
عدالت نے حکومت کی شورٹی بانڈ کی شرط مسترد نہیں کی
پیر 25 نومبر 2019

گل بخشالوی
(جاری ہے)
جیساکہ ایک بیٹا اپنے باپ کو دریا کے کنارے اونچائی سے دریا میں پھینکنے والا تھا تو باپ نے کہا نہیں بیٹا یہاں نہیں وہ سامنے والی اُونچائی سے ،میں نے اپنے باپ کو اُس اُونچائی سے دریامیں پھینکا تھا ۔
آج ان کے صاحب زادے کہہ رہے ہیں کہ تحقیقات کی جائے کہیں میاں صاحب کو زہر تو نہیں دیا جاتا رہا جانے ان کے صاحب زادے کیوں بھول گئے ہیں کہ ان کے والد شیر تھے ہاتھی نہیں جو مرنے کے بعد سوا لاکھ کے ہوتے پاکستانی قوم کو ان کی زندگی عزیز ہے پوری قوم ان کی صحت کے لئے دعا گو ہے اس لئے کہ زندہ رہیں گے تو ان سے کچھ وصول ہوسکے گا ان کے وارثوں سے کیا وصول ہو گا وہ تو عدالتی اشتہاری اور مفرور ہیں انہو ں نے اس لئے تو بانڈز نہیں جمع کیا ان کی سوچ تھی کہ میاں صاحب تو ویسے بھی گزرنے والے ہیں سات ارب کا نقصان کیوں کریں ،
عوام کا سیاستدانوں سے یہ ہی شکوہ ہوتا ہے کہ وہ ظالم ،جابر اور خودپرست ہوتے ہیں اور یہ حقیقت صاحبانِ شعور جان گئے ہوں گے کہ سیاستدانوں کا خون سفید ہوتا ہے ۔وہ اپنی ذات کی نمائش اور خواہشات پر خونی رشتوں تک قربان کر دیا کرتے ہیں کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں ان کے میاں آصف علی زرداری صدارت کی کرسی پر بیٹھ سکتا تھا، میاں نواز شریف کیساتھ جو اُن کے اپنوں اور خونی رشتوں نے کیا اور کر رہے ہیں یہ درس ہے عوام اور سیاستدانوں کیلئے کھربوں روپے کے مالک میاں نواز شریف سے حکومت نے شورٹی بانڈہی تو مانگے تھے لیکن رشتوں کی بے حسی پر وہ خود کو عدالت میں گروی رکھ کر علاج کیلئے بیرونِ ملک چلے گئے ۔میاں شہباز شریف ضامن ہیں لیکن اپنے اور اولاد کے خوبصورت کل کیلئے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے !!
یہ تو پورا پاکستان جانتا ہے کہ شہباز شریف انتہائی جھوٹے اور وعدہ خلاف سیاست دان ہیں ۔وہ جو کہتے ہیں کرتے نہیں مریم نواز خود کو پاکستان کا آئندہ وزیر اعظم دیکھ رہی ہیں اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنے اُسی مقام پر ہیں جہاں وزارت ِاعظمیٰ کا حلف لیتے وقت کھڑے تھے ۔باوجود سیاسی دباؤ کے وہ اپنی جگہ سے اگر ہِلے تو انسانی ہمدردی میں اپنے کردار کی پہچان کیلئے عمران خان نے کہہ دیا تھا میاں محمد نوازشریف میرے سیاسی حریف ہیں لیکن انسانیت کا تقاضا ہے کہ اُن کو ریلیف دیا جائے ۔عمران خان یہ ریلیف دے سکتا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ خودغرض اور خودپرست سیاسی حریفوں نے آسمان سرپر اُٹھالینا ہے کہ NROنہ دینے والے کو مجبور ہو کر NROدینا پڑا حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلئے اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمان کو آگے لگایا اُسے سیاست کے گہرے سمندر کے کنارے لاکھڑا کردیا اور جب دیکھا کہ چھ ووٹ کی برتری سے وزارت ِاعظمیٰ کی کرسی پر بیٹھے حکمران عمران خان کی کرسی نہیں ہِلی تو پیچھے ہٹ گئے اور مولانا فضل الرحمان کی حالت وہ ہوگئی جو سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ہے ۔ایک زرداری سب پہ بھاری کے نعرے لگانیوالوں نے سنا ہوگا جب اُس نے کہا تھا NABکی کیا جرأت ہے کہ میرے خلاف کوئی کیس بنائے لیکن آج اپنی بہن کیساتھ خدائی کا دعویٰ کرنیوالے پابند ِسلاسل موت کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں ایسا ہی مولانا فضل الرحمان کیساتھ ہوا ۔آج مولانا صاحب مکافاتِ عمل کا شکار ہیں جو شخص اپنے والد کی مخبری کر سکتاہے اُس سے قومی بھلائی کی کیا اُمید رکھی جاسکتی ہے مولانا کو اُس کے ساتھی اپوزیشن والوں نے زیر وکردیا ہے وہ میاں محمد نوازشریف کی طرح سوچ رہے ہیں کہ میرے ساتھ ہوا کیا ؟ کاش!مولانا اپنے گریبان میں دیکھ کر سوچیں لیکن ایسوں کا تو گریبان ہی نہیں ہوتا،
میاں محمد نوازشریف کی صحت کیلئے دعاگو ہیں دشمن کے مرنے کی خوشی منانیوالوں کو سوچنا چاہیے کہ کل سجن بھی مرسکتے ہیں ۔عدالت میں میاں محمد نوازشریف اور شہباز شریف نے خود کو گردی رکھ دیا ہے حکومت نے عدالت کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کر دیا ہے ۔ ۔عمران خان کو بخوبی علم تھا کہ عدا لت ان کو ا جازت دے گی لیکن اگر آج چیف جسٹس کا اشارہ عمران خان کی جانب ہے تو قوم بخوبی جانتی ہے اور اس کا اظہار عمران خان نے کھل کر کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں عدالت نیب اور پولیس کے گرفتار مجرموں کو ان کے مجرمانہ کیس میں دوڑاتی رہتی ہیں اس انتظار میں کہ کوئی راستہ نکلے اور قو می مجرم ضمانت پر رہا ہو جائیں یا بری ہو جائیں کیا ثبوت ہے کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ درست تھی جس کی بنیاد پر ان کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی ، بقول چیف جسٹس کے اگر حکومت نے ایک سزا یافتہ او ر زیرِ سماعت مقدمات کے مجرم کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی ہے تو عدالت نے حکومت کے خلاف کیا کاروائی کی میاں صاحب نے جانا تھا چلے گئے عدالتی فیصلہ شورٹی بانڈز سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اس لیے کہ عدالت نے اُن سے اُن کا بیانِ حلفی لے لیا ہے اگر واپس نہیں آتے تو حکومت کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی عدالت ہی میں اُن کے خلاف توہین ِعدالت کی کاروائی ہوگی اگر دیکھا جائے تو حکومت اپنے مئوقف پر ڈٹے رہنے سے جیت گئی عدالت نے حکومت کی شورٹی بانڈ کی شرط مسترد نہیں کی بلکہ معطل کی ہے اگر میاں صاحب کامیاب علاج کے بعد واپس نہیں تو عدالت کے مجرم ہوں گے البتہ یقین نہیں آتا کہ صحت کا ملہ سے سرفراز ہو نے کے بعد واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے اس لیے کہ میاں محمد نوازشریف کے خاندان کا جو فرد بیرونِ ملک گیا واپس نہیں آیا میاں صاحب بھی برطانیہ یا امریکہ ہی میں زندگی کے آخری ایام گزاریں گے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
گل بخشالوی کے کالمز
-
گداگر اپوزیشن، حکومت گراﺅ ، در در پر دستک !
بدھ 16 فروری 2022
-
کسی مائی کے لال میں جرات نہیں کہ تحریک عدم اعتماد لا سکی
منگل 15 فروری 2022
-
اگر جج جواب دہ نہیں تو سینیٹر اور وزیراعظم کیوں کرجواب دہ ہو سکتا ہے
جمعہ 4 فروری 2022
-
سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن غیر حاضر اور حکومت کی جیت
پیر 31 جنوری 2022
-
اسلامی صدارتی نظام اور پاکستان
جمعرات 27 جنوری 2022
-
تحریکِ انصاف ، جماعت اسلامی ، پاکستان عوامی تحریک ، اور ریاست ِ مدینہ!!
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
اپوزیشن، عوام کی عدالت میں پیش ہونے سے قبل ان کے دل جیتیں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
خدا کا شکر ادا کریں کہ ہم پاکستان کے باشندے ہیں
ہفتہ 15 جنوری 2022
گل بخشالوی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.