اسرائیلی جارحیت کی وجہ کیا ہے!

بدھ 19 مئی 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام مسجداقصیٰ اور اس کا قریبی علاقہ رمضان کے مہینے میں پرتشدد جھڑپوں کا مرکز رہا۔ یہاں 2017 کے بعد سے بدترین تشدد دیکھا گیا ہلال احمر کے مطابق 7 مئی اور 8 مئی کی درمیانی شب کو 300 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے تھے۔مختلف تجزیہ کاروں کی طرف سے لڑائی کی وجہ کی کئی بنیادی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ مثلاً شیخ جراح میں آباد فلسطینی خاندانوں کو ایک یہودی آبادکار تنظیم کی جانب سے جبری بیدخلی کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے علاقے میں حالات کشیدہ تھے اور اسرائیل کی عدالت عظمیٰ شیخ جراح میں اس یہودی آباد کار تنظیم کے حق میں بیدخلی کے حکم کے خلاف 70 سے زیادہ افراد کی اپیل پر پیر 10 مئی کے روز سماعت کرنے والی تھی لیکن اس جھڑپ کے بعد اس کیس کی سماعت بھی ملتوی کر دی گئی تھی۔

(جاری ہے)


دوسری ایک اور وجہ جو بتائی گئی وہ “ یومِ یروشلم” کا مارچ بھی تھا، یوم یروشلم 1967 میں چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کی فتح کی یاد میں منایا جاتا ہے جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ حاصل کر لیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ ہر مرتبہ کی طرح اس بار بھی رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی دمشق گیٹ کے باہر کھڑی کی جانے والی سکیورٹی رکاوٹوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں اور پولیس کے درمیان رات کے وقت جھڑپیں ہونے لگیں کیونکہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے وہ شام کے وقت وہاں یکجا نہیں ہو پا رہے تھے۔

اسی علاقے کے قریب انتہاپسند قوم پرست یہودیوں نے مارچ کا منصوبہ بنایا جس سے غصے میں مزید اضافہ ہوا۔
اس مارچ کو روکنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں نے رات مسجد اقصٰی کی عمارت میں گزاری تھی اور اگلے دن یعنی پیر دس مئی کو “ْیوم یروشلم مارچ”ْکے موقع پر ہونے والی متوقع جھڑپ کے باعث خود کو اینٹوں، پتھروں اور پیٹرول بموں سے لیس کر لیا تھا، جو کہ مقامی وقت کے مطابق شام چار بجے شروع ہونا تھا۔

جس کے بعد پیر 10 مئی کو انتہا پسند قوم پرست یہودیوں کی طرف سے مارچ کی کوشش کے بعد زبردست جھڑپیں ہوئیں اور ان جھڑپوں میں فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق 305 فلسطینی زخمی ہوئے تھے، ان میں سے 228 کو ہسپتال منتقل کرنا پڑا اور ان میں سے سات کی حالت نازک تھی۔ اسرائیلی پولیس کے 21 اہلکار بھی زخمیوں میں شامل تھے۔ اس کے بعد پیر سے یہ معاملہ باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر گیا ہے اور اسرائیل کے اتحادیوں بالخصوص امریکہ کی طرف سے موردِ الزام ہمیشہ کی طرح فلسطینی تنظیم حماس کو ٹھہرایا جا رہا ہے کہ پہلے حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ فائر کئیے گئے اور اسرائیل جو کر رہا ہے وہ اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔

اب تک ان حملوں میں تقریباً 210 سے زائد فلسطینی شہری خواتین اور بچوں سمیت شہید ہو چکے ہیں اور دس ہزار سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اور تقریباً 15 کے قریب اسرائیلی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
مشرقی یروشلم اسرائیل اور فلسطین تنازع میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ جس پر فلسطین کا حق ہے لیکن اسرائیل اس پر اپنے حق کا دعویٰ کرتا ہے۔اسرائیل نے 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی یروشلم پر قبضہ حاصل کر لیا ، تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں مگر اسرائیل پورے شہر کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے۔

درحقیقت حالات کے اس قدر بگڑ جانے کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل میں بنیامن نتن یاہو کی لیکود پارٹی کی حکومت سازی میں ناکامی تھی جس سے ملک میں اندرونی سیاسی تعطل طول پکڑ گیا اور دو برسوں میں پانچویں عام انتخابات کے امکانات بڑھ گئے۔ نتن یاہو کی حکومت مسلمانوں پر سختیاں کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک میں گذشتہ دو برس میں پانچویں مرتبہ عام انتخاب ہونے کی صورت میں انھیں اکثریت حاصل ہو سکے۔

کیونکہ گذشتہ دو برسوں میں اسرائیل میں چار عام انتخابات کروائے جا چکے ہیں لیکن ان انتخابات کے نتیجے میں کوئی بھی جماعت نہ صرف کہ 120 رکنی اسرائیلی پارلیمان میں واضح اکثریت لینے میں ناکام رہی بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں پر مشمل کوئی پائیدار اتحاد بھی نہ بن سکا جو حکومت چلا سکے۔ گذشتہ عام انتخابات کے بعد اسرائیل کے صدر نے اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم اور 30 نشستیں حاصل کرنے والی لیکود پارٹی کے سربراہ نتن یاہو کو حکومت سازی کے لیے اسرائیلی آئین کے تحت 28 دن کی مہلت دی جس دوران وہ مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔


نتن یاہو کو 28 دن کی مہلت بدھ 5 مئی کے روز ختم ہونے کے بعد حزب اختلاف کی جماعت کے سربراہ آئر لپد کو 28 دن کا وقت دیا گیا تاکہ وہ اپنی کوشش کر کے دیکھ لے۔ اس کی ناکامی کی صورت میں آئین کے مطابق پارلیمان کو 21 دن کا وقت ملے گا کہ اس کا کوئی رکن 61 ارکان کی حمایت ثابت کر دے بصورت دیگر ملک میں ایک مرتبہ پھر 90 دن میں انتخابات منعقد کروانے پڑیں گے۔

اس سارے سیاسی منظر نامے میں عرب فلسطینیوں کے دو سیاسی دھڑوں یونائٹڈ عرب لسٹ اور جوائنٹ عرب لسٹ کا کردار بھی کافی اہم ہو گیا۔ان دونوں دھڑوں نے گذشتہ انتخابات میں مجموعی طور پر دس نشستیں حاصل کی تھیں۔یونائٹڈ عرب لسٹ یا رام کہلائے جانے والے دھڑے کے رہنما منصور عباس کہہ چکے ہیں کے کہ وہ ہر اس جماعت کے ساتھ حکومت سازی کے عمل میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان کی شرائط تسلیم کر لے۔

لیکن قدامت پسند یہودی جماعتیں ان شرائط کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور کسی ایسے اتحاد کی تشکیل ممکن نہیں ہے جو ان کی حمایت کے بغیر مطلوبہ تعداد پوری کر سکے۔
بہرحال غزہ میں اپنی سابقہ کارروائیوں کی طرح امکان ہے کہ اسرائیل وہی پرانی دلیل دے گا کہ اس کی حالیہ کارروائی بھی اپنے دفاع کے تحت جائز ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق نمبر 51 کے مطابق اپنے دفاع کا حق بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول ہے۔

اگرچہ اس اصول کے کچھ پہلو متنازع ہیں لیکن عالمی سطح پر اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ایک ریاست مسلح حملے کے خلاف اپنا دفاع کر سکتی ہے۔ مگر یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ شر انگیزی تو اسرائیل کی طرف سے شیخ جراح سے فلسطینی شہریوں کو بیدخل کرکے کی گئی۔ نِتن یاہو اقتدار ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر دوبارہ طاقت حاصل کرنے کے لیے پاگل ہوا جا رہا ہے۔

اقتدار کی خاطر نہتے مظلوم فلسطینی شہریوں پر ظلم کر رہا ہے۔ اس کی سیاست کو اس کے اپنے لوگوں نے مسترد کردیا ہے اسی لئے تو وہ جنگ کارڈ کھیل کر اپنے لئیے اکثریت کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ اور دوسری طرف ہمیشہ کی طرح “او۔آئی۔سی” نے فلسطین پر اسرائیلی وحشیانہ حملوں کا معاملہ ایک قرارداد منظور کر کے نمٹا دیا۔ 57 اسلامی ملکوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے نہ اقتصادی بائیکاٹ کی بات، نہ کسی اور ایکشن کا مطالبہ کیا بلکہ فلسطین پر اسرائیلی بمباری اور وحشیانہ حملوں کو ایک روایتی قرار داد منظور کرکے نمٹادیا اور اقوامِ متحدہ سے فلسطین پر اسرائیلی حملے رکوانے کی اپیل کی۔

یہ ہے مسلمان ملکوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے جواب میں اسرائیلی وحشیانہ کاروائیوں کی مذمت۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 35 اسلامی ممالک نے مل کر جو متحدہ اسلامی فوج بنائی ہے اس کے اغراضِ و مقاصد کیا ہیں؟ کیا یہ فوج بس ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھانے کے لئیے بنائی گئی ہے یا اس کا کوئی عملی مقصد بھی ہے؟ کیونکہ آج اسرائیل میں فلسطینی مسلمانوں کی آبادی غزہ لہو لہو ہے خون مسلم کی ارزانی ہے۔ اعلان ”بالفور“ کے نتیجے میں مغرب کی سازش کے تحت 1948ء میں بننے والی اس ریاست ”اسرائیل“ کے قیام پر علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا تھا کہ:
خاک فلسطیں پہ یہودی کا ہے اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :