خوش فہمیاں اور دہشت گردسے رابطے

ہفتہ 31 اگست 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پاکستان کی آزاد میڈیا سے وابسطہ TVاینکرتو تنخواہ دار ہیں وہ اپنے چینل کی پالیسی کے مطابق بات کریں گے سوال زیادہ کریں گے جواب کم سنیں گے اور اگر دل آئے تو سامنے بیٹھے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے درباریوں یا اداروں کے تنخواداروں یاخوش پوشی کی بیماری میں مبتلا بیروکریٹ نما تعلیم یافتہ شخصیا ت کے سامنے اپنی تقریر جھاڑنا شروع کردیں گے ان میں اکثریت خواتین اینکرز کی ہے جو فیشن شو کی صورت میں اپنے پروگرام میں جلوہ افروز ہوتی ہیں ان کے احترام میں تو بولنا بھی خوش پوش خواتین کی توہین ہوتی ہے TVسکرین پر ٹاکروں میں تشریف فرما چاہے اینکرز ہوں یا وینکرز مطلب ہے درباری وہ قومی اور مذہبی پالیسی سے بے پرواہ لباس پر اور اپنے چہرے کے بناؤسنگھار پر کیمرے کے سامنے توجہ مرکوز رکھتے ہیں ان لوگوں کے قریب سے بھی شرم نام کی کوئی چیز نہیں گزرتی TVٹاکروں کے علاوہ تجزیہ نگاروں کی الگ دنیا ہے TVسکرین پر تشریف فرما ان تجزیہ نگاروں کو اگر غور سے سنیں تو ان کے الفاظ وتجزیوں میں ان کے سیاسی نظریات کی جھلک نظر آئے گی ان تجزیہ نگاروں کی نمک ہلالی بڑے کمال کی ہوتی ہے بعض اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ کوئی خاص مخلوق ہیں ان پر ان کے تجزیوں کیلئے آسمانی صحیفے اُترتے ہیں اور سننے والے ان کی نظر میں الو کے پٹھے ہوتے ہیں ایسی خوبصورتی سے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں کہ توبہ بلی ۔

(جاری ہے)

ان تجزیہ نگاروں اور اینکروں کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ ان کی عقل سلیم فرشہ سیرت ہے ناظرین دیکھتے ہیں کہ بعض اوقت آزاد میڈیا کی یہ مخلوق ضرورت سے زیادہ آگے نکل جاتی ہے بلکہ پٹڑی سے اُتر جاتی ہے اور جب ان کے جھوٹے بے بنیاد خودساختہ تجزیے اور حقائق پر سے پردہ اُٹھتا ہے تو شرمندگی ان کے چہرے سے جھلکتی اُترتی ہے او ربڑی عدالتوں میں معافیاں مانگتے پھرتے ہیں ۔


ایسا ہی ایک تماشہ گزشتہ چند روز سے وطن عزیز کے محب وطن عوام سن کر سوچ رہی ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں لیکن ان مداریوں کو اپنی اوقات کا احساس نہیں ہوتا کوئی نمک حلالی میں بولتا ہے تو کسی کے اندر لفافہ بولتا ہے پاکستان کی اپوزیشن جو کل حکمران تھی آج جیل میں ہے اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اُن مقدمات میں عدالتوں کی دہلیز پر ہیں جو انہوں نے اپنے اپنے دورِحکمرانی میں ایک دوسرے کو اپنی حکمرانی کے تحفظ کیلئے بلیک میل کرنے کیلئے دائر کیے تھے ۔

آج اُن مقدمات میں اپنے اعمال کی سزا بھگت رہے ہیں اور الزام حکمران پر کہ وزیر اعظم انتقام لے رہا ہے لیکن اپوزیشن یہ نہیں سوچتی کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اپنے دورحکمرانی میں انہوں نے عمران خان کو ذہنی اذیت سے دوچاررکھا اس لیے اپوزیشن کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے بھینس بھی اُسی کی ہے
 اپوزیشن کاایک ہی مطالبہ ہے جو سامنے آرہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکمرانی سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں اگر تکلیف ہے تو وزیر اعظم سے عمران خان کو ہٹادیا جائے اور تحریک انصاف نیاوزیر اعظم سامنے لائے ۔

کچھ دنوں سے ایسے سوشے چھوڑے جارہے ہیں لیکن یہ تو بلی کے خواب میں چیچڑے والی بات ہوئی جانے گزشتہ کل کے یہ کرپٹ لوگ کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں ایک نامی گرامی صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود انکشاف کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکمرانی میں شاہ محمود قریشی کو وزیر اعظم بنادیا جائے یا میاں محمد سومرو کو اگر ایسا ہوجائے تو زیرعتاب اپوزیشن قانون ساز اسمبلی میں نہ صرف قانون سازی میں تعاون کرے گی بلکہ لوٹی ہوئی دولت بھی واپس کرینگے ۔

مطلب ہے اپوزیشن کے قید رہنماؤں نے اپنی کرپشن تسلیم کرلی یعنی وہ تسلیم کر گئے ہیں کہ ہم چور ہیں لیکن چوری کا پیشنہ وزیراعظم کو نہیں کسی دوسرے وزیر اعظم کو دیں گے ۔
اپوزیشن کی ان ہاؤس تبدیلی کا خواب تو بڑا سہانا ہے ، پہلے تو الزام نیب پر تھا کہ وہ جھوٹے مقدمات بنا رہا ہے دوسرا الزام عمران خان پر ہے کہ وہ انتقام لے رہا ہے اگر واقعی اپوزیشن کے قید رہنما یہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہوجائے تو ہم ایسا کریں گے ڈاکٹر شاہد مسعود کے اس انکشاف میں اگر وزن ہے تو مطلب ہے اپوزیشن کے قید رہنماؤں نے اپنا جرم تسلیم کر لیا لیکن اگر ڈاکٹرشاہد مسعود نے صحافیانہ بے پرکی اُڑائی ہے تو یہ اپوزیشن عمران اورنظامِ عدل کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے ایسے انکشافات اور بے بنیاد خبروں پر نہ تو پاکستان میں کوئی پکڑ ہے اور نہ ہی جھوٹی گواہی پر کوئی سزا اس لیے ہم بھی قوم کیساتھ بے پرکیوں کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ایسے حالات میں جب دشمن وطن عزیز کی سرحدوں پر سر اُٹھائے کھڑا خودپرستوں کو دیکھ رہا ہے کشمیری اپنے ہی کشمیر کی سرزمین پر زندگی کے عذاب سے دوچار ہیں ۔

پاکستان بھر میں گفتار کے غازی بول رہے ہیں لیکن اپنے ایمان کی عظمت سے بے خبر ہیں ۔دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد شیطان سے رابطے میں ہیں اور انگلیاں اُٹھارہے ہیں سعودی عرب امارات او مسلم دنیا کی خاموشی پر لیکن ان بدبختوں سے کوئی یہ پوچھے کہ اگر امریکہ کی جنگ اپنی سرزمین پاک پر لڑی جاسکتی ہے تو کشمیر کی جنگ لڑتے ہوئے ان کو اپنی موت کیوں نظر آتی ہے شہادت کیوں نظر نہیں آتی پاکستان کی مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کے رہنما قائدین درباریوں کے سجادہ نشین ،کیوں خاموش ہیں اگر سیاسی قیادت دنیاوی طاقت سے خوفزدہ ہے یہ لوگ جہاد کے جذبے کو ایمانی شعلہ کیوں نہیں دکھاتے شاید اس لیے کہ ان کے ایمان بھی دنیا کی خوش پرستی میں اپنی پہچان کھوبیٹھے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :