قانون طاقتور ہے احتیاط کیجئے

جمعرات 21 نومبر 2019

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

26اپریل 2012ء پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ ایک وزیراعظم کو عدالت نے بلا کر پورے تیس سیکنڈقید کی سزا سنائی اورپھر 19جون 2012ء کا واقعہ تھا جب پیپلز پارٹی کے یوسف رضاگیلانی کی رکنیت معطل کر دی ۔ سزا ملنے کے باوجود گیلانی صاحب کا موقف تھا کہ میں اب بھی وزیراعظم ہوں آخری اتھارٹی سپیکر ہیں ۔ یعنی اس وقت بھی طاقتور قانون کا منہ چڑھایا گیا پھر اسی سزا یافتہ وزیراعظم نے دوبارہ الیکشن میں حصہ بھی لیا مگر طاقتور قانون کچھ نہ کر سکا ۔

اس وقت کے صدر مملکت آصف زرداری سمیت ان کی ساری کابینہ نے عدلیہ کو جمہوریت کی قاتل قرار دیا تھا اور واضح الفاظ میں کہا گیا کہ عدلیہ کی طرف سے جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے ،ہم نے دیکھا کوئی وزیر مشیر طاقتور قانون کو بروئے کار نہیں اور نہ کسی نے احتیاط کی ۔

(جاری ہے)

پھر 3اپریل2016ء کو پانامہ کا کیس سامنے آیا تو ایک بار پھر ہمارے طاقتور قانون کا امتحان شروع ہو گیا ۔

ایک حاضر سروس وزیراعظم کی کرپشن رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تو پھر پارلیمنٹ اور قوم سے خطاب ہوئے اور کہا گیا کہ حضور یہ ہیں وہ ذرائع جن سے ہم نے مال بنایا ۔ پھر حالات و واقعات ایسے ہوئے کہ قوم کی امید ایک بار طاقتور قانون سے بندھ گئی ۔ جے آئی ٹی بنی تو اس کے ممبرز کو ڈرایا دھمکایا جاتا رہا رشوت کی آفرز دی جاتی رہیں ۔اور پھر بلآخر 28جولائی 2017ء کو وزیراعظم کو کرپشن پر فارغ کر دیا گیا ۔

اس کے بعد اس سابق وزیراعظم اور تاحیات نااہل شخص نے طاقتور قانون کی تاریخی وہ درگت لگائی جو کسی نے سوچی بھی نہ تھی ۔ آج محترم چیف جسٹس صاحب نے طعنہ دینے پر باقاعدہ ردعمل دے دیا لیکن جی ٹی روڈ مارچ میں تو معزز ججز کو گالیاں دے گئی جگہ جگہ کھڑے ہو کر برملا کہا جاتا رہا کہ ان پانچ ججوں کی کیا حیثیت ہے انکی کیا اوقات ہے کہ انہوں مجھے فارغ کر دیا ، ان کو کس نے یہ اختیار دیا۔

لوگوں سے باقاعدہ حلف لیا جاتا رہا کہ ججوں سے بدلہ لو گے نا ، یہ فیصلہ ان کے منہ پر مارو گے نا ۔ ہم تمہارے ایسے فیصلوں کو نہیں مانتے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والے کو یہ پانچ جج چلتا کر دیں ۔ یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو عدلیہ کی ناک کے نیچے سے ہوتا ہوا لندن چلا گیا ۔ مگر ان گالیوں پر نہ کسی نے غصہ کیا نہ کسی نے طعنہ محسوس کیا اور نہ کسی نے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا ۔

اس قوم کو قانون کی طاقتوری دیکھنے کی خواہش ہی رہی ،اگر قانون طاقتور ہے تو سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے وہ لواحقین در بدر کیوں پھر رہے جن کی آنکھوں کے سامنے انکی ماوٴں ، بہنوں اور بیٹیوں کے منہ میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ؟ اگر قانون واقعی طاقتور ہے تو سانحہ ساہیوال کے سارے ملزموں چھوڑ کیوں دیا گیا ؟ حالانکہ اس واقعہ کے سب سے بڑے اور چشم دید گواہ وہ معصوم بچے تھے جن کی آنکھوں کے سامنے انکی دینا بڑی بے دردی اجاڑ دی گئی ۔

قانون کی ایسی طاقتوری نے ان یتیموں کی یتیمی کا بھی خیال نہیں کیا ،کیا یہ بچے کل کو بڑے ہو کر قانون بالادستی کا احترام کرینگے ؟ جبکہ ان معصوموں کو بچپن میں ہی یتیمی کا طوق پہنانے والے بھی قانون کے طاقتور رکھوالے تھے ۔ نقیب اللہ محسود کے لواحقین کو انصاف ملا ؟
ایسے بے شمار کیسز ہیں کچھ تو میڈیا پر رپورٹ ہو جاتے ہیں اس لیے عوام کی نظر میں ہیں اور زیادہ تر تو میڈیا پر آتے ہی نہیں ۔ کئی مجرم قانون کا منہ چڑھا کر نکل جاتے ہیں جبکہ کئی ملزم ایسے ہیں جن کو بیس بیس سال جیلوں میں رکھ کرباعزت بری کر دیا جاتا ۔ قوم تو پہلے ہی سیاسی ،قانونی اور عسکری معاملات سے بڑی احتیا ط کیے ہوئے ہے ۔بس یہ سب اپنی طاقتوری دکھائیں اور انصاف کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :