کاش!اپوزیشن کا آزادی مارچ کشمیریوں سے یکجہتی کے لئے ہوتا

جمعہ 4 اکتوبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمان نے 27اکتوبر سے حکومت مخالف آزدی مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوری طور پر موجودہ حکومت کا خاتمہ ضروری ہے اور اس کارِخیر میں دیر نہیں ہونی چاہےے اگر عمران خان کو حکمرانی کیلئے مزید وقت دیا تو ملک کا نقصان ہوگا اس لےے کہ موجودہ حکومت وطن عزیز کی سا لمیت کیلئے خطرہ ہے ۔حکومت کا فوری خاتمہ اور نئے انتخابات وقت کی ضرورت ہے مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ ہم مولانا سے اتفاق کرتے ہیں کہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے دوچار ہے اور نااہل حکمران نہیں جانتے کہ مشکلات کی دلدل سے کیسے نکلا جائے ۔

پی پی کاکہنا ہے کہ اپوزیشن کے پاس سوائے احتجاج کے اور کوئی راستہ نہیں ۔
سیاست کا بارہواں کھلاڑی آخر کار پی پی او رمسلم لیگ ن کو سڑکوں پر آنے کیلئے ہمنوابنانے میں کامیاب ہو گیا البتہ دھرنے کا پروگرام منسوخ ہوگیا شاید اس لےے کہ ایک تو اسلام آباد میں ڈینگی کا ڈیرہ ہے ۔

(جاری ہے)

دوسری بات سردی کی ہے سردی اور بارش میں دھرنا مشکل ہے اور ویسے بھی پی پی خاص کر مسلم لیگ ن کو بخوبی علم ہے کہ اگر عمران خان کے 56روز کے دھرنے کے باوجود ہم نے حکمرانی نہیں چھوڑی تو عمران خان کیسے چھوڑ سکتا ہے اس کے باوجود کہ ہمارے تعلقات افواجِ پاکستان سے بہتر نہیں تھے اور عمران خان کے سرپر افواجِ پاکستان کا ہاتھ ہے ۔

اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں مولانا کے دھرنے میں اس لےے بھی شامل نہیں ہونا چاہتی تھیں کہ مولانا انتہا پسند مذہبی طلبا کیساتھ دھرنے میں بیٹھیں گے اور ہم احتجاج کو مذہبی رنگ نہیں دینا چاہتے ۔پی پی اور مسلم لیگ ن کیا چاہتی ہے یہ تو پاکستان کی عوام بخوبی جانتی ہے اور یہ بات جودونوں جماعتیں خود نہ کہہ سکیں مولانا سے کہلوادیا کہ اگر حکومت کا خاتمہ فوری طور پر نہیں ہوا تو بہت دیر ہوجائے گی اور ہمیں دیر نہیں کرنی چاہئے ۔


اس کے پس پردہ وہ سوچ ہے کہ اگر عمران خان کو حکمرانی کیلئے 5سال مل گئے تو پی پی اور مسلم لیگ ن کی موروثی اور اقرباءپروری کی سیاست کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوجائے گا اس لےے کہ عمران خان جن خطو ط پر کام کر رہا ہے جس راستے پر چل نکلا ہے وہ پاکستان اور پاکستان کی عوام کیساتھ جمہوریت کے استحکام کی طرف جاتا ہے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عمران خان نہ صرف پاکستان بلکہ مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے دل کی دھڑکن بن چکے ہیں عالم اسلام نے دین مصطفےٰ کے علمبردار عمران خان کو گلے لگالیا ہے صرف اس بات پر کہ جب تک فلسطین کو خود مختاری نہیں ملتی ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے اور خاتم النبینکی شان میں گستاخی کا درد ہم مسلمان اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں ۔

اقوامِ عالم کے سامنے انتہائی دلیری سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہم خیرات پر نہیں برابری کی بنیادپر تعلقات میں سراُٹھا کر جینا چاہتے ہیں ۔
عمران خان کی اسی سوچ نے اُسے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی دنیا میں بحیثیت لیڈر تسلیم کر لیا ہے اس لےے کہ وزیر اعظم پاکستان کے ہاتھ میں نہ تو پرچیاں تھیں اور نہ ہی وہ کسی مدرسے کا طالب تھا ۔

عمران خان اپنی سوچ اور پاکستان کی عوام سے محبت کی سوچ میں زندہ رہنا چاہتا ہے اور عمران خان کی یہی وہ سوچ ہے جس سے گزشتہ کل کے حکمران اور آج کی اپوزیشن خوفزدہ ہے ۔ مولانا فضل الرحمان کا یہ کہنا کہ اگر مزید دیر ہوئی تو ملک کا نقصان ہوگا دراصل نقصان ملک کا نہیں نقصان گزشتہ ادوار کے کرپٹ خودپرست عوام اور قوم دشمن خودغرض اور خودپرست حکمرانوں کا ہوگا اُن کے درباریوں اور حواریوں کا ہے جو ذات کے دائرے سے کبھی باہر نہیں نکلے اُن کو اگر پاکستان کی عوام اور اُن کی غربت اور مہنگائی نظر آتی ہے تو اُس وقت جب یہ لوگ اقتدار میں نہیں ہوتے 35سال تک حکمرانی کی عیاش آج کی اپوزیشن نے پاکستان کی عظمت کو سوچا اور نہ پاکستان کی عوام کی غربت کو سوچا ان کو اپنے دورِ اقتدار میں غریب نظر آیااور نہ مہنگائی نظر نہیں آ ئی۔

آج سڑکوں پر مہنگائی کے خلاف نہیں نکل رہے بلکہ پی پی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ اور ادنیٰ قیادت کے عبرتناک انجام کے خوف سے سڑکوں پر آرہے ہیں ۔جہاں تک سیاست کے بارہویں کھلاڑی مولانا فضل الرحمان کی سوچ ہے تو اُن کی سوچ جمعیت علمائے اسلام ہند سے کیسے مختلف ہوسکتی ہے جمعیت علمائے ہند نے کشمیر کی آزادی کے خلاف بھارت کے مﺅقف کی تائید کی ہے اور مولانا بھی تو 10سال تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے لینڈ کروزر میں پھرتے رہے ضیافتیں اُڑاتے رہے ۔

تخت ِپاکستان اسلام آباد کی عالیشان کوٹھی میں کشمیریوں کے بنیادی حقوق سے بے پرواہ خوشحال زندگی بسرکرتے رہے ۔ مولانا فضل الرحمان کو اپنے دورگزشتہ کی خوبصورت زندگی بے چین کےے ہوئے ہے ۔حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نئے انتخابات کا مطالبہ بھی کررہے ہیں ۔جانے مولاناکیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان ہی کی عوام نے اُنہیں مسترد کردیا اگر موجودہ حکومت پر الزام ہے کہ وہ سلیکٹڈہے تو نئے انتخابات میں کیا مولانا کے فرشتے آکر ووٹ ڈالیں یہی پاکستانی ہوں گے اور یہی افواجِ پاکستان مولانا اور اپوزیشن کوجان لینا چاہےے کہ گزشتہ انتخابات میں جن کو وہ خلائی مخلوق کا نام دیتے تھے آج وہ مخلوق مکمل طور پر عمران خان کیساتھ ہے اس لےے قوم کسی غلط فہمی کا شکار نہیں کہ مولانا کے آزادی مارچ سے تحریک انصاف کی حکمرانی کی صحت پر کچھ اثر پڑے گا بلکہ عوام میں اُن کے خلاف نفرت پیداہوگی اس لےے کہ محب وطن عوام کی نظر میں آزادی مارچ کشمیریوں کی تحریک آزادی کے خلاف سازش ہے آزادی مارچ دراصل بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :