
مسئلہ کشمیر اور ہم
پیر 9 دسمبر 2019

حسان بن ساجد
(جاری ہے)
5 اگست 2019 کو بھارتی لوک سبھا (پارلیمنٹ) نے آرٹیکل 370 اور 37 ۔اے کو ختم کرکہ کشمیر کی جغرافیای حالت و آبادی کو بدلنے کی کوشش کی۔ اب کشمیر میں بھارتی لوگ بھی جگہ خرید سکیں گے اور بھارتی قوانین بھی کشمیر پر نافظ العمل ہوں گے، گویا 5 اگست سے آج کے دن تک کشمیر میں کرفیو کا عالم ہے۔ دفاتر، کالج، اسکول، ہسپتال، بینک، دوکانیں، بازار و نظام مواصلات مکمل طور پر بند ہیں۔ انٹرنیشنل صحافی کی کشمیر رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 7 ہزار بے نامی قبریں ہیں۔80 ہزار بچہ یتیم جبکہ 6 ہزار افراد گرفتار ہیں۔رپورٹ کے مطابق ہر 10 افراد پر ایک انڈین فوجی تعینات ہے۔بچیوں اور عورتوں کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ 7 ہزار افراد پر تشدد کیا گیا۔ اس رپورٹ اور "جینوسائیڈ واچ" کے الرٹ کے بعد اقوام عالم کو جاگ جانا چاہئیے بدقسمتی سے 2018 کو فلسطین نے جہاں بھارتی وزیراعظم کو اعلیٰ سول ایوارڈ دیا تھا وہیں 2019 میں متحدہ عرب امارات نے بھی مودی کو تب اعلیٰ سول ایوارڈ دیا جب کشمیریوں پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں۔کشمیر کی اگر بات کی جاۓ تو یقینا" 124 دنوں کے کرفیو کے بعد قحط سالی ہوگئی ہوگی؛ خوراک و بچوں کے لیے دودھ کی کمی ہوگی۔ کشمیریوں کو نماز عید الاضحی نا پرھنے دی گئی اور نماز جمعہ کی اجتماعات سے بھی روکا جارہا ہے مگر ایسے میں مسلم امّہ غفلت کی نیند سو رہی ہے۔امت مسلمہ کی تلواریں فقط رقص کے عالم میں ہیں۔
دوسری جانب پاکستان كرتارپور راہداری کھولتا ہے تو بھارت کی سپریم کورٹ بابری مسجد کیس کا متنازع فیصلہ سناتی ہے۔ ادھر پاکستان 300 مندروں کی مرمت و تعمیر کا اعلان کرتا ہے تو ادھر بھارتی ریاست " آسام" میں بھارتی حکومت نے مسلمانوں اور دوسری اقلیتی مذاہب کے ماننے والے 40 لاکھ افراد میں سے ابتدای طور پر 19 لاکھ افراد سے انکی شہریت کا حق چھین لیا۔اب وہ لوگ بھارتی شہری نہیں ہیں اور ابتدائ طور پر 80 ہزار بھارتی فوجی آسام سے 19 لاکھ افراد کو بے دخل کریں گے۔ بھارتی اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح رح کا دو قومی نظریہ بلقل درست تھا۔ بھارتی موجودہ حکومت مکمل طور پر 19 کی دہائی میں بننے والی آر۔ایس۔ایس کے ایجنڈا پر گامزن ہے۔ اس نظریہ کا مقصد فقط "مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا دو یا مار دو ہے"۔ اسی نظریہ کی پوجاری موجودہ بھارتی بی۔جے۔پی حکومت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اور خاص طور پر گمراہ و تقسیم امت مسلمہ کو وحدت کی جانب لایا جاۓ۔
ادھر کشمیری مائیں و بہنیں پارک سر زمین کی طرف دیکھ رہی ہیں تو ادھر ہم اپنی مستیوں میں گم ہیں۔ وزیراعظم عمران خاں صاحب نے اقوام متحدہ میں بے شک بہترین خطاب کیا۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا فقط خطاب سے کشمیری سکھ کا سانس لے لیں گے؟ 124 واں روز ہونے کو ہے قوم اور بین الاقوامی دنیا کی توجہ پاکستان پر ہے اور ہماری توجہ کا مرکز وائٹ ہاؤس اور دنیا ہے۔ پاکستان کو جس قدر توقع وائٹ ہاؤس اور ڈونلڈٹرمپ سے ہے اسکی مثال نہیں ملتی۔وزیر اعظم صاحب کو کشمیر پر اپنا ایجنڈا خود بنانا ہوگا ان کشمیریوں کے لیے جامع حکمت عملی بنانی ہوگی جو شہید ہونے کے بعد پاکستانی پرچم میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں۔
سفیر کشمیر جتنا خاموش ہوگا دنیا اتنی کشمیر کی جانب نہیں دیکھے گی۔ میرا مقصد ملک کو جنگ کی طرف ڈالنا نہیں ہے میرا مقصد ہے کہ آج دن تک ہم نے کشمیر پر اسلامی سربراہی کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔کشمیر مسلہ پر مسلم ممالک ہی جب ساتھ نہیں تو امریکا تو پھر غیر ہے۔ اگر OIC متحرک نہیں تو کیا ہم OIC سے نکل نہیں سکتے؟ بڑے اور سخت و مضبوط سفارتی جنگ لڑنی ہوگی۔ میڈیا و اخبارات کو کشمیر مسلہ کو اجاگر کرتے رہنا ہوگا تاکہ دشمن اپنے عزائم میں ناکام ہو۔ ہمیں نا صرف اندرونی محاذ پر، غربت و بے روزگاری کے خلاف لڑنا ہے، معاشی جنگ، سفارتی و سرحدی جنگ کے لیے بھی تیار رہنا چاہئیے۔ مجھے آیندہ دنوں میں ملکی سطح پر سیاسی نواز شریف صاحب کی بیماری بڑھتی اور واپسی نظر نہیں آتی البتہ زرداری صاحب کی دبئی روانگی نظر آتی ہے۔میرے ذاتی تجزیہ کے مطابق پرویز مشرف صاحب کو سنگین غداری کیس میں کلین چٹ ملے گی۔بہر حال ان تمام صورت حال کے ساتھ آج میرے قلم اٹھانے کا مقصد مظلوم و محکوم کی آواز بننا تھا۔ہمیشہ مظلوم، محکوم اور بے آواز کی آواز بننے کی کوشش کی اور امید کرتا ہوں حکومت وقت ضرور مسلہ کشمیر پر 100 فیصد متوجہ ہو گی اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرے گی اور باقاعدہ حکمت عملی سے کشمیر محاذ پر سفر جاری رکھے گی۔بھارتی وزیر داخلہ کے بیانات شر انگیزی کی جانب دھکیل رہے اور رافیل تیارون سے بھارت کو غرور اور زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔شائد بھارت فروری 2019 کی چاۓ بھول گیا ہے۔ خبریں ہیں کہ بھارت نے جنگ کی تیاری کر رکھی ہے اور کشمیر محاذ پر چھیڑ چھاڑ کی کوشش ہوگی۔ شائد دشمن بھول چکا ہے کہ پاک فوج کے سپاہی وہ اللہ کے شیر ہیں جو جان تو دے سکتے ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ ایک ہی کمپنی بی۔آر۔پی نہر پر دشمن کی بریگیڈ کو روک لیتی ہے تو چونڈا کے میدان میں دشمن کے ٹینکوں کا صف ماتم بچھ جاتا ہے۔بے شک پاک فوج ملکی دفاع کے لیے آخری گولی و آخری سانس تک لڑے گی اور اس ملک کی ایک ایک انچ کی محافظ ہوگی۔ بہر حال انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب سری نگر میں پاکستان کا جھنڈا لہراے گا اور کشمیر آزاد ہوگا، مگر اس کے لیے خالصیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حسان بن ساجد کے کالمز
-
مہنگا نظام اور عوام
بدھ 2 فروری 2022
-
محبت اور آج کی محبتیں!
جمعرات 1 اپریل 2021
-
23 مارچ "یوم پاکستان" کیا ہم آزاد ہیں؟
جمعرات 25 مارچ 2021
-
کیا تبدیلی آنے والی ہے؟
پیر 8 مارچ 2021
-
اساتذہ پر لاٹھی چارج و گرفتاریاں!
جمعرات 24 دسمبر 2020
-
پی۔ڈی۔ایم اور کرونا وائرس
اتوار 29 نومبر 2020
-
پھر تم سا نا کوئی ہوا
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
نواز شریف اور 12 اکتوبر 1999
پیر 12 اکتوبر 2020
حسان بن ساجد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.