عوام جاگ چکی ہے

پیر 3 جون 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پیغام ہے پاکستان کے سابق حکمرانوں او رموجودہ اپوزیشن کو کہ عقل کے ناخن لو ۔عوام جاگ چکی ہے بھول جاؤ اپنا وہ دو رجس میں آپ لوگ عوام کو وعدے کھلا رہے تھے اور عوام کا خون پسینہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ اور پی رہے تھے ۔آج کے دور میں وعدوں پر حکمرانی کے خواب تو دیکھے جاسکتے ہیں حکمرانی حاصل نہیں کی جاسکتی اور وہ سابق حکمران تو بھول جائیں اس لیے کہ عوام اُن کو اُن کی حکمرانی میں دیکھ اور پر کھ چکی ہے اگر کچھ عقل کے اندھے گیت گارہے ہیں تو اس لیے کہ وہ خود کو دورِ حاضر کے نئے سانچے میں ڈھال نہیں سکتے اس لیے پرانے راگ گاکر ڈنگ ٹپا رہے ہیں اپنی شخصیت پرستی کی سوچ پر ماتم کر رہے ہیں ۔


نریندر مودی نے بھارت کی عوام کو اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں وعدے نہیں کھلائے بلکہ عملی طور پر بھارتی ازم اور بھارت کے سنجیدہ مزاج طبقے کو عملی طور پر حکمرانی کا ہر وہ منظر دیکھا یا جو بھارت کے بنیاد پرست عوام اپنے ملک میں چاہتے تھے ۔

(جاری ہے)

دنیائے اسلام خاص کر پاکستان میں بھارت کے مسلمانوں اور جموں کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم وبربریت پر آسمان سرپر اُٹھایا کشمیری اور بھارتی مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہندوسامراج کارقص دنیا نے دیکھا لیکن بھارت کی عوام نے اُسی نریندر مودی کو ایک تہائی اکثریت سے کامیاب کرواکر کسی مولانا فضل الرحمان کو دھاندلی دھاندلی کا شور مچانے کا موقع تک نہیں دیا ۔

بھارت کی قوم پرست عوام نے نریندر مودی کے ہر اقدام کو سراہا ،ہر اقدام کو بھارت اور بھارت کی عوام کا بنیادی حق قرار دیا اور دنیا پر ثابت کر دیا کہ دو اب دور گفتار کا نہیں کردار کا ہے ۔ 
بھارت میں حکمرانی کیلئے نریندر مودی نے بھارت کی سنجیدہ مزاج عوام کی سوچ کے مطابق حکمرانی کی اور اُن کے دل جیت لیے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن سے پہلے نریندر مودی کے نام پیغام میں امن کے پیغام کو دھرایا تو پاکستان کی اپوزیشن نے آسمان سرپر اُٹھالیا لیکن عمران خان جانتا تھا کہ عوام کیا چاہتی ہے بھارت کی عوام بھارت کی سرزمین پر بھارت کی حکمرانی کی رٹ کو شاداب دیکھنا چاہتی تھی جیساکہ پاکستان کی عوام پاکستان کی سرزمین پر کرپشن کے خلاف دئیے گئے اپنے ووٹ کا احترام چاہتی ہے پاکستان کے سیاستدانوں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہے پاکستان پر حکمرانی کیلئے عوام کے دل جیتنا ہوں گے ۔

اتحادوں ،تحریکوں اور دھرنوں سے عوام کو ورغلانے کا دور گزر چکا ہے ۔دھرنے جس مقصد کیلئے عوام نے دئیے تھے وہ اُس میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ پاکستان پر حکمرانی کے بہروپئے بے نقاب ہوچکے ہیں اخباری سُرخیوں اور پرجوش تقریروں کا وقت نہیں رہا قوم جاگ چکی ہے لیکن خودپرست موروثی سیاستدان آج بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ عوام اُن کیساتھ ہے اور اُن کی یہ غلط فہمی اُس وقت دور ہوگی جب سڑکوں پر نکلیں گے ۔

سابق حکمران اور آج کی اپوزیشن جماعتوں کو احساس ہوچکا ہے کہ تیر اُن کی کمان سے نکل چکا ہے اس لیے اب وہ تنکوں کا سہارا لے رہے ہیں ۔پی پی پی کے چیئرمین پارٹی کے بنیادی منشور بھول چکے ہیں پاکستان دشمن قوتوں سے ہمدردی اُن کو بہت مہنگی پڑے گی بلاول بھٹو قومی سیاست کے مستقبل کی بہترین قیادت ہے لیکن راتوں رات اقتدار کی خواہش میں وہ اپنے مشیروں کے جھال میں پھنس چکے ہیں ۔

قبائلی علاقے سے منتخب رکن اسمبلی علی وزیر کی گرفتاری کی مذمت اور اُن کے پروٹیکشن آرڈر کیلئے اُن کا بیان افسوسناک ہے ۔
بلاول بھٹو نے نیب میں اپنی حاضری کے بعد ایک سوال کے جواب میں تسلیم کیا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورِ اقتدار میں بھی پاک فوج پر آوازے کسے جاتے تھے لیکن محترمہ نے ایسی آوازوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی اگر اُن کی والدہ دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم حوصلہ شکنی کرتی تھیں تو بلاول بھٹو حوصلہ افزائی کیوں کر رہے ہیں ۔

بلاول بھٹو کی خواہش پر کے پی کے کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ علی وزیر کے پروٹیکشن آرڈر جاری نہیں ہوں گے اس لیے کہ پی ٹی ایم پاک فوج کی چیک پوسٹ پر براہِ راست حملے میں ملوث ہے اور تحریک انصاف افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ ہے ۔
قومی سیاست میں پیپلزپارٹی کی قیادت اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارکر تحریک انصاف کی حکمرانی کو تقویت دے رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی نوجوان قیادت نے اپنی شکست تسلیم کر لی ۔

مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر نواز شریف باہر ہوتے تو حکومت ایک دن بھی نہ چلتی یہ اعتراف ہے مسلم لیگ ن کی نااہل قیادت کا کہ وہ عوام کا اعتماد کھوچکی ہے ۔تحریک اُس وقت اُٹھتی اور جمتی ہے جذبات اُس وقت بھڑکتے ہیں ،خون اُس وقت جوش مارتا ہے جب قیادت پابند سلاسل ہو لیکن اس کیلئے دوسری اہل قیادت کی ضرورت ہوتی ہے اور مسلم لیگ ن کی نوجوان قیادت نااہل اور ناتجربہ کار ہے ۔

اعلیٰ قیادت میں میاں نواز شریف جیل میں ہیں اور میاں شہباز شریف برطانیہ میں سڑکوں پر مٹرگشت کر رہے ہیں مسلم لیگ ن کی دوسری قیادت کے درباریوں کے گلے بول بول کر خشک ہوچکے ہیں اس لیے وہ پس منظر میں خاموش تماشائی ہیں وقت کا انتظار کر رہے ہیں اُونٹ کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن تحریک انصاف کے عمران خان جسے مریم نواز نالائق وزیر اعظم کہہ رہی ہے جسے وہ وزیر اعظم تسلیم نہیں کرتی اُسی نالائق وزیر اعظم نے مسلم لیگ ن کی اعلیٰ اور ادنیٰ قیادت کو ناکوں چنے چبوادئیے ہیں ۔

وہ عدالتوں کے رحم وکرم پر ہیں وہ فیصلوں کے منتظر ہیں لیکن فیصلے جلد نہیں ہوں گے اس لیے کہ اگر یہ لوگ جیل گئے تو ان کے چہرے بے نقاب نہیں ہوں گے بلکہ ہیرو بن جائیں گے ۔عدالتوں میں پیشیاں او رتاریخوں پر تاریخوں کا مقصد عوام کو ان کے اصل چہرے دکھانا مقصود ہے ان کو عدالتوں کے چکر لگوانے او ردوڑادوڑا کر ہمیشہ کیلئے زندہ درگورکرنا ہے۔
 ایک سکھ کے پاس ایک ہی بنیان تھی وہ ہر روز اُلٹ پلٹ کر پہنتا رہتا تھا کسی نے پوچھا کہ بنیان اُلٹا کیوں پہن لیتے ہو سکھ نے کہا اس میں جوئیں ہیں پوچھنے والے نے کہا اگر جوئیں ہیں تو گرم پانی میں دھوکیوں نہیں لیتے سکھ نے کہا نہیں میں نے ان کو دوڑا دوڑا کر مارنا ہے ۔

ایسی ہی صورتحال سابق حکمران اُن کے درباری اور حواری دوچار ہیں ۔نالائق وزیر اعظم عمران خان ان کو دوڑا دوڑا کر پاکستان کے سیاسی منظر سے ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں احتساب عدالتیں ریفرنس پہ ریفرنس دائر کر رہی ہیں قوم ہر روز کرپشن کی ایک نئی خبر سنتی ہے او رمیڈیاپر نئے کرپشن پر بحث ومباحثے میں رہی سہی کسر نکل جای ہے ۔
اپوزین کی نالائق جماعتوں کی اعلیٰ قیادت نے خود ہی عمران خان کو لیڈر بنایا ہے او رآج بھگت رہے ہیں اگر میاں نواز شریف عمران خان کے طویل ترین دھرنے میں اُن کے مطالبے پر استعفیٰ دے دیتے تو قومی ہیروبن جاتے لیکن میاں نواز شریف نے قوم کا دل بڑا دکھایا تھا معصوم دلوں کی آہیں عرش سے ٹکرا چکی ہیں۔

عبرتناک انجام میاں برادران کا مقدر لکھا جاچکا تھا اور آج اپنے مقدر کا لکھا بھگت رہے ہیں ۔مسلم لیگ ن سیاسی طور پر ختم ہوچکی ہے اس لیے کہ عوام جاگ اُٹھی ہے ۔وہ جان چکی ہے کالا کیا ہوتا ہے او رسفید کیا ہوتا ہے اگر مسلم لیگ ن کا کوا سفید ہے تو ہوگا لیکن کوا کالا ہوتا ہے جہاں تک سفید کوے کی بات ہے تو وہ عام طور پر پنجروں میں خوبصورت لگتا ہے ۔

رہی بات آصف علی زرداری کی تو وہ پاکستان کے حادثاتی صدر تھے ۔خاتون وزیر اعظم اورانہی کی شریک حیات بے نظیر بھٹو کی شہادت نے اُسے مسند ِصدارت پر بٹھایا اُسے اپنی ساست پر بڑا فخر تھا ۔وہ اپنے کل کو بھول چکا تھا لیکن قوم گزشتہ کل کو ہمیشہ یادرکھتی ہے آصف علی زرداری اگر چاہتے کہ بلاول بھٹو کا چراغ شب تاریک میں روشن رہے تو اپنے کیے کا انجام خود بھگت جاتے لیکن آصف علی زرداری نے ذاتی تحفظ پر بلاول بھٹو کی شخصیت اورسیاست کو قربان کردیا کیا ہی بہتر ہوتا ایم این اے بننے کی بجائے پس منظر میں جاکر بلاول بھٹو کی سیاسی رہنمائی کرتے لیکن وہ تو خودنمائی پسند ہیں اور اسی خودپسندی میں آصف علی زرداری نے پی پی کی پشت میں چھرا گھونپ دیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :