سب سے پہلے کشمیر یا پاکستان

ہفتہ 12 اکتوبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

میرے خیال میں کشمیر پر ہم نے گفتگو کے ذریعے جو کچھ کرنا تھا وہ ہم کر چکے۔ انڈیا کو کئی دفعہ باور کروانے کی کوشش کی جا چکی ہے کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ دوسرئے مسائل پر بھی ہم سے بات چیت کرئے۔ اس کے ساتھ وزیر آعظم پاکستان جناب عمران خان اسلامی کونسل میں بھی پاکستان کا مقدمہ احسن طریقے سے پیش کرچکے ہیں۔ وز یرآعظم نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بہترین تقریر کی۔

وقتی طور پر عالمی برادری کے لیڈران نے ہمارا موقف تسلیم کیا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی پلیٹ فارم سے ہمیں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ تو اب ہمیں کیا کرنا ہوگا یہ وہ بات ہے جو ہم جتنی جلدی سوچ لیں اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سلامتی کونسل میں کی گئی تقریر کے نتیجے میں دُنیا کو اس طرف سنجیدگی سے سوچنا چاہیے تھا مگر کوئی بھی اس مسئلے کو حل کروانے پر تیار نہیں۔

(جاری ہے)

ہاں امریکی صدر نے مصالحت کی پیش کش کی تھی مگر سب جانتے ہیں کہ وہ دوغلا آدمی ہے۔ اس نے ایک طرف تو انڈیا کو خوش کرنے کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملائی تو دوسری طرف عمران خان کو بھی اپنا بہترین دوست کہا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ انڈیا اقوام متحدہ کی قرارداروں سے فرار حاصل کر رہا ہے۔ او آئی سی بھی ایک ایسا ادارہ ہے جو کبھی بھی مسلمان ملکوں کی مدد نہیں کرتا۔

دوسری طرف ترکی نے ایک نئی جنگ چھیڑ دی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ تقریبا سارا مشرق وسطی حالت جنگ میں ہے۔ 
سلامتی کونسل میں تقریر کے بعد اب مزید کچھ دیر انتظار کرنا چاہیے اگر عالمی برادری کی طرف سے اس مسئلے کی طرف پیش قدمی کی جاتی ہے تو ٹھیک ورنہ بات پھر وہی ہے کہ ہمیں خود کچھ کرنا ہوگا۔ انڈیا کشمیریوں پر ظلم کر رہا ہے۔

ایک طرف توہم کہتے ہیں کہ کشمیر ہماری شارگ ہے اور دوسری طرف عالمی برادری سے بھیک مانگتے ہیں کہ آکر ہماری مدد کی جائے ۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا کوئی ملک تب تک اس معاملے میں نہیں آئے گا جب تک ہم خود اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر واقعی کشمیر ہمارا مسئلہ ہے تو ہمیں انڈیا سے خود ہی اسے آزاد کروانا ہوگا۔ کسی کو پرائی جنگ میں ٹانگ پھنسانے کی کیا پڑی ہے۔

سب کے اپنے اپنے مفاد ہیں۔ اور یہ رونا ہمارے وزیر خارجہ رو چکے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزور کی مددکوئی نہیں کرتا۔ 
ہم جنگ کے حمایت نہیں کرتے مگر کیا اس کے علاوہ کوئی اور حل ہے؟ بالکل نہیں جب تک ہم انڈیا سے ایک اور جنگ نہیں کرتے تب تک عالمی برادری اور خود انڈیا اس طرف سنجیدگی سے نہیں سوچے گا۔ ہم گزشتہ پچھتر سالوں سے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

لیکن کوئی ہمیں خیر ڈالنے کو تیار نہیں۔ ہماری افواج دُنیا کی بہترین فوج ہے تو پھر ہم دوسروں کی طرف کیوں دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا تو پہلے ہی ہم پرہر الزام لگا دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اس کو سختی سے جواب دیں ہم طویلیں ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں۔ ہمیں تو کبھی کبھی لگتاہے کہ کشمیر ہمارا صرف سیاسی مسئلہ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر یہ ہماری زات کا مسئلہ ہوتا تو اس پر ایک فیصہ کن جنگ لڑی جاچکی ہوتی۔

آپ کریں انڈیا پر حملہ لوگ قربانی دینے کو تیار ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جنگ ہمیشہ تباہی لاتی ہے۔ لوگ مرتے ہیں ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ مگر اس کے سوا آ پ کے پاس کوئی اور حل بھی تو ہو۔ ہم بات چیت کاہر پلیٹ فارم استعمال کرچکے ہیں مگر کوئی سنوائی نہیں ہو ئی۔ کہیں اشرافیہ جنگ سے خوفزدہ تو نہیں۔ کیونکہ اشرافیہ اور صاحب اقتداران کی زندگی تو پرآسائش گزر رہی ہے۔

دکھ درد تو عوام جھیل رہے ہیں۔ یقین کریں ہر دوسرا بند ہ حالات سے اس قدر تنگ آچکا ہے کہ وہ زندگی پر موت کو ترجیح دے رہا ہے۔ تو ایسے میں ایک عدد جنگ کیا کہتی ہے۔ ہمارے وزیراعظم کے لیے کشمیر کا مسئلہ نعمت خدا وندی سے کم نہیں۔ کیونکہ تقریبا سارا میڈیا اس طرف لگا ہوا ہے۔ عوامی مسائل سے دھیان ہٹ چکا ہے۔ 
سیاست میں مولانا فضل الرحمان صاحب کے دھرنے نے تھوڑی بہت ہلچل مچا دی ہے۔

ہو سکتا ہے اسی سے حکومت عوامی مسائل کی طرف دھیان دینا شروع کر دے ۔ کیونکہ ملک میں مہنگائی بے روزگاری اور غربت کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔ وہ لوگ جو عمران خان کو مسیحا سمجھ کر لائے تھے آج رو رہے ہیں۔ عمران خان صاحب تقریر بہت اچھی کرلیتے ہیں ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ تقریروں سے بہت نتائج بھی مل جاتے ہیں۔ مگر خدارا عوام کی طر ف بھی کچھ توجہ دیں۔

مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ ایسے میں اگر ہم کشمیر کا دم چھلا ساتھ لگا کر رکھیں گے تو نقصان میں رہیں گے۔ کشمیر کا ایشو بھی ساتھ ساتھ چلتا رہے اور عوامی مسائل کا حل بھی ڈھونڈا جائے۔ وزراء کا کیا ہے وہ تو جہاز میں بیٹھ کر کبھی اس ملک تو کبھی اُس ملک۔ ریلوے کے وزیر جو ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں بہت گرجتے ہیں اور اپنی ریٹنگ کے دعوئے کرتے ہیں ان سے ریلوے تو بہتر ہو نہیں رہی۔

روزانہ اخبارات میں ریلوے کے مسافروں کی تکالیف کی خبریں آرہی ہیں۔ ٹرینیں بار بار پٹریوں سے اتر رہی ہیں۔ 
لہذا آپ کشمیر کا چورن ضرور بیچیں مگر ملکی معیشت کو بھی اوپر لائیں لوگوں کا معیار زندگی بلند کریں۔ کشمیر پر اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو صرف جنگ کریں لکھ لے اس بات کوکشمیر کا جنگ کا سوا کوئی حل نہیں۔ جنگ کے بعد یا تو کشمیر ہمارے پاس آجائے گا یا پھر انڈیا کے پاس۔

لیکن کم ازکم دونوں فریق سکون سے تو بیٹھ جائیں گے۔ اگر ہم طاقت ور ہوتے تو انڈیا ہم سے ڈرتا اور کوئی بھی ایسا قدم نہ اُٹھاتا جس سے ہمارے ناراض ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ۔ مگر نہیں یہاں تو ہم نے اپنی اپنی نسلوں کو مظبوط کیا عام آدمی کا مفاد کسی نے بھی نہیں سوچا۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرئے مارنے والوں نے بھی صرف اپنی جیبیں بھری اور اپنی آل اولاد کو باہر بھیج دیا۔ ایسے ملک نہیں چلتے۔ اور اگر چلتے ہیں تو اپنی مرضی سے نہیں دوسروں کی مرضی سے چلتے ہیں۔ وطن قربانی مانگتا ہے اور فی الحال اشرافیہ قربانی دینے کو تیار نہیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :