم پر دن بھر کیا گزری ۔کاش!ہم پاکستان کے غریب مزدور کسان فقیر اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ ہم نے اپنے ہی دیس میں دفن ہونا ہے اس لیے اپنے وطن سے محبت کریں جن کیلئے گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے ہیں وہ خود غرض اور مفاد پرست ہیں وہ اس انتظار میں ہیں کہ کب ہم میں سے کسی کی لاش گرے اور وہ ہماری لاش کسی چوراہے پر رکھ کر مگرمچھ کے آنسو بہائیں اور ماتم کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :