مسئلہ کشمیر کا حل۔۔۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن

جمعہ 1 نومبر 2019

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

جنت نظیر کشمیر کی تاریخ زخموں ،سسکیوں اورآہوں سے لبریز ایک ایسی دل سوز داستان ہے ،جس کے ہر صفحہ پر لہو رنگ قصہ ہائے درد مرقوم ہیں۔ 27اکتوبر 1947ء ،جسے ہر سال اکتوبر کی 27 تاریخ کو یومِ سیاہ کے طور پرمنایا جاتا ہے ۔ یومِ سیاہ کے انعقاد کا مقصدعالمی دنیاکو یادکراناہے کہ کشمیر 72برسوں سے ہری سنگھ کی سیاہ کاری کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے ،دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ کشمیر آج بھی ناجائز الحاق کی آگ میں سلگ رہا ہے ، اس دن کا مقصد یہ بھی ہے کہ کشمیر میں انسانیت ظلم و استبداد کا شکار ہے ، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کشمیری مظلوم لوگوں کواقوام متحدہ نامی، جس ادارے نے حق خود ارادیت کاحق دیا تھا، اسے اپنا وعدہ نبھانا ہے ۔

اس دن کا مقصد یہ بھی ہے کہ کشمیر95فیصد مسلمانوں کا علاقہ ہے، جہاں ہندو وٴں کا غاصبانہ ظلم جاری ہے ۔

(جاری ہے)

اس دن میں کالی پٹیاں باندھ کر ریلیاں نکال کر دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیا کے منصفوں کو بھارت کی سیاہ کاری کا رنگ سمجھنے میں آسانی رہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد حق ،حق دار تک پہنچانے کا پیغام دینا بھی ہے ، اس دن کے حوالے سے جلسے جلوسوں اور تقریروں کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی کی دنیا کے بھولے بھالے منصفوں کو یہ یاد کرانا بھی ہے کہ کشمیر میں واقعی ظلم ہورہا ہے ۔

اسے ہر سال منانے کا یہ بھی مقصد ہے کہ شاید کبھی کشمیر ی مسلمانوں کی آزادی کے لیے عالمی دنیا کا ضمیر جاگ جائے ۔شاید اس دن کے منانے سے دنیا اوردنیا والے کشمیر میں72سال سے جاری بھارتی بربریت ، سفاکیت، ظلمت اور وحشت کا ادراک کرسکیں، مگر ہر سال کی طرح ہر سال مایوس گزر جاتا ہے اور شاید یہ سال بھی مایوس گزر جائے کیوں کہ جس دنیا کا ضمیر جگانے کے لیے معصوم بیٹیوں کی عصمت دری ، جوان بیٹوں کی تڑپتی لاشیں ، مظلوم ماؤں کے بین اور لاچار بہنوں کی آہیں اور سسکیا ں کارگر نہ ہوسکیں ،یہ کپڑے کی کالی پٹیاں کیا بتا سکیں گی، تاہم امید پہ دنیا قائم ہے ۔

ایک امید ہے، جو جستجو میں بہر حال مصروفِ کار ہے ،اس امید کے ساتھ کہ شاید کبھی کشمیر کی آزادی کا سورج طلوح ہوجائے ۔جستجو کے اس سفر میں کشمیر آج تک کسی مسیحا کی مسیحائی کا منتظر ہے ۔
27اکتوبر کے حوالے سے دیکھا جائے تو پہلی بار سال 1990ء میں رہنما ئے جمعیت اسلام قاضی حسین احمدنے ایک دن کو کشمیر سے یکجہتی کے نام کیے جانے کی تجویز کا اظہار کیا،جب کہ میاں نواز شریف نے پانچ فروری1991ء سے ہرآیندہ سال پانچ فروری کو یک جہتی کشمیر کے لیے’ نیشنل ہالی ڈے ‘ قرار دیا اور اسے ہر سال منانے کا حکم نامہ جاری کیا ۔

لہٰذالوگ ہرسال پانچ فروری کو ٹولیوں ریلیو ں کی صورت میں کشمیر سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسے کشمیر کے دن کے طور پر مناتے ہیں ۔ سیمینار اور جلسے منعقد کیے جاتے ہیں اور انڈیا سمیت دنیا کے تمام ملکوں کی توجہ بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کشمیر کو حقِ خود اردیت کا حق دیا جائے ، تاہم بعض ناعاقبت اندیش اسے محض چھٹی کے طور پر منانے پر اکتفا کرتے ہیں۔

رسمی کارگزاری ہی سہی ،مگر بہر حال یومِ یک جہتی ٴ کشمیر منانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
اس سلسلے کی ایک کڑی ہرسال27اکتوبر کا یومِ سیاہ ہے ۔،جس کے دھارے 27اکتوبر 1947مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت کے ساتھ کشمیر کے ناجائز الحاق سے ملتے ہیں ،جب کہ پانچ اگست 2019ء دوسرا یومِ سیاہ ہے ،جب موجودہ انتہا پسند ہندو بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے آرٹیکل 370اور 35Aکے خاتمے سے کشمیری تشخص پر شب خون مارا اور 8لاکھ ناجائز فوج کو مسلط کر کے کرفیوکا نفاذ کردیا ۔

بد قسمتی سے اس دوران میں اسلامی اور غیر اسلامی ممالک سے رابطے کیے گئے ، انھیں کشمیر کی حالتِ زار بتائی گئی۔ اقوام متحدہ کی سماعتوں پر دستک دی گئی ۔ اسی اثنا میں عمران خان کا 27نو مبر 2019ء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے طویل تر خطاب بھی ہوا ۔ خطاب کو پذیرائی بھی ملی ، بعض غیر ملکی مبصرین اور ہمدردوں نے کشمیر کے دکھ کو محسوس بھی کیا ، مگر 90دن ہوچکے ، انڈین فوج 8سے 9لاکھ تک تجاز کر گئی ۔

ہزاروں نوجوان حبسِ بے جا میں قید ہوگئے ، داناپانی ختم ہوا ، ادویات اورضرورریاتِ زندگی کا فقدان ہوگیا اور جنت نما وادی جہنم کا روپ دھار کر انگار وادی بن گئی ۔تاہم ظلم بڑھا اور بڑھتا چلا گیا ۔ہمدردانہ رسمی بیانات آتے رہے ،جاتے رہے ۔ فون ، انٹر نیٹ اور ذرائع ابلاغ کا کو ئی ذریعہ باقی نہ رہا مگر اتنے سب کچھ کے باوجود کسی کو یقین نہیں آیا کہ کشمیرکے ساتھ کیا ہورہا ہے ْ
 جب کسی غیر ملکی غاصب کا بلاروک ٹوک 90روز کا کرفیو ہو ،کوئی پوچھنے والا نہ تو تصور کیجیے کہ اس بستی کے مکینوں اور مسکینوں پر کیا بیت رہی ہوگی ۔

اسلامو فوبیا جیسے بے حقیقت اور تنگ نظر رویے سے سر باہرنکال کر جھانکیے تو بطور انسان کوئی مظلوم انسانیت سسکتی ہوئی نظر آئے گی ۔ مگر جہاں آنکھیں پتھرا جائیں ،جہاں دل دماغ پتھر ہوجائیں ، جہاں انسان درندگی پر اتر آئیں ، جہاں حق کو حق کہنے کے حوصلے مٹ جائیں تو احساس کی موت واقع ہوجایا کرتی ہے ،کیوں کہ جب دلوں سے احساس ختم ہوجاتا ہے تو دنیا میں کوئی مرتا ، تڑپتا اور سسکتا دکھائی ہی نہیں دیتا ۔

مسیحائی تو بعد کا معاملہ ہے ۔
پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم جنھیں غیروں سے زیادہ اپنوں کے ستم کا سامنا ہے ۔ جنھیں خارجہ امور کے کہیں بڑھ کرداخلی انتشار اور سیاسی مفادات کے جنگ کا سامنا ہے ،جس کے اپنے ہی غیروں سے بڑھ کر دکھ کے بیج بورہے ہیں ۔ جس کوپرائے شعلوں کے بجائے اپنے ہی گلستاں کی آتشِ گل کا سامنا ہے ۔ ہائے کیا بے بسی ہے ۔

دوسری جانب نریندر مودی کے وارے نیارے کہ پاکستان میں کشمیر کے تذکرے دھرنوں نے دھر لیے اور وہ کام جس کے لیے اسے منصوبہ سازی کرنا پڑ رہی تھی ،’کسی مہرباں نے آکے اس کی زندگی سجا دی ‘ ، بات دھرنوں کے دکھ کی طرف گئی تو لمبی ہوجائے ،’یہ کہانی پھر سہی ‘ ۔القصہ عمران خان نے 30اگست 2019 ء سے ہر جمعہ کو 12 سے12:30 بجے تک آدھا گھنٹا کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے مخصوص کرتے ہوئے فرمایا کہ اس حوالے سے ہونے والی تقریب کا آغاز قومی ترانے سے کیا جائے گا، کشمیر کا قومی ترانہ بھی بجایا جائے گا اور کشمیریوں کو یقین کر ایا جائے گا کہ حکومتِ پاکستا ن اور پاکستان کی 22 کروڑ عوام کشمیریرں کے ساتھ کھڑی ہے۔

تقریب ڈی چوک اسلام آباد ہوگی۔ تمام ٹریفک رک جائے گی ،سگنل سرخ کر دیے جائیں گے ،جو آدھا گھنٹا سرخ ہی رہیں گے ۔ ایک اچھا اقدام تھا مگر چھ جمعے گزر گئے ،ابھی تک کرفیو ہٹا نہ دکھ ہی مٹا ۔کتنا بڑا دکھ ہے کہ 27اکتوبر1947ء سے 27اکتوبر 2019ء تک تقریباً ساڑھے تین ہزار جمعے گزر چکے لیکن آج تک کشمیر کی قسمت نہ جاگ سکی ۔آج تک سسکیوں اور آہوں میں کمی نہ ہوسکی ، آج تک مظلوم ماؤں ، بہنوں ،بیٹیوں کے سر پر آنچل رکھنے والے مسیحا کے ہاتھ ایجاد نہ ہوئے ۔

آسماں چپ چاپ سارے منظر دیکھتا رہا، زمیں سارے لہو چوستی رہی، جلسے ہوتے رہے تقریریں ہوتی رہیں ۔ مگر کاش بقولِ غالب
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
مرے دکھ کی دوا کرے کوئی
جمعہ جمعہ آٹھ دن ، ایک دو نہیں پورے 72برس بیت گئے ،ساڑھے تین ہزار جمعے چل بسے ،کوئی مسیحا پیدا نہ ہوا۔ کوئی راستہ مل نہ سکا ۔ کوئی سورج طلوع نہ ہوا ۔

کسی رفو گر سے چاک گریباں رفو نہ ہوا ۔ کیا سارے دکھ کشمیر کی بیٹی ہی کا مقدر تھے ۔کیا سارے آنسو کشمیر ی ماؤں کی دیدہ ٴ تر کا مقدر تھے ،کیا سارے زخم کشمیر کے بیٹوں کے جسموں کی ضرورت تھے ۔ کیا آسماں کو ابھی اور خون کا کھیل دیکھنے کا اشتیاق ہے ۔کیا مظلوموں کے لہو سے دھرتی کی پیاس مٹی نہیں ۔ کیا جنت نظیر دھرتی کے پھولوں میں صرف لہو کا رنگ ہی اچھا لگتا ہے ۔

کیا 72برسوں سے زخم سہتے کشمیری نوجوان ،بچے ،بوڑھے اور مائیں ،بہنیں بیٹیاں ہی زخموں اور دکھوں کی سزاوارہیں ۔ عجب تعجب ہے کہ عالمی دنیا ، اسلامی دنیا ، اقوامِ متحدہ ، اور اوآئی سی ، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں ،عالمی مبصرین اور عالمی میڈیا کیا واقعی کچھ نہیں جانتا، خدا کی پناہ بے حسی کی حد ہوتی ہے ، شاید بقول فیض احمد فیض
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
جمعہ جمعہ آٹھ دن ، کچھ پتا نہیں چل رہا ، دنیا کیا سے کیا ہوگئی ۔

کن فیکون اور تخلیقِ آدم گویا کل کی بات ہے ۔صدیاں بیت جاتی ہیں ۔ زمانے مٹ جاتے ہیں ۔ زندگی قبروں کا روپ دھار لیتی ہے ۔ہر نیا انسان خوش فہمیوں کے بھنور میں ہچکولے کھاکرآخر مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے ۔یہ دنیا کسی کی نہیں ، ظالموں کی نہ مظلوموں کی ، یہ سرحدوں کے پہرے ، یہ بے حس پتھر کی مورتیاں اور جانوروں سے بدتر انسان ،نجانے کس زعم میں پوری دنیا چھین لینا چاہتا ہے ۔

شاید اسے معلوم نہیں کہ یہ دھرتی ، یہ ملک ، یہ مال و متاع ، سب خس و خاشاک ہیں ، خاک ہیں ۔ کئی فرعون ہو گزرے ، کئی قارون خزانوں کی چابیاں سمیٹتے سمیٹتے خاکسترہوئے ۔ چند دنوں کا کھیل ہے۔ زندگی کیا ہے ،جمعہ جمعہ آٹھ دن ،مگر ایسی بے حس کہ اپنے چاہنے والوں کو یکسر بھول جاتی ہے ۔ دن گزرتے دیر نہیں لگتی ۔ ابھی کل کلاں کی بات ہے، سال 2019ء آیا اور اپنے خاتمے کو چھونے لگا ہے ۔

اسی طرح کشمیر کے کربِ مسلسل کے 72 سال بیت گئے مگر دنیا کو گویا کانوں کان خبر ہی نہیں ہے ،گویا کچھ بھی ہوا نہیں ہے ، گویا کوئی بھی مرا نہیں ہے ۔عالمی دوربینوں کو کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا ،کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا ۔ شاید اس لیے کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن ابھی 72سال ہی تو گزرے ہیں ۔
 ابھی 5اگست 2019ء کو دیکھیے ،جمعہ جمعہ آٹھ دن ، 90دن گزر گئے۔

کتنا عجب ہے وقت کا چلن کہ کسی کے ہاتھ نہیں آتا۔ مگرتاریخ کے صفحات پر کئی شاندار شواہد ملتے ہیں کہ یہ سر کش وقت ان لوگوں کا غلام بن جاتا ہے، جو اس کو جیت لیتے ہیں، جو انسانوں کے دل جیت لیتے ہیں ۔ وقت صدیوں ان کی پوجاکرتا رہتا ہے ، وقت کا سر کش گھوڑا ہمیشہ ان کے نام پر دم ہلاتا رہتا ہے ۔ ایسے لوگوں کودنیاخالد بن ولید ،طارق بن زیاد ، محمد بن قاسم ، سلطان محمود غزنوی ، صلاح الدین ایوبی اور محمد علی جناح کے نام سے یاد کیا کرتی ہے ۔

یہ لوگ ابراہیم  وموسیٰ  اورحسین بن کر نمرود وفرعون و یزید کے ایوانوں میں ارتعاش پیدا کردیتے ہیں ۔ یہ کائنات کے ایسے مسیحا ہوتے ہیں ،جن کے وجود سے کائنات امن و سلامتی کا گہوارہ بنتی ہے۔ مگر افسوس کہ کائنات ایسے قابلِ فخر کرداروں سے محروم ہوتی جارہی ہے ۔ آج کشمیر جنت نظیر کسی مسیحا کی تلاش میں ہے ۔اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ اگرپھر سے کوئی محمد علی جناح جیساحقیقی رہبروراہ نما جنم لے لے تو بلاشبہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہوسکتا ہے ۔کشمیر آزاد ہوسکتا ہے ۔ یہ ممکن ہے ۔ یہ ممکن ہے ۔ بقول اقبال
یہ دور آج بھی اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :