بڑے مگر مچھوں کی گرفتاری قابل تحسین اقدام لیکن!!

منگل 9 اکتوبر 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

سیانے کہتے ہیں کہ انسان کو جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے وہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ جمعتہ المبارک کے مقدس دن کو ویسے تو بہت فضیلت حاصل ہے لیکن یہی دن شریف خاندان کے لئے کوئی بُری خبر لاتا ہے اور ان کے لئے مشکلات کھڑی کر دیتا ہے ۔ نواز شریف کے خلاف کیسزکے فیصلے ہوں یا وزارت عظمی سے ہٹائے جانے والے احکامات اور پھر ان کی گرفتاری، یہ سب واقعات جمعتہ المبارک کے روز پیش آئے اور یقینی طور پر جمعہ کا دن شریف خاندان کے لئے بڑا بھاری ثابت ہوا ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے جہاں بہت سے کئی عوامل بھی کار فرما ہونگے وہاں ان کے دور حکومت میں ملک میں جمعہ کی تعطیل ختم کر کے بے برکتی اور اس سے منسلکہ کئی لعنتوں کا دور شروع ہوا۔ آپ اب بھی تاریخ کے جھروکوں میں جا کر اس دور کا اور دور حاضر کا موازنہ کر لیں تو معلوم ہو گا کہ جب ملک میں جمعہ کی تعطیل ہوتی تھی تو برکتوں اور رحمتوں کا دور دورہ ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

لو گ پابندی اور بڑے خشوع و خضو ع کے ساتھ نماز جمعہ ادا ء کرتے تھے ۔ جس کی وجہ سے جہاں اللہ کی خاص رحمتیں نازل ہوتی تھیں وہاں تمام تر معاملات بڑی خوش اسلوبی سے طے پاتے تھے ۔ ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی تھی اور ہر شخص خوشحال زندگی بسر کرتا تھا۔ جب سے جمعے کی تعطیل ختم کی گئی اس وقت سے اب تک حالات خراب سے خراب ہوتے چلے گئے اور نتائج آپ کے سامنے ہیں کہ اس وقت ہر جگہ بے برکتیاور بے سکونی کی عفریت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔


قارئین ! گذشتہ جمعہ کو نیب نے شہباز شریف کو اپنی حراست میں لیا اور احتساب عدالت نے جن کا مزید دس روز کا ریمانڈ دے دیا ہے ۔نیب ذرائع کے مطابق شہباز شریف کی گرفتاری آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سکینڈل میں من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دینے کے نتیجے میں عمل میں لائی گئی ہے۔ سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ سکیم کا ٹھیکہ ٹینڈر جیتنے والی کمپنی لطیف اینڈ سنز کے مالک پر دباؤ ڈال کر واپس لیا اور اپنی من پسند کمپنی کے افراد کو یہ ٹھیکہ دیا، جس کی وجہ سے ناصرف منصوبے میں تاخیر ہوئی اور منصوبے کی لاگت بڑھ گئی بلکہ منصوبے کے اجراء میں بھی بے ضابطگی ہوئی۔

اس کی وجہ سے قومی خزانے کو 14ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔یاد رہے کہ ابھی صاف پانی کیس تفتیش کے مراحل میں ہے جہاں کئی بڑے انکشافات سامنے آنے کو ہیں ۔ فی الحال آپ اس خبر سے اپنے سیاسی آقاؤں کی ملک اور عوام دشمنی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ صاف پانی کمپنی کی کنسٹلٹنسی کی مد میں قومی خزانے کوڈیڑھ ارب روپے کا چونا لگا دیا گیا ۔ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی صاف پانی کا کوئی ایک بھی قطرہ عوام کو میسر نہ آسکا۔

اندازہ لگائیں کہ کس قدر گھناؤنے چہرے ہیں ان لوگوں کے جو بظاہر لوگوں کے خادم ہونے کے دعویدار تھے ۔
بلا شبہ بڑے بڑے کرپشن کیسز میں بڑوں کی گرفتاری ایک احسن اقدام ہے جو ملک کو صاف شفاف پاکستان کی جانب لے جانے میں مثبت اقدام کا آغاز ہے۔اس کے ساتھ قوم یہ سوال بھی کرتے نظرآرہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں بشمول آصف علی زرداری جو کرپشن کے گرو سمجھے جاتے ہیں اور اربوں کی نہیں کھربوں روپے سے سوئس بینک اکاؤنٹ اور سرے محل سجائے بیٹھے ہیں ، کے خلاف کب ایکشن کا آغاز ہو گا؟ اربوں روپے کے بے نامی اکاؤنٹس رکھنے والوں کی پشت پناہی کر نے والے سیاسی آقاؤں کو کب بے نقاب کیا جائے گا؟ قومی خزانے کو لوٹ کر اپنے ذاتی خزانوں کو بھر نے والے کب قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہو نگے؟ پانامہ لیکس میں سامنے آنے والے سیکڑوں ناموں کے چہروں سے کب نقاب اتارا جائے گا؟حکومتی صفوں میں براجمان ، نندی پور منصوبے کے مرکزی کردار ڈاکٹر بابر اعوان کا کیس بھی نیب افسران کی راہ تک رہا ہے ۔


جناب چیف جسٹس کی بدولت حالیہ دنوں شہرلاہور میں منظر عام پر آنے والے بد نام زمانہ قبضہ گروپ منشا بم گروپ کی کارستانیاں سامنے آرہی ہیں اور اس کی گرفتاری میں رکاوٹ بننے والے جن و لوگوں کے نام پولیس کی طرف سے سامنے آئے ہیں ان کا تعلق بھی حکومتی جماعت، پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور بد قسمتی دیکھئے کہ کئی روز گزر جانے کے باوجود بھی پولیس اسے گرفتار نہ کر سکی ۔

اسے پولیس کی غفلت تو نہیں کہا جا سکتا البتہ وزیر ہاوسنگ پنجاب کے صاحبزادے کے کیس میں جس طرح پولیس کسی کے اشاروں پر خاموش نظر آرہی ہے ، منشا بم کیس میں بھی کچھ ایسے ہی معاملات دیکھنے کو مل رہے ہیں جس سے پولیس میں تبدیلی اور اصلاحات کی آوازیں خود ہی دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں جس کی تازہ مثال پاکپتن کیس رپورٹ ہے جس کے مطابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا تبادلہ اثر و رسوخ کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دفتر میں ہونے والی ملاقات میں احسن جمیل گجر کا رویہ تضحیک آمیز تھا جب کہ آئی جی کلیم امام کا کردار ربر اسٹیمپ کا تھا۔ احسن جمیل گجر نے پولیس افسران سے کہا کہ آ ئندہ ایسا ہوا تو سب کو بھگتنا پڑے گا، یہ کہنا بھی دھمکی ہے کہ سب بھگتیں گے، احسن جمیل گجر کے خلاف کارروائی قانونی معاملہ ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے عملے نے ڈی پی او کو ٹرانسفر کے متعلق بتایا، تبادلے کے بعد چارج چھوڑنے سے متعلق بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس سے فون آیا۔


قارئین محترم !پاکستان میں اصل تبدیلی تب تک نہیں آسکتی جب تک تمام کرپٹ لوگوں کے خلاف بے رحم احتساب کا آغاز نہ شروع کیا جائے اور ان سے وتی ہوئی رقم واپس لی جائے ۔ اگر ہم حقیقی طور پر احتساب کے عمل کو شفاف اور موثر بنا نا چاہتے تو اس کے لئے ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں سمیت حکومت کی صفوں میں براجمان چو اچکوں کے خلاف بھی کاروائی کا آغاز کیا جائے ۔ بڑے مگر مچھوں کی گرفتاری احسن اقدام ہے لیکن ایسے ہی دیگر مگر مچھوں کو آزاد چھوڑ دینا حکومت اور احتساب کرنے والے اداروں کی کار کردگی پر سوالیہ نشان ہے جنہیں اس کا جواب دینا چاہئیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :