کشمیری عوام نظر انداز …حکومت کے خلاف دھرنا اور آزادی مارچ

منگل 17 ستمبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

مقبوضہ کشمیر میں ظلم وجبر کی انتہا پر بھارت کی سپریم کورٹ میں بھی خاموش نہیں سپریم کورٹ نے بھارتی وزیر اعظم مودی کے اقدامات کے خلاف فیصلہ کر کے ثابت کردیا کہ بھارت میں انسانی حقوق کیلئے آواز کو دبایا نہیں جاسکا ۔مودی سرکار کے خلاف اپوزیشن اور عوام سراپا احتجاج ہیں ۔دنیا جان چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام دنیا کی سب سے بڑی جیل میں اذیتناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں انسانی درد رکھنے والے ممالک اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھارت کے مودی سرکار کو اخلاقی مجرم قرار دے دیا ہے ۔

مسلمانوں کیساتھ انسانی حقوق کے علمبردار غیر مسلم بھی سراپا احتجاج ہیں دنیا دیکھ رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی بیٹیاں اپنے خلاف ہونیوالے اخلاق سوز جرائم پر سراپا احتجاج ہیں لیکن بھارت کے مدرسہ دیوبند نے کشمیر سے متعلق بھارتی سرکار کے فیصلے کی حمایت کرکے ایک بارپھر ثابت کر دیا کہ ہم تحریک آزادی پاکستان میں پاکستان مسلم کے قائد محمد علی جناح کے خلاف تھے اور آج مودی سرکار کا ساتھ دے کر وزیر اعظم پاکستان کے خلاف بھارت کے یزید ہٹلر مودی کیساتھ کھڑے ہیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان کی عوام بخوبی جانتی ہے کہ تحریک پاکستان میں جماعت اہلسنت قائد اعظم کیساتھ کھڑی تھی یہ وہ حقائق ہیں جن کو نہ تو جھٹلایا جاسکتا ہے او رنہ ہی نظر انداز کیا جاسکتا ہے ۔
آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت نے کشمیریوں کے درد کو محسوس کیا اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے وزیر اعظم کیساتھ کھڑے ہوگئے یہ ہوتی ہے قوم پرستی ،وطن دوستی اور عوام دوستی لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مدرسہ دیوبند کے علمبردار مولانا فضل الرحمان ،مسلم لیگ ن اور PPنے حقائق کو دل سے تسلیم نہیں کیا ۔

ان کے پیٹ میں مروڑ ہے کہ عمران خان وزیر اعظم کیوں ہے اور وہ جو اقدامات کر رہا ہے جس منزل کی طرف قدم بڑھا رہا ہے وہاں آج کی اپوزیشن کا مستقبل تاریک ہے ۔پاکستان کی اپوزیشن کو جمہوریت ،پاکستانیت اور مقبوضہ کشمیر میں معصوم کشمیریوں پر ظلم وبربریت سے کوئی سروکار نہیں بلکہ وہ وقت کے یزید بھارت کے حکمران مودی کے کردار کو تقویت دے رہے ہیں تحریک انصاف سے ذاتی اختلافات میں افواجِ پاکستان اور حکومت پاکستان کے خلاف بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں ۔

مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف آزادی مارچ اور دھرنے کیلئے PPاور مسلم لیگ ن کیساتھ دوسری اُن جماعتوں کا تعاون مانگ رہے ہیں جن کو اُن کی کارکردگی پر گزشتہ عام انتخابات میں پاکستان کی عوام نے مسترد کیا ۔
مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں آزادی مارچ میں 15لاکھ لوگ شریک ہوں گے اگر کسی نے آزادی مارچ میں رکاوٹ ڈالی تو ملک بھر میں کاروباری زندگی مفلوج کردیں گے اُن کا مطالبہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکمرانی ختم کی جائے عام انتخابات کروائے جائیں ۔

اُدھر PPکے چیئرمین بلاول زرداری حکومت مخالف تحریک کیلئے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔بلاول زرداری کہتے ہیں کہ مشاورت عمران خان حکومت کے خاتمے کی ڈیڈلائن پر ہوگی ۔
موجودہ حالات میں اگر اپوزیشن کی یہ جماعتیں اپنی تحریک کشمیری قوم سے اظہار ِیکجہتی کیلئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے نکلتیں،،آزادی مارچ مقبوضہ کشمیر کی آزاد کیلئے ہوتا تو قوم تسلیم کرلیتی کہ واقعی اپوزیشن کو کشمیر اور کشمیری عوام سے محبت ہے لیکن عمران خان حکومت کے خلاف ایسے حالات میں تحریک اور دھرنے دراصل دنیا کو پیغام دینا ہے کہ کشمیر کے متعلق بھارت کا فیصلہ درست ہے جانے اپوزیشن کے یہ نام نہاد قومی رہنما عمران خان دشمنی میں کشمیری قوم اور پاکستان کی سا لمیت اور وقار کو کیوں نظرانداز کر رہے ہیں یہ لوگ کیوں نہیں تسلیم کرتے کہ پاکستان حالت ِجنگ میں سفارتی حوالے سے دنیا بھر میں بھارت کے خلاف جنگ کا آغاز کر چکا ہے
27ستمبر کووزیر اعظم پاکستان دنیا کو بتانے جارہے ہیں کہ بھارت نے کشمیر میں ظلم وبربریت کی انتہا کردی کشمیری بیٹیاں بے آبروہورہی ہیں کشمیری جوان شہید ہورہے ہیں اُن سے اُن کی آنکھوں کی بینائی چھینی جارہی ہے سلامتی کونسل اور وزراء خارجہ کے اجلاس میں دنیا نے پاکستان کے مئوقف کو تسلیم کر لیا ۔

بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے تصدیق کر لی لیکن پاکستان کی اپوزیشن عمران دشمنی میں سب کچھ نظر انداز کر رہی ہے دنیا دیکھ رہی ہے اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے اراکین صدر کی بات نہیں سنتے تو ہم پاکستان کے وزیر اعظم کو کیوں سنیں !!!
 بات گھماپھرا کر وہیں آجاتی ہے کہ پاکستان کی خودپرست اپوزیشن کشمیریوں کے خلاف بھارت کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے لیکن عمران خان کے خلاف تحریک کا مقصد افواجِ پاکستان اور ایٹمی قوت کوکے علمبردار حکومت کر کمزورکرنا ہے جو کہ ا پوزیشن کا سنگین جرم ہو ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :