اب یا کبھی نہیں(Now or Never)

پیر 3 فروری 2020

Hafiz Irfan Khatana

حافط عرفان کھٹانہ (ریاض ۔ سعودی عرب)

کلیوں کو جگر کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں گلشن کی فضا یاد کرے گی

ایک نہیں،دو نہیں،تین نہیں پورے 69 برس بیت گے مگر خالق لفظ پاکستان اور مصور پاکستان چوہدری رحمت علی (رح) کی روح آج بھی دیار غیر میں اپنے وطن عزیز کی حالت کو محسوس کر کے روتی ہو گی جس کی خاطر دن رات اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جدوجہد کو جاری رکھا آج اس کی مٹی میں دفن ہونا بھی نصیب نہ ہو سکا بے شک ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ بونے قد والوں کے پاوں میں جھوٹی اور بناوٹی تعریف و تصنیف کے بانس باندھ کر ان کی قامت کو آسمان تک بلند کیا جاتا ہے اور معاشرہ اس کی تعریف کے پل باندھنا فخر محسوس کرتا ہے اور وہ لوگ حالات کی تیز آندھی کے نتیجے میں منہ کے بل گر کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر اس قدر بکھرتے ہیں انکو سمیٹنا نہ ممکن ہو جاتا ہے پھر ان کی قامت کو بلند کرنے والے ان کے پاس سے گزرنا بھی  توہین سمجھتے ہیں لیکن قومی ہیروز ،محب وطن ،سچے دانشوروں اور جمہوریت کی جنگ میں سینہ سپر رہنے والوں کو اس طرح سے نظر انداز کیا جاتا ہے جیسے وہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ایسی ہی سادہ مزاج ،وطن عزیز کی محبت میں سرشار اور اپنی شخصیت کی نمائش نہ کرنے والا پہلا پاکستانی چوہدری رحمت علی (رح) جس کی روح آج بھی دیار غیر میں وطن عزیز کی مٹی میں دفن ہونے کے لئے تڑپ رہی ہے چوہدری رحمت علی 16 نومبر 1897ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیارپور میں شاہ محمد کے گھر میں پیدا ہوئے شاہ محمد کا تعلق گوجر قوم سے تھا ابتدائی تعلیم ہوشیارپور سے ہی حاصل کی اسلامیہ کالج لاہور ،ایچ سن کالج اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1930 میں کیمرج تشریف کے گے یونیورسٹی آف کیمرج سے ایم اے اور ایل ایل بی آئنرز کیا اسی دوران 1933 میں "اب یا کبھی نہیں ( Now or Newer) پمفلٹ پبلش کیا جس میں لفظ "پاکستان " کو اعزاز اس کا مقام دیا گیا دنیا کی تاریخ میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی گئ ہیں جنہوں نے دنیا کا نقشہ پلٹ کر رکھ دیا انہی میں روسو کی کتاب"سوشل کنٹریکٹ" تھی جو انقلاب فرانس کا پیش خیمہ ثابت ہوئی تھامس پیانے کی کتاب
" کامن سینس" امریکہ کی آزادی کا باعث بنی انکل ٹام کی "کیبن سے امریکہ" میں غلامی کا خاتمہ ہوا اسی طرح ہٹلر کی کتاب نے دوسری عالمی جنگ کو جنم دیا اسی تناظر میں چوہدری رحمت علی کی 1933 میں لکھی گئی کتاب "اب یا کبھی نہیں" نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ ملک کا نام "پاکستان" تجویز کر کے منزل کا تعین کر دیا چند ہی برس کے بعد 14 اگست 1947 کو ایک آزاد ملک معرض وجود میں آ گیا چوہدری رحمت علی پاکستان کی جغرافیائی حثیت سے مطمئن نہ تھے کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ" پاکستان" میں پ سے پنجاب ، ا سے افغانستان، ک سے کشمیر ،س سے سندھ اور تان سے بلوچستان ہے یہ سب پاکستان کا حصہ ہیں 1948 میں وہ پاکستان تشریف لائے لیکن اپنے ساتھی قائد اعظم محمد علی جناح (رح) کی وفات کے بعد مسلم لیگی قیادت کے رویہ سے مایوس ہو کے واپس انگلستان چلے گے 3 فروری 1951 کو کیمرج کے اسپتال میں غریب الوطنی ،خوداری اور بیماری کے عالم میں وطن کی محبت لئے اس دنیا فانی سے کوچ فرما گے مسلمانان برصغیر کے لئے ایک آزاد مملکت کا نام "پاکستان" تجویز کرنے والے قومی ہیرو کو وطن عزیز کی مٹی میں دفن ہونے کے لئے دو گز زمین بھی نصیب نہ ہو سکی مصور پاکستان کا جسد خاکی آج بھی امانت کے طور کیمرج میں عیسائیوں کے قبرستان میں امانتا دفن  ہے افسوس آج تک کسی بھی پاکستانی حکمران کو یہ سعادت نہ ہو سکی کہ وہ اپنے قومی ہیرو کو واپس لا کر اعزاز کے ساتھ ماں کی گود میں رکھ دے سابق وزیر اعلی اور موجودہ حکومت کے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے اپنے سابق دور میں جسد خاکی واپس لانے کی مکمل تیاری کر لی تھی نہ جانے وطن عزیز کے کس دشمن کی نظر لگ گئ؟ اسی طرح ہمارے موجودہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 8 جولائی 2018 کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹرمیں میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا اور اس معاہدے پر دستخط بھی کئے کہ اقتدار میں آنے کے بعد تین ماہ کے اندر چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی  لا کر شکرپڑیاں میں اعزاز کے ساتھ دفنائیں گے وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب چوہدری رحمت علی کی روح بھی آپ کے وعدے کی منتظر ہے کہ کب آپ اس وعدے کی پاسداری کریں گے وزیر اعظم پاکستان عمران صاحب اس وقت برطانوی حکومت کی جانب سے جسد خاکی کی حوالگی کا کام مکمل ہے صرف حکومت پاکستان کے ایک کاغذ کے ٹکڑے این او سی کی ضرورت ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کئی بار ملتان میں اس این او سی کے ٹکڑے کا وعدہ بھی کر چکے ہیں مگر جس وقت دفتر خارجہ میں اپنی کرسی پہ براجمان ہوتے ہیں تو شائد بھول جاتے ہیں وزیر اعظم پاکستان عمران صاحب کیا اپنا وعدہ بھول چکے ہیں یا صرف وعدہ محض وعدہ ہی تھا یا چوہدری رحمت علی کے نام پہ ووٹ حاصل کرنا مقصود تھا وزیر اعظم صاحب اگر ہم اسی طرح اپنے قومی ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے ان کے نام پہ ووٹ حاصل کرتے رہے تو آنے والی نسل کا مستقبل کیا ہو گا؟ قومی ہیروز کو نصاب میں شامل کر کے ان کےاقوال کے مطابق اپنے قول و فعل کو کیا جائے تاکہ قوم کا نوجوان پاکستان کی حقیقت  سے آگاہ ہو سکے امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب جسد خاکی کو پاکستان لا کر سچے پاکستانی ہونے کا ثبوت پیش کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :