حکومتوں کی کامیابی کا راز

جمعرات 29 اگست 2019

Hussain Jan

حُسین جان

یوں تو جیسے ہی کوئی سیاسی جماعت برسراقتدار آتی ہے تو عوامی مسائل کا حل اُس کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔اور وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو انتخابی ایجنڈے کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ کام حکومتی مدت تک چلتے رہتے ہیں، مثلا تعلیم، صحت، روزگار، مہنگائی امن و امان وغیرہ۔ کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو اپنی نوعیت بدلتے رہتے ہیں۔

آپ اس کی مثال ایسے لے لیں کہ گرمیوں میں عوام کے لیے سب سے ضروری چیز بجلی ہوتی اس کو ہر حال میں پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ورنہ اُس کے تمام اچھے کام پس پردہ چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف سردیوں میں گیس کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو اُس کی طرف دھیان لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں گیس کی قلت ہمیشہ سے برقرار رہتی ہے۔

(جاری ہے)

اسی طرح روزوں میں کھجور ، پھل اور لیموں مہنگے تو عید شبرات پر دیگر لوازمات پہنچ سے دور ہوجاتے ہیں۔ 
 موجودہ حکومت کو ایک سال مکمل ہو گیاہے۔ سوچنے کی بات ہے کیا حکومت نے عوام سے کئے وعدے پورے کیے ہیں۔ کیا جو پی ٹی آئی کا منشور تھا اس پر مکمل عمل درآمد ہوا ہے۔ یا اس کی طرف کوئی پیش قدمی کئی گئی ہے۔ سیدھی سی بات ہے ایک مزدور کو ملک کے آئین سے کوئی دلچسپی نہیں۔

وہ آئین میں کی گئی کسی ترمیم کو بھی نہیں مانتا۔ اُس کی نظر میں خارجہ پالیسی کی کوئی اہمیت نہیں۔ جمہوریت کیا بلا ہے اسے کچھ نہیں پتا۔ صدر ٹرمپ پاکستان کے بارے میں کیا سوچتا ہے اس کی بلا سے۔ اسے کیا چاہیے ، اس کی ضرورت ، آٹا، دا ل، روٹی، اور دیگر ضروریات زندگی ہے۔ سستی چیزیں اگر غریب آدمی کی پہنچ میں ہوں تو اس کے لیے حکومت وقت سوناہے ورنہ دیگی لوہا۔

حکومت کسی عوامی منتخب حکومت کی ہو یا فوجی ڈیکٹیٹر کی اسے کوئی غرض نہیں۔ اسے ضروریات زندگی کی بنیادی چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ وہ چاہتا ہے چینی سستی ہو۔ گھی اس کی پہنچ میں ہو۔ آٹا دال سستی ملے۔ آج غریب سے غریب شخص بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا چاہتا ہے۔ اگر حکومت اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے گی تو وہ ضرور بچوں کو تعلیم دلوائے گا۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ حکومت عام آدمی کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔

 
اگر صورتحا ل کا غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو موجودہ حکومت میں مہنگائی کی شرع بہت زیادہ بڑھی ہے۔ ضروریات زندگی کی اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوگئیں ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زندگی مزید مشکل ہو تی جارہی ہے۔ ہسپتالوں میں ادویات ناپید ہیں۔ وہ لیبارٹری ٹیسٹ جو پہلے ہسپتالوں میں مفت ہوتے تھے اب وہ بھی پیسوں سے ہوں گے۔

صحت کارڈ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اپنا شناختی کارڈ نمبر 8500پر بھجیں اور یہ جانیں کہ آپ صحت کارڈ کے لیے اہل ہیں یا نہیں۔ لوگوں کی اکثریت کو یہی میسج آرہا ہے کہ آپ صحت کا رڈ کے اہل نہیں۔ حکومت کی طرف سے شرائط بھی نہیں بتائی جارہیں کہ اگر کوئی نااہل ہے تو اس کی کیا وجہ ہے۔ اسی طرح نیا گھر سکیم کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یعنی پہلے فیس میں ڈیمانڈ دیکھی جائے گی تو دوسرے میں دوبارہ رجسٹریشن کروا کر قرعہ اندازی میں شامل ہونا ہو گا۔

اس طرح لوگوں سے دو دو دفعہ پیسے لیے جائیں گے۔ جو کہ بالکل مناسب نہیں۔ 
عمران خان کے ایک سالہ دور حکومت میں مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ وہ لوگ جو پارٹی کے ووٹر تھے وہ بھی اب گالیاں دیتے ہیں۔ سپورٹر اور کارکنان بھی روز لوگوں سے گالیاں کھاتے ہیں تو اچھے وقت کی تسلیاں دیتے دیکھائی دیتے ہیں۔ بڑے بڑے تاجر حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔

ابھی حکومت کی جانب سے ٹیکس کا صرف اعلان ہی کیا جاتا ہے تو یہ تاجر چیزوں کے ریٹ دگنا کردیتے ہیں۔ جب تک عمران عام آدمی کے مسائل کو نہیں سمجھتے تب تک عوامی مقبولیت حاصل کرنا ناممکن ہوگا۔ 
ایک طرف تو ملک کے اندورنی حالات ٹھیک نہیں تو دوسری طرف مسئلہ کشمیر کی وجہ سے عالمی پریشر بھی بہت زیادہ ہے۔ انڈیا ہٹ دھرمی کا مظاہر کر رہا ہے اور کشمیریوں کے حقوق دبائے بیٹھا ہے۔

کشمیر کے حالات کی وجہ سے ہمارے ملک پر بہت اثر پڑتا ہے۔ حکومتوں کا دھیان دوسری طرف چلا جاتا ہے۔ اس سے ملکی مسائل کو حل کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر میں ثالثی کا کردار ادا کریں تاکہ دونوں ممالک کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں اور حکومتیں اپنی تمام تر توانائیاں لوگوں کے مسائل حل کرنے میں خرچ کر سکیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :