- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- گل بخشالوی
- جس بھٹو کو کوئی زمینی خدا نہ مار سکا آصف علی زرداری نے مار دیا ہے
جس بھٹو کو کوئی زمینی خدا نہ مار سکا آصف علی زرداری نے مار دیا ہے
پیر 9 اگست 2021
عطا الحق قاسمی ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تھے اس لئے کہ ان کے قلم کا قلبی چراغ ایوبی مار شل لاءکے دور میں روشن ہوا تھا وہ بھٹو کے خلاف لکھا کرتے تھے اور ہم اس دور میں بھی انہیں پڑھ کر لکھنے کا فن سیکھتے تھے عطا الحق قاسمی نے بھٹو کی پھانسی پر ماتمی کالم بھی نہیں لکھا تھا شاید لکھا ہو لیکن ہماری نظر سے نہیں گذرا، ضیاءالحق کے دور اقتدار میں وہ واپس اپنے مارشل لاءکے قبیلے میں واپس آئے تجربہ کا رکالم نویس تھے دن پھر گئے اور جب میاں محمد نواز شریف پر مارشل لاءمیں عنایتوں کی برسات ہوئی تو اس برسات میں عطا الحق قاسمی بھی بھیگ گئے اور آج تک بھیگے ہوئے ہیں لیکن جانے کس بد تہذیب کی بات نے اس کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگایا اور وہ اپنے دل میں دبی سچائی کو قلم کی زبان پر لے آئے ۔
(جاری ہے)
ہم لوگ بہت طعن و تشنیع کر چکے ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے! اب طعن و تشنیع چھوڑ دیں اور ایک اچھے انسان کی طرح مرحوم کی لغرشیں معاف کرتے ہوئے ا ±نہیں ا ±ن کے اچھے کاموں کا صلہ عطا کئے جانے کی دعا کریں۔
میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ا ±ن کے حامیوں میں سے نہیں تھا بلکہ میرا شمار ا ±ن کے مخالفین میں ہوتا تھا۔ میں نے ا ±ن کے حوالے سے اتنے تند و تیز کالم لکھے کہ مخالفین کی ”خبر“ لینے والی فورس ”ایف ایس ایف“ کے سربراہ مسعود محمود نے وقار انبالوی (مرحوم) کی وساطت سے مجھے پیغام بھیجا جس کے الفاظ یہ تھے ”تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی خوبصورت ہے“ میں نے اس کا جواب خاصی بیہودہ زبان میں ا ±س بے ضمیر شخص کو بھجوایا جو بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گیا تھا ،۔
بھٹو سے میری مخالفت کی دو تین وجوہ تھیں۔ ایک ان کا رویہ، اپنی ہی پارٹی کے لیڈر جے اے رحیم کو ٹھڈے مارے گئے، کئی سیاسی کارکن موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ احمد رضا قصوری کو ٹارگٹ بنایا گیا مگر ایف ایس ایف کی فائرنگ کی زد میں احمد رضا کے والد آ گئے۔ بھٹو مخالفت کی دوسری وجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ایوب خان اور یحییٰ خان کی کوششوں کے تسلسل میں بھٹو نے بھی ا ±دھر تم اِدھر ہم کے بیانیہ میں اپنا کردار ادا کیا۔
یہ اور چند دوسری وجوہ تھیں کہ میں بھٹو مخالف کیمپ میں گیا مگر سچی بات یہ ہے کہ میرے سمیت کسی کو یہ سمجھ نہ آ ئی کہ تحریک نظام مصطفیٰ کے پیچھے سی آ ئی اے سمیت کچھ دوسرے ہاتھ بھی گردش میں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نامہ اعمال میں چند بہت عظیم کام بھی درج تھے۔ عالمِ اسلام کے رہنماﺅں کی پاکستان میں آمد اور پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی، شاہ فیصل شہید کو اس بات پر ا ٓمادہ کرنا کہ تیل کو مغرب کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جائے گا۔ چنانچہ شاہ فیصل بھی شہید کر دیے گئے اور بھٹو کا عدالتی قتل بھی ہوا۔ بھٹو مرحوم کا ایک عظیم کارنامہ ایٹم بم کی بنیاد رکھنا تھا اور یہ بھی مغرب کے لئے ہضم کرنا مشکل تھا، اس طرح اسٹیل مل بھی بھٹو ہی کے دور میں قائم ہوئی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے دوران ہمارے جو فوجی اور سویلین انڈیا کی قید میں تھے ا ±نہیں واپس لانے میں بھی بھٹو کی سفارت کاری نے اہم کردار ادا کیا مگر پراپیگنڈہ بری بلا ہے اور یوں ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ دن آگیا جب بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا، اس روز لاہور کی سونی سڑکوں پرمیں بھٹو کی روح کے ساتھ بھٹکتا پھر رہا تھا۔ بھٹو کی میت خاموشی کے ساتھ ان کے گاﺅں بھجوا دی گئی اور نماز جنازہ میں اہلِ خانہ کے سوا کسی کو شمولیت کی اجازت نہیں تھی۔ پی پی پی کے کارکنوں اور لیڈر شپ نے بھٹو کی شہادت کے بعد جلسے جلوسوں میں ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ کے نعرہ سے دلوں کو گرمانا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے اس کا مفہوم یہ نہیں تھا کہ بھٹو میرے اور آ پ کی طرح زندہ ہے بلکہ مفہوم یہ تھا کہ وہ دلوں میں زندہ ہے، مگر کچھ عرصے سے اس سلوگن کا بہت سنگدلی سے مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ مثلاً پتہ کریں کہ بھٹو نے ویکسین لگوائی ہے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ، میرے نزدیک یہ ایک غیر انسانی ہی نہیں غیراسلامی فعل بھی ہے۔ بھٹوجان بچا سکتا تھا مگر جس شان سے وہ مقتل میں گیا اس کے بہت سے گناہ بھی معاف ہو گئے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں مرحو مین کی خطائیں معاف کرکے ا ±ن کی دعائے مغفرت کے لئے کہا گیا ہے جبکہ بھٹو سے اگر کچھ غلط کام سرزد ہوئے تو وہاں اس نے بےشمار اچھے کام بھی کئے اور یوں وہ مر کر بھی امر ہو گیا ہے۔ بھٹو کا سارا خاندان مار دیا گیا جبکہ ہمارے درمیان کتنے ہی مردے ایسے ہیں جو بقول منیر نیازی زندوں کا رزق کھا رہے ہیں، اگر ایک شخص عزت کی موت مرا ہے تو میرے نزدیک بھی وہ زندہ ہی ہے۔ اللہ ذوالفقار علی بھٹو کی لغرشیں معاف کرے اور انہیں وطن عزیز کے لئے کی گئی خدمات کا صلہ عطا کرے۔آ خر میں میرا ایک شعر
مجھے تو یاد سزائیں ہیں جو سنائی گئیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
گل بخشالوی کے کالمز
-
گداگر اپوزیشن، حکومت گراﺅ ، در در پر دستک !
بدھ 16 فروری 2022
-
کسی مائی کے لال میں جرات نہیں کہ تحریک عدم اعتماد لا سکی
منگل 15 فروری 2022
-
اگر جج جواب دہ نہیں تو سینیٹر اور وزیراعظم کیوں کرجواب دہ ہو سکتا ہے
جمعہ 4 فروری 2022
-
سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن غیر حاضر اور حکومت کی جیت
پیر 31 جنوری 2022
-
اسلامی صدارتی نظام اور پاکستان
جمعرات 27 جنوری 2022
-
تحریکِ انصاف ، جماعت اسلامی ، پاکستان عوامی تحریک ، اور ریاست ِ مدینہ!!
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
اپوزیشن، عوام کی عدالت میں پیش ہونے سے قبل ان کے دل جیتیں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
خدا کا شکر ادا کریں کہ ہم پاکستان کے باشندے ہیں
ہفتہ 15 جنوری 2022
گل بخشالوی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.