سیاسی دنگل میں پِسے عوام

جمعرات 12 نومبر 2020

Iqbal Hussain Iqbal

اقبال حسین اقبال

یہ 2017ء کی بات ہے۔جولائی کا دہکتا مہینہ تھا۔گرمی کی شدّت بہ نسبت پچھلے سالوں زیادہ تھی۔انہی دنوں ضلع نگر حلقہ چار میں مرحوم محمد علی شیخ کی ناگہانی موت سے خالی نشست پر ضمنی انتخاب کے سبب سیاسی درجہ حرارت پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا۔جبکہ الیکشن کا بخار پورے گلگت بلتستان کی سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا۔

بالآخر 9 جولائی کو صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک ووٹ کاسٹ کرنے کا وقت معین کیا گیا۔میں حالات کا جائزہ لینے واسطے گھر سے پولنگ اسٹیشن کی جانب پا بہ رکاب ہوا۔اسٹیشن کے باہر ووٹروں،سپورٹروں اور بڑے بڑے سیاسی جگادروں کا ازدحام تھا۔اسی بھیڑ میں ایک معروف سیاسی شخصیت دونوں ہاتھ بلند کر کے انگلیوں کے اشارے سے اپنے حامیوں کو قبل از وقت جیت کی پکی نوید سنا کر مخالفین کا منھ چڑھا رہا تھا۔

(جاری ہے)

تھوڑی دیر میں اپنی ہار کی شرمناک شکست کو محسوس کرتے ہوئے ایسے غائب ہوگیا جیسے ڈھلتے سورج کے ساتھ پرندے اور اگلے ہی دن اسلام آباد کی جانب رفوچکر ہونے لگا۔
اس ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی،اسلامی تحریک، تحریک انصاف،ن لیگ اور کئی آزاد امیدوار مختلف نعروں،وعدوں اور بے لوث عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اپنی قسمت آزمائی کر رہے تھے۔مگر اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور اسلامی تحریک کے مابین تھا۔

پیپلز پارٹی کے امیدوار میدان مارنے میں سبقت لے گیا۔رات کے وقت چھلت مین چوک پر اتنا جمِ غفیر تھا کہ تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔مخالفین ایک دوسروں کے خلاف پُر جوش نعروں کے علاوہ ہذیان بکنے اور بندروں کی طرح نامناسب حرکتیں بھی کر رہے تھے'بدیں وجہ کئی دلخراش اور ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے۔پیپلز پارٹی اور اسلامی تحریک کے کارکنوں کے مابین گھمسان کی لڑائی ہوئی۔

ایک دوسروں پر سنگ باری کی گئی۔کئی افراد لہو لہان ہوئے۔مین بازار میدانِ کارزار کا منظر پیش کرنے لگا۔نہ جانے پولیس کہاں بلوں میں چھپ گئی تھی۔کچھ ذمہ دار افراد اپنے اپنے کارکنوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے'مگر ایک جنونی سپورٹر فرط جذبات سے بے قابو ہو کر مخالفیں پر پوری طاقتوں کے ساتھ ہلا بولنے کی سرتوڑ جتن کر رہا تھا۔دریں اثنا ایک ذمہ دار شخص آپے سے باہر ہو گیا اور جوتا اتار کر خوب پٹائی کی۔

بعد ازاں ایک آدھ پولیس کے سپاہی آئے اور ہوائی فائرنگ و لاٹھی چارج سے حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔مجھے یہ سارے ہولناک مناظر سخت ناگوار گزرے۔کسی چھوٹے سے حلقے کی چھوٹی سی اقتدار کے لیے یہ معرکہ آرائی اور عوام کی اخلاقی پستی دیکھ کر مجھ پر یاسیت کی کیفیت طاری ہوگئی اور میں اِدھر سے جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔سب سے افسوس ناک و اندوہ ناک بات یہ کہ اسی رات قرب و جوار سے طلاق کی مستند شہادتیں بھی موصول ہوئیں۔


محترم قارئین! مذکورہ بالا کہانی راقم کی آنکھوں دیکھا حال ہے۔مگر اسی نوعیت کی صورتِ حال تو اکثر اضلاع اور متعدد حلقوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔یہ بات بھی طے ہے کہ گلگت بلتستان امن و آشتی کے حوالے سے پاکستان کا ایک پُرامن خطہ ہے'مگر چناوٴ قریب آتے ہی مختلف جماعتوں کے سیاسی نوسرباز اور چند مفاد پرستوں کا ٹولہ نفرتوں کا ایسا بازار گرم کرتے ہیں کہ سادہ لوح عوام محبتیں،الفتیں،قربتیں،یاریاں غرض ہر طرح کے رشتے ناتے نفرتوں کے بھینٹ چڑھا کر سیاسی اکھاڑے میں اتر آتے ہیں۔

الغرض ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد میں تقسیم بندیاں عروج پر ہوتیں ہیں۔
اس ملک میں پچھلے کئی برسوں سے انتخابات ہو رہے ہیں،مگر عوام تو یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہے کہ سیاست دان تو محض الیکشن کے دنوں عوام کے بڑے ہمدرد ہوتے ہیں اور پُر تعیش گاڑیوں سے اتر کر کس طرح جھک جھک کر سلامی پیش کرتے ہیں؟مصافحے کرتے ہیں۔رشتہ داریاں جوڑ دیتے ہیں اور نہایت ہی مسکین صورتیں بنا کر ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں۔

الیکشن جیتنے کے بعد کسی غریب کی سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔عوام کے اُمنگوں کی ترجمانی کرنے کے دعوے دار کس طرح عوام کی اُمیدوں پر پانی پھیرتے ہیں؟ان کا عوام سے ملنا،شادیوں میں جانا،مریض کی عیادت کے لیے جانا،کسی میت پر جانا اور تو اور فاتحہ خوانی بھی سیاسی مقاصد کے لیے ہوتی ہے۔
 آپ دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے کیا یہ الیکشن کی لعنت اور چناوٴ کی خباثت نہیں ہے جس نے ہماری بھائی چارگی عداوت و دشمنی میں بدل کر ایک دوسرے کے دست و گریبان کر دیا ہے؟کیا ہماری اخوت ہم سے نہیں چھین لی گئی ہے؟ہمیں ماننا پڑے گا ہمارے گھر ٹوٹ گئے ہیں۔

خاندانیں اُجڑ گئیں ہیں۔مگر ہم نے ابھی تک ہوش کے ناخن نہیں لئے اور مد ہوشی کے عالم میں ان سیاسی گِدھوں کے حق میں گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے ہیں جو لڑاوٴ اور حکومت کرو کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باریوں پہ باریاں لیتے ہیں۔جس کا عملی مظاہرہ ابھی جی بی میں ہو رہا ہے۔
راقم الحروف کا عام و خاص سے دست بستہ التجا ہے کہ 15 نومبر 2020ء کو گلگت بلتستان میں ایک بار پھر سیاسی دنگل سجنے والا ہے۔

خدارا اس الیکش کو جنگ مت بنائیں۔یہ چند گھنٹوں کا کھیل اور کچھ دنوں کی امیری ہے۔جس کے لیے رشتوں میں دوریاں اور نفرتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے ایک دوسرے کے دلوں میں گھر کرنے کا ہنر سیکھ لیجیے۔ماضی کی حماقتوں اور کوتاہیوں کو دہرانے کے بجائے ان سے عبرت لینے کی کوشش کیجیے اور ان سیاسی پرندوں کو سیدھے راستے پر ڈالنے کیلئے ایک باشعور قوم ہونے کا ثبوت دیں تاکہ بعد از الیکشن ایک دوسرے سے نظریں چُرانے کے بجائے نظریں ملانے کے قابل رہ سکیں۔بشیر بدر کے اس شعر کے ساتھ:
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :