اپوزیشن اور حکمران آمنے سامنے۔قوم پریشان

پیر 6 مئی 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

تحریک انصاف کو پاکستان کی عوام نے ووٹ دیا اپوزیشن نے الزام لگایا ۔دھاندلی ہوئی !! دھاندلی وطن عزیز میں ہر الیکشن کے بعد ہارنے والوں کی زبان پرہوتی ہے وہ اپنے مد ِمقابل کی جیت اور اپنی شکست تسلیم نہیں کرتے حالانکہ انتخابی عمل سے قبل وہ نعرہ لگاتے ہیں ووٹ کو طاقت دو او رجب ووٹ کو طاقت ملتی ہے تو طاقت تسلیم نہیں کرتے اس لیے کہ ووٹ کی طاقت سے وہ شکست سے دوچار ہوتے ہیں ۔

یہ صورتحال ہم اپنے وطن عزیز میں دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے رہیں گے اس لیے کہ وطن عزیز کی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کی قیادت جیت ہی کو اپنا حق جانتی ہے اپنی شکست کوتسلیم نہیں کرتی وہ کبھی بھی خوداحتسابی کے عمل سے نہیں گزرے دوسروں کے احتساب پر بغلیں بجاتے ہیں اور اگر احتساب کا پھندہ اُن کے اپنے گلے میں آئے تو لازم ہے راتوں کی نیند ہوا ہوجاتی ہے لیکن اپنی بے آرامی میں قوم کا سکون بھی برباد کردیتے ہیں ۔

(جاری ہے)

وطن عزیز میں آجکل یہ ہی تماشہ لگا ہے ۔
 شام کو عام طور پر خبرنامہ دیکھنے کیلئے اپنی قلمی مصروفیت سے ایک گھنٹہ نکال لی کرتا تھا لیکن دل اُکتا گیا اس لیے کہ ٹی وی سکرین پر ہر جماعت کے درباری اپنے دربار کے گیت اس خوبصورتی سے گاتے ہیں کہ سچائی پریشان ہوجاتی جھوٹ بولتے ہیں حقائق کو تسلیم نہیں کرتے اچھے بھلے پڑھے لکھے درباری جانے حقائق کوتسلیم کیوں نہیں کرتے عدالت اگر اُن کی جماعت کے حق میں فیصلہ دے تو عدلیہ زندہ باد اگر فیصلہ خلاف جائے تو عدلیہ مردہ باد اور پھر نہ صرف عدلیہ نشانے پر ہوتی بلکہ دیگر قومی اداروں پر بھی انتہائی توہین آمیز لفظوں کے تیر برساتے ہیں ایسے میں قوم کے سنجیدہ مزاج لوگ سوچتے ہیں کہ اگر یہ ہماری قیادت کا حال ہے تو عوام کی بھیڑچال کا رونا کیسا!
ٹی وی چھوڑ کر اخبارات کی طرف راغب ہوا تو وہی تماشہ لکھنے والے بھی درباری قلم کی حرمت سے بے پرواہ صرف اُنہی کے گیت گارہے ہیں جواُن کو اور اُن کے حال اور مستقبل کی نسلوں کے کھانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔

طوطا کہانیاں لکھنے والے کیوں نہیں مانتے کہ وہ پاکستانی ہیں پاکستان اور پاکستا ن کی عوام سیاسی قیادت کے کرتوت ان کے چہروں پر پڑھ کر کیوں نہیں لکھتے ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان ہماری شان اور پہچان ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاسی چوروں نے کبھی بھی اپنی چوری کو تسلیم نہیں کیا بلکہ سینہ زوری اپنی شان سمجھ کر عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔

مسلم لیگ ن کے وزیر اعظم کو پاکستان کی بڑی عدالت نے یہ فیصلہ دے کر وزارتِ اعظمیٰ کی کرسی سے بے دخل کیا کہ تم صادق اور امین نہیں ہو لیکن اُس کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اخباری بیان میں حکمران جماعت کو دھمکی دیتے ہیں ۔کہ عمران سنبھل جا ؤ ۔ ورنہ جمہوریت خطرے میں ہے آمریت کا خطرہ ہے تم نے پاکستان کو آئی ایم ایف کی کالونی بنادیا ہے ۔

میاں محمد نواز شریف بے قصور ہیں ان کیساتھ ناانصافی ہوئی ہے ۔وہ سات مئی کو خود جیل جائیں گے یہ بیانیہ ہے ایک سابق وزیر اعظم کا۔
شریف خاندان تو تقریباً برطانیہ منتقل ہوچکا ہے ۔نواز شریف نے بیماری کا ڈرامہ کیا ڈاکٹروں نے غلط بیانی کی عدالت نے تاریخ میں پہلی بار علاج کیلئے قیدی کو رہا کردیا ۔پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن دنیا پر ثابت کرنے کیلئے کہ میاں محمد نواز شریف علاج کے پردے میں پاکستان سے فرار ہونے کیلئے راستے کی تلاش میں ہیں انہوں نے شاہی محل میں خوش خوراکی اور خوشامدیوں سے ملاقاتیں کیں۔

اپنے علاج کے لئے کسی ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے لیکن اپنی ضمانتی مدت میں توسیع اور علاج کی غر ض سے بیرون ملک جانے کی درخواست دے ڈالی وہ بھی مسترد ہوگئی ۔اب اگر خاقان عباسی کہتے ہیں کہ میاں صاحب خود جیل جائیں گے تو حیرانی والی بات ہے جیل نہیں جائیں گے تو کہاں جائیں گے ان کا ٹھکانہ ہی جیل ہے اس لیے کہ حکمران جماعت کے عمران خان ہر دوسرے دن کھلے عام کہہ رہے ہیں پیسہ بنانے والے وطن چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں لیکن جو بھاگ گئے بھاگ گئے کسی او رکو بھاگنے نہیں دوں گا ۔


    حکمران اور اپوزیشن کے مابین پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر بیانیہ جنگ جاری ہے قومی اور صوبائی اسمبلیاں اکھاڑے بن چکے ہیں ۔منتخب عوامی نمائندے تنخواہیں اور مراعات وصول کر رہے ہیں ۔قومی خزانے پر بوجھ حکمران جماعت کے وزراء کارکردگی دکھانے او راپوزیشن کے رہنما کارکردگی میں کیڑے پر لگے ہوئے ہیں۔دونوں جماعتوں کی زبان پر اپنے گزشتہ کل کو بھول کر مہنگائی اور غریب کی غربت کا رونا ہے ۔

رونے کو تو مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں لیکن ان کا رونا عوام کیلئے نہیں اپنی ذات کیلئے ہے اس لیے کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہم سے بھی کوئی حساب لینے والا آئے گا یہ لوگ اپنی حکمرانی میں خدا کی لاٹھی تک کو بھول گئے تھے او راب جب لاٹھی گھومی ہے تو قوم کو عذاب میں مبتلا کر دیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :