اپوزیشن کی قیادت نے چرغے کھائے اور عوام نے دھکے !!!

پیر 14 دسمبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

اپوز یشن الیون کے سیاسی افراتفری اور قومی استحکام کے خلاف سیاسی ہنگامہ آرائی کا جو طوفان گوجرانوالہ سے شروع ہوا ملتان کراچی ، پشاور ،گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مینارِ پاکستان سے ٹکرا گیا جہا ںشکست خوردہ سیاسی منافقوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جنوری کے آخر میں یا فروری کے اوائل میں اسلام آباد کی طرف پوری قوم مارچ کرے گی اور ہم پارلیمنٹ سے استعفے ہم اپنے ساتھ لے کر جائیں گے، ہم ایسی پارلیمنٹ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس پارلیمنٹ کے ذریعے سے ناجائز حکومت کو چلنے دیں گے، اس کا خاتمہ کر کے ووٹ کا مقدس امانت عوام کو واپس دلا کر دم لیں گے۔

(جاری ہے)

‘یہ وہ اعلان تھا جو مولانا فضل الرحمان نے کیا۔ اپوزیشن کے اس طویل افراتفری کے سفر میں اپوزیشن یا پاکستان کے عوام کو کیا ملا۔ کل کے سیاسی دشمن ایک دسترخوان پر بیٹھے ،بیٹھ کے چرغے کھا ئے اور عوام نے سخت سردی اور کوروناجیسے وبائی وائرس میں جلسوں اور سڑکوں پر دھکے کھائے !!
  سیاسی بد نظموں نے عوام سے وعدہ کیا 8 دسمبر کے 13 دسمبر بھی گزر گیا ، سیاسی بے روز گار ایجنڈے پر اتفاق نہ کر سکے جن کا کہنا تھا کہ لاہور کے آخری جلسے میں حکومت کی گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا دینے کے لئے اسمبلیوں سے استعفے ہمارے ہاتھ میں ہوں گے اور پورے پاکستان کے عوام نا اہل حکمران کی حکمرانی دفن کر دیں گے لیکن کچھ بھی تو نہیں ہوا !! پاکستان سے محبت کرنے والے عوام اپوزیشن سے سوال کر رہے ہیں کہ اپوز یشن کے جلسے میں 10 ہزار لوگ تھے یا 10 لاکھ ، ،بات تو وہ ہی ہوئی جو پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ میاں محمد نواز شریف کی حکمرانی میں میاں صاحب سے پوچھا کرتے تھے، ،
 دسو ناں کیتا کی جے،،
 آج وہ ہی سوال پاکستان کے عوام اپوزیشن الیون سے کر رہی ہے سوائے سیاسی اور مذہبی اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے کیتا کی جے؟
  پہلے یہ بے روزگار افواجِ پاکستان او ر نظام عدل کے خلاف تھے آج فضل الرحمان کہہ رہے ہیں۔

میں آج اپنی دفاعی قوت اور اسٹیبلشمنٹ کوخبردار کرنا چاہتا ہوں کہ عوام کو راستہ دیں، عوام کو اسلام آباد پہنچنے دیں کہیں وہ دن نہ دیکھنے پڑیں کہ جہاں اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ پاکستان کے عوام نہ ہوں۔ اس لئے کہ ‘ اسٹیبلشمنٹ کے لگائے گئے زخم اب گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا نیا خون بلاول اس قدر پرجوش ہے کہ اپنے شہید قیادت کے انداز فکر تک کو بھول گئے وہ بھٹو بننا چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ ’اب کوئی اور رستہ نہیں، ڈائیلاگ شائیلاگ کا وقت گزر چکا اب لانگ مارچ ہو گا،
  پاکستان میں حکمرانی اور بے نظیر بھٹو کی سی شخصیت ہونے کا خواب دیکھنے والی مریم نواز کہتی ہیںکہ اب عمران خان کہتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپوزیشن سے بات کرنے کو تیار ہے۔

کون سی پارلیمنٹ؟وہی جو آئی ایس آئی کا ایک ریٹائرڈ کرنل چلا رہا ہے، کیا وہاں بیٹھ کر بات ہو گی۔وہ والی سینیٹ جس کو آج ایک ریٹائرڈ کرنل چلاتا ہے اس میں بیٹھ کر بات کرنی ہے؟ اس ریٹائرڈ کرنل کا نام پورا اسلام آباد جانتا ہے ۔عمران خان کا یہاں لاہور میں 2011 کا جلسہ آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا نے کروایا تھا۔ جس تبدیلی کی بنیاد 2011 میں اس مینار پاکستان کے نیچے رکھی گئی تھی آج لاہوریوں نے اس جعلی تبدیلی کو یہیں پر دفن کر دیا جب کہ مریم نواز کے بابا جان مارشل لاءکا لیپالک برطانیہ کی گود میں بیٹھ کر ویڈیو لنگ کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ اس نظام کو بدلے بغیر اب کوئی چارہ نہیں، یہ ملک مزید غیر جمہوری مداخلت کی تاب نہیں لا سکتا۔

ہمیں ایسا ملک چائیے جس میں ریاست کے اوپر ریاست نہ ہو۔ہم انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد چند جرنیلوں کے غلام بن جائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے
  اپوزیشن کے لاہور جلسے پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ اپوزیشن جلسے جلوس کرکے وقت ‘پیسہ اور اپنی محنت ضائع کررہی ہےانہیں شہریوں کی صحت وسلامتی کی رتی بھر بھی پرواہ نہیں‘یہ سب صرف اپنی لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کے لیے مجھے بلیک میل کی کوشش کر رہے ہیں انہوں نے عوام کی زندگیاں خطر ے میں ڈال کرسنگدلی کا مظاہرہ کیا اورثابت کردیاکہ انہیں شہریوں کی صحت وسلامتی کی رتی بھر بھی پرواہ نہیں میں ایک مرتبہ پھر واضح کر دوں کہ لٹیرے جو حربہ چاہیں استعمال کریں، میری حکومت کبھی کوئی این آر او نہیں دے گی۔


  اپوزیشن کے جلسوں اور اداروں کے خلاف ان کی بد زبانی سے یہ لوگ اپنا رہا سہا وقار مجروح کر رہے ہیں گز شتہ ڈھائی سال سے ہم نہ مانہیں کی رٹ لگائے نہ صرف خود ذلیل ہو رہے ہیں بلکہ عوام کو بھی خوار کر رہے لیکن وہ عمران خان جو ان 11جماعتوں کے خلاف سیاسی میدان میں تنہا اترا تھا اب اسی کے خلاف وہی 11جماعتیں اکیلے عمران خان کے خلاف جمع ہوئی ہیں ۔ یہ لوگ اب تک کچھ نہ کر سکے جنوری اور فروری بھی ایسا ہیں گزر جائیگا جو بے روزگا رہیں وہ اپنے عمل پر ماتم کریں گے اور جو ابھی تک باروز گار ہیں وہ اسی تنخواہ پر باروزگار ہیں رہیں گے ، اور قوم ان کی ڈرامہ بازیاں دیکھتی رہے گی !!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :