دنیا کے ساتھ بہتر ہوتے معاملات خوش آئند لیکن!

منگل 5 فروری 2019

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بلاشبہ تبدیلی سرکار نے دنیا کے سامنے پاکستان کے امیج کو بہتر بنا نے میں کافی کوششیں کی ہیں اور جس کے ثمرات دیکھنے کو بھی مل رہے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کا حکومت میں آنے کے بعد سب سے پہلااقدام دنیا کے ساتھ خراب ہوتے معاملات کی اصلاح تھی اور جس کا میں اپنے ایک کالم میں ذکر بھی کر چکا ہوں کہ اگر یو۔اے۔ای حکومت کے ساتھ معاملات میں کچھ نرمی دکھائے جائے تو زنگ لگے سالوں پرانے تعلقات میں گرم جوشی کا عنصر غالب آسکتاہے ۔

اسی کالم میں ہم نے اس بات کا عندیہ بھی دیا تھا کہ اگر دنیا کے ساتھ معاملات بہتر بنا نے کے لئے حکومت اسی پالیسی پر گامزن رہی تو کچھ بعید نہیں کہ عرب دنیا بالخصوص قطر اور یو۔اے۔ای کے حکمرانوں کا پاکستان کے لئے جذبہ ایثار پہلے سے بھی کئی زیادہ نظرآئے گا۔

(جاری ہے)

الحمد للہ ایسا ہی ہوا ۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں نے انتہائی گرمجوشی سے پاکستان کا خیر مقدم کیا اور یہاں سر مایہ کاری کرنے سمیت کئی ارب ڈالرز کے آسان قرضے کی بھی حامی بھر لی ۔

سعودی عرب کے ساتھ معاملات میں بھی پہلے کی نسبت کافی بہتری پیدا ہوائی ہے اور یہ اسی بات کا ثبوت ہے کہ آئندہ چند روز میں سعودی ولی عہد کا متوقع دورہ پاکستان بہت سی خوشخبریوں کی نوید سنائے گا۔ ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے تاریخی سر مایہ کاری کا اعلان متوقع ہے اور اس کے علاوہ حجاج کرام سمیت عمرہ زائرین کو مزید آسانیاں دینے کا بھی حتمی فیصلہ کیا گیا ہے ۔


قارئین !عرب دنیا سمیت امریکہ جیسی سپر پاور بھی اپنے غرور کو خاک میں ملا کر پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے ۔ افغانستان میں قیام امن کے لئے طالبان اور امریکہ میں ثالثی کا کردار بھی پاکستان اداء کر رہا ہے اور پوری دنیا میں جس کے چرچے ہو رہے ہیں ۔ پاکستان کے حوالے سے امریکہ کو بھی اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا پڑا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ دہشتگردی کے خلاف دی جانے والی پاکستانی قربانیوں کو تسلیم کر چکی ہے اور آئندہ پاک امریکہ تعلقات برابری کی سطح پر آنے کے امکانات ہیں ۔

چین پہلے ہی ہمارا شراکت دار ہے ۔ مزید خوشخبری کی بات یہ ہے کہ چین سے مزید 100بڑے سر مایہ کار پاکستان آرہے ہیں جبکہ ترکی اور ایران بھی پاکستان کی مکمل سپورٹ کر رہے ہیں ۔ ان حالات میں جہاں عالمی سطح پر پاکستان عروج کا سفر تیزی کے ساتھ طے کر رہا ہے وہاں عالمی سر مایہ دار بھی پاکستان میں سر مایہ کاری کے لئے بے قرار نظر آتے ہیں ۔
مصدقہ رپورٹ کے مطا بق پچھلے ایک ماہ میں پاکستان میں درجنوں غیر ملکی کمپنیاں سر مایہ کاری کے لئے آئیں ہیں ۔

ان میں بیشتر ایسی کمپنیاں ہیں جو پہلے بھی یہاں کام کر رہی تھیں لیکن بد تحالات اور کرپشن کی وجہ سے کام چھوڑ گئی تھیں۔ حال ہی میں پاکسان کے آٹو سیکٹر کو پروان چڑھانے کے لئے آٹھ کار ساز کمپنیاں 1.5بلین ڈالرزکی سرمایہ کاری لیکر پاکستان میں داخل ہو چکی ہیں۔ آئے روز چینی،ملائشین ، ترک اور دیگر ممالک کے سر مایہ کار ، وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے مل کر از سر نو سرمایہ کاری کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے وژن کو دیکھتے ہوئے جلد ہی سر مایہ کاری کے منصوبوں پر کام بھی شروع کر رہے ہیں ۔

حالیہ دنوں میں وزیر اعظم کی جانب سے تمام سر مایہ کاروں اور کئی ممالک کے لوگوں کے لئے ویزہ شرائط میں نرمی کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔
قارئین محترم!وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے وژن کے مطابق عالمی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں سر مایہ کاری اور کئی ممالک کے شہریوں کے لئے ویزہ شرائط میں نرمی ، پاکستان کی اکانومی کے لئے خوش آئند اقدامات ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اداروں میں بیٹھے لوگ جنہوں نے سر مایہ کاروں اور دیگر لوگوں کے ساتھ معاملات طے کر نے ہیں وہ قابل بھی ہیں؟مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ سے لیکر نیچے تک تمام لوگ انتہائی سست، لاپر واہ اور انسان بیزار ہیں۔

وزراء اپنے حلقے کے لوگوں کو ملنا تو دور ان کی کالز سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ سر کاری افسران کام کر نے کو تیار نہیں ۔ لوگوں کے معاملات کئی کئی مہینوں سے سر کاری دفاتر کی فائلوں کی زینت بنے ہوئے ہیں ۔ وزیروں اور سر کاری افسروں کے درمیان ایک عجیب سی کھینچا تانی ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی اور جس سے عام آدمی شدید متاثر ہو رہا ہے ۔ حکومت کے قبضہ مافیا کے خلاف سخت ایکشن کے نعرے میں بیورو کریسی نامی مخلوق خود رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ گوجرانوالہ میں ایک بیوہ عورت کے گھر پر پچھلے دس سالوں سے قبضہ مافیا قابض تھا۔ قبضہ گروپوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا نعرہ مستانہ بلند کرکے وجود میں آنے والی حکومت میں بھی صرف یہ نعرہ رہا ۔ یہ بوڑھی عورت کبھی کمشنر کے پاس تو کبھی اسسٹنٹ کمشنر کے دفتروں کے چکر لگا لگا کر تھک گئی ۔وہ اور ضلعی انتظامیہ اس خاتون کو مزید ذلیل کرنے میں لطف محسوس کرنے سے آگے کچھ نہ کر پائے ۔

بھلا ہو نرم دل پولیس افسر طارق عباس قریشی اور احسان اللہ شاد کا جنہوں نے اپنے طور پر اس بوڑھی اور بیوہ خاتون کو صرف چار روز میں اس کا حق دلایا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت ایکشن لیا۔
ان حالات میں جب سر مایہ کاروں سے معاملات طے کر نے والے سر کاری افسروں کی یہ حالت ہے تو کیسے سر مایہ کاروں کو اپنے منصوبے شروع کرنے میں آسانی میسر ہو سکے گی؟ جب آوے کا آوہ ہی بگڑا ہو تو کیسے لوگوں میں آسانی تقسیم کر نے کا نعرہ حقیقت کا روپ دھار سکے گا؟ جب وزیر اعلیٰ پنجاب خود اس بات کا اقرار کر رے ہوں کہ مجھے ٹرینڈ ہونے میں وقت لگے گا تو اس صوبے کے دیگر افسروں کا کیا حال ہو گا، آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں؟ جناب وزیر اعظم !دنیا کے ساتھ بہتر ہوتے معاملات یقینی طور پر خوش آئند ہیں لیکن ملکی سطح پرجو کرپٹ اور بے ایمان لوگ سر کاری دفتروں میں بیٹھے ہیں ، جب تک ان کے خلاف احتساب کاآغاز شروع نہ ہو گا تب تک کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہو سکے گا ۔

یہ یونہی سر مایہ کاروں کو تنگ کر کے ،ان کے معاملات کو لٹکا کر پاکستان کے ترقی کے سفر میں رکاوٹ بنے رہیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :