بات اب بڑھ رہی ہے!

جمعرات 5 نومبر 2020

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

بات اب آہستہ آہستہ بہت بڑھ رہی ہے اور میرے خیال میں جلد ہی اپنے منطقی انجام کی طرف پہنچ جائے گی۔ بہت سے قائرین کو شاید میری بات سے اختلاف ہو مگر اگر ہم اِس وقت مْلک کی سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو حکومت کی حواس باختگی یقیناً صاف دکھائی دے رہی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں وفاقی اور صوبائی سطح پر اسٹیبلشمنٹ میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی گئی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ پہ الزامات لگائے گئے کے وہ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کے زیرِاثر رہے ہیں لہٰذا ان کو تبدیل کیئے بنا نتائج نہیں حاصل کیئے جا سکتے۔

لہذا اپنی پسند کے بندوں کو کہ جن کا کردار “داغدار” نہیں تھا اہم محکموں میں تعینات کیا گیا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تحریک انصاف کی دو سالہ دور حکومت میں شدید تنقید کا سامنا رہا ہے جبکہ عمران خان ہمیشہ ان کا دفاع کرتے دکھائی دیے اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پر اعتماد کا اظہار کیا۔

(جاری ہے)

پنجاب حکومت کی کارکردگی پر اپوزیشن کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے تاہم ہر مرتبہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے یہ وضاحت سامنے آتی ہے کہ بیوروکریسی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی جس کے باعث پنجاب میں پرفارم نہیں کر پا رہے۔

مگر حقائق تو کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہے ہیں یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ اچھی انتظامیہ چلانے کے لیے میرٹ کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے مگر عثمان بزدار اپنی سیٹ مستحکم رکھنے کے لیے ہر ایم پی اے اور ایم این اے کی سفارشات کو ماننتے ہیں جس کی وجہ سے ہر ادارے کی کارکردگی خراب ہونا شروع ہو گئی۔ یہ تبادلے درحقیقت حکومت کی نااہلی کا اور انتظامی بد عملی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اب تک جتنے بھی افسر تبدیل ہوئے ان سب کا شمار قابل افسران میں ہوتا ہے مگر ہر دو تین ماہ بعد کسی نہ کسی بات پر حکومت اور ان کے درمیان تنازع کھڑا ہو جاتا ہے اور جو افسر اپنی بات پر ڈٹ جاتا ہے اس افسر کو بدل دیا جاتا ہے۔

دو سالوں میں پنجاب پولیس کے پانچ آئی جیز کو تبدیل کیا گیا ہے اور چھٹے کی تعیناتی کی گئی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے اور اس تعیناتی کو لاہور ہائیکورٹ میں ایک شہری نعمان امانت کی طرف سے چیلنج کیا گیا جسے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے ابتدائی سماعت کے لیئے منظور کر لیا تھا. اب آتے ہیں وفاقی حکومت کے موجودہ کردار پر کہ جس پر جتنی بھی تنقید کی جائے وہ کم ہے عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کرپشن کا راگ الا پتے رہے ہیں مگر وہ شاید بھول گئے کے کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی وہ اس قوم سے کئی وعدے کرتے رہے ہیں کبھی 90 دنوں میں تبدیلی کے تو کبھی ایک کروڑ نوکریوں کے، کبھی پچاس لاکھ گھروں کے تو کبھی گیس کے نئے ذخائر دریافت کرنے کے، حکومت کے پہلے سو روز مکمل ہونے کے بعد عمران خان نے قوم کو آگاہ کیا تھا کہ لوٹی دولت واپس لانے کیلئے 26 ممالک سے معاہدے ہوچکے ہیں اور ان ممالک سے حاصل معلومات کے مطابق پاکستانیوں کے 11 ارب ڈالران ممالک میں موجود ہیں جو کہ جلد واپس لائے جائیں گے۔

آج دو سال سے اوپر ہو گئے ہیں مگر ان باتوں اور دعوں کی قلعی کھل جانے کے بعد اب ایک طرف تو حکومت مریم نواز صاحبہ کے حکومت مخالف جلسوں سے گھبرائی ہوئی ہے اور دوسری طرف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اداروں کے کردار پر تنقید کے بعد حکومت اداروں کی خوش آمد میں مصروف ہے اور بجائے اپنی توجہ عوام کے مسائل کے حل کرنے پر لگانے کے حکومت کی تمام تر توجہ ایاز صادق کی صورت میں ایک نیا غدار متعارف کروانے پر ہے، تو دوسری طرف وزیر داخلہ اعجاز شاہ سیاسی مخالفین کو قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

سیاسی اختلاف کو ذاتی انتقام اور نفرت بنا دیا گیا ہے صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لیئے آئے روز نت نئے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب سیلیکٹڈ حکومتوں کے جانے کے دن قریب آتے ہیں تو وہ ساری توجہ مخصوص اداروں کی شان میں قصیدے پڑھتے ہی گزارتی ہیں جیسا کے وردی میں صدر منتخب کروانے والے کیا کرتے تھے۔ مگر جب سیلیکشن کی جگہ اصل الیکشن ہوں تو سیٹیں دو، چار ہی ملتی ہیں کوئی یہ بات عمران خان کو بھی سمجھا دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :