جیو اکنامک پالیسی

منگل 15 جون 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ارض پاک کو یہ اعزاز تو حاصل ہے ،کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اسے ہر طرح کے موسم، میدان،آب وہوا ،قدرتی وسائل دیئے وہاں اسکی جغرافیائی حیثیت بھی بڑی یونیک ہے، ایٹمی طاقت بننے سے اس کے مقام میں مزید اضافہ ہواہے،لیکن بدقسمتی ایسی کہ جب سے اسے آزادی میسر آئی ہے اس وقت ہی سے اس کا پالا ایک ایسے دشمن سے پڑا ہے جس نے تقسیم ہند کو آج تلک دل سے قبول نہیں کیا ہے،بد نیتی پر مبنی بٹوارہ نے بڑے مسائل کو جنم دیا ہے،اِن تنازعات ہی کو بنیاد بنا کر پالیسی سازوں نے سیکورٹی کے نام پر اس راستہ کا انتخاب کیا ہے جو فلاحی ریاست کی بجائے سیکورٹی سٹیٹ کی طرف جاتا تھا۔


پچاس کی دہائی سے لے کر اب تک دفاع کی آڑ میں ایسے معاہدے عالمی طاقتوں سے کئے گئے جن کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے،المیہ یہ ہوا جنکی خاطر قربانیاں دیں وہ اسے معاوضہ کے ترازو میں تولتے ہیں جو ڈالر کی شکل میں ارباب اختیار کو دیئے ،اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر جن کی میزبانی کا فریضہ ادا کیا وہ بھی ہمیں شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں،سرد جنگ کے خاتمہ سے لے کر دہشت گردی کی جنگ تک جیوا سٹرٹیجک پالیسی نے ہمسایوں کے مابین ہی عدم اعتماد کی ایسی فضا پیدا کر دی ہے،کہ ایک کو راضی کرنے کی کوشش میں دوسرا پڑوسی ناراض ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)


ملک کی طاقتور شخصیت آرمی چیف نے جیو اسٹرٹیجک کو جیو اکنامک پالیسی میں بدلنے کا عندیہ ایسے وقت میں دیا ہے جب امریکہ افغانستان سے شکست خوردی کے بعد رخصت ہورہا ہے،افغانستان میں متحارب گروہوں کے مابین جنگ جاری ہے، افغان حکومت کی رٹ روز بروزکمزورہو رہی ہے،طالبان ملک کے مزید علاقہ جات پر اپنا قبضہ جما رہے ہیں، چین اور امریکہ کے نمائندگان کے مابین الاسکا میں تلخ جملوں کا تبادلہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جو بائیڈن چین کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتے اس کے برعکس چین مخالفت میں انکل سام ہندوستان کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے، امن کی خواہش کی بے تابی نے بھارت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ عرب امارات نے کروا تو دیاہے لیکن کشمیر کا معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے، کپتان کے بار بار مطالبہ کے باوجود مودی سرکارنے کشمیر کا سابقہ سٹیٹس بحال نہیں کیا ہے ۔


امریکی انخلاء علاقائی تنازعات کی موجودگی میں جیو پولیٹکس سے نکلنا خاصا محال ہے،افغانستان کی غیر یقینی صورت حال میں سنٹرل ایشین ا سٹیٹس سے معاشی ،تجارتی معاہدہ جات کر نا بھی مشکل دکھائی دیتاہے۔اسلام آباد کی خواہش ہے کہ سائینو امریکہ سرد جنگ کا کبھی بھی حصہ نہ بنے، لیکن پاک چین دوستی کی لاج رکھے بغیر بھی گزارا نہیں۔
ہماری خارجہ پالیسی کا محور اگرچہ ہندوہستان ہی رہا ہے ۔

تاہم اِسکی پاداش میں کئے جانے والے دفاعی معاہدے مسئلہ کشمیر کے حل میں بھی سود مند ثابت نہیں ہوئے ہیں،ہم دوستوں
کی بجائے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کرتے رہے ہیں،جانی اور مالی قربانی کے باوجود اس خطہ کے مسلم ممالک ہمیں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، جن کے ہم اتحادی ٹھہرے انھوں نے بھی اپنا وزن ہمیشہ ہمارے دشمن کے پلڑے میں ڈالا،ہماری برآمدات پر بے جا پابندیاں عائد کی گئیں،ہمارا شمالی بارڈر جو ازل سے محفوظ تھا اسکو غیر محفوظ بنا دیا گیا،وہ قبائل جنہوں نے جہاد کرکے آزاد کشمیر کا خطہ ہماری جھولی میں ڈال دیا تھا ہم انکو ہی دشمن سمجھ بیٹھے۔


ماہرین کا خیال ہے کہ داخلی اور خارجہ پالیسی اگر عوام کے منتخب نمائیندے مرتب کرتے تو صورت حال بہت مختلف ہوتی،بارڈر لائن پر باڑ لگانے کے باوجود سرحد پار سے دہشت گردی کا دھڑکا لگا رہتاہے ، کہا جاتا ہے کہ جیو اکنامک پالیسی علاقائی ترقی،امن استحکام،قومی معشیت کی بحالی سے عبارت ہے، اِسکے حصول کے لئے اصلاحات ناگزیر ہیں،ہماری حالت یہ ہے کہ 2015 میں معاشی حب کہلانے والا منصوبہ سی پیک ابھی بھی کچھوے کی چال چل رہا ہے،سیاسی محاذآرائی نے سرمایہ کاروں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے، مشیر تجارت نے گذشتہ مارچ سے مال بردار ٹرین کو ترکی اور ایران تک چلانے کی نوید سنائی تھی لیکن شعبہ کی خستہ حالی دیکھ کر پروگرام ملتوی کر نا پڑا۔


جیو سٹرٹیجک سے جیو اکنامک پالیسی میں تبدیلی محض بیان بازی سے ممکن نہیں ہے،اس کے لئے آلات۔تجارتی معاہدے،ٹیرف پالیسیاں بنانا، زیادہ سے زیادہ مصنوعات کو منڈیوں تک پہنچانا ہی اسکی عملی شکل ہوسکتی ہے،اس کے لئے سیاسی معشیت کا خاتمہ بھی لازم ہے تاکہ برآمدی مسابقت کو بہتر بنایا جاسکے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ مسلسل سیاسی انتشار کے باوجود اس ملک کی اشرافیہ نے آٹو موبائل،کھاد،چینی جیسی بڑی صنعتوں کو کارٹائلز کر رکھا ہے، اس قماش کے طبقہ نے بجلی گھروں میں سرمایہ کاری کر کے مہنگی بجلی کی فروخت سے بھاری منافع کمایا ہے،جسکا نقصان برآمدات کی کمی اور سرمایہ کی بیرون ملک منتقلی کی صورت میں سامنے آیا ہے،معاشی ماہرین کا خیال ہے،کہ دوسرے ممالک کو سامان تجارت کی محض ترسیل وطن میں خوشحالی لانے کا سبب نہیں بن سکتی، اسکے لئے خود انحصاری لازم ہے جس کا راستہ اداروں کی مضبوطی، بہترین انتظامی ڈھانچہ درکار ہے ،نیز فن اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ افرادی قوت ناگزیر ہے ،جو بہترین نظام تعلیم سے ممکن ہے،ملکی برآمدات ،زر مبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ وقت کا تقاضا ہے، لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ آمدہ مالی سال کے بجٹ میں شعبہ تعلیم،صحت، سماجی ترقی کے لئے مختص کی گئی رقم دفاعی ضرویات کے مقابلہ میں بہت ناکافی ہے، ان حالات میں جیو اکنامک کا خواب بھلا کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟
دنیا میں صف اول کے ممالک کی ترقی کا راز تعلیم کے فروغ اور بہترین سماجی ڈھانچہ اور عوامی خدمات کی فراہمی میں مضمر ہے کرونا جیسی وبائی مرض نے خطہ کی دوبڑی ایٹمی طاقتوں کے نظام صحت کی قلعی کھول دی،ہندوہستان میں کئی انسان سرراہ سڑکوں پر جان کی بازی ہار گئے،قرض کے بوجھ تلے دبی ،نیم خواند ہ ہماری قوم کی ساری صلاحتیں سیکورٹی سٹیٹ پر صرف ہوتی رہی ہیں، پی کر قرض کی مہہ فاقہ مستی کے رنگ لانے کی اُمید پر ہم زندہ ہیں،تمام سماجی شعبہ جات کو فنڈز کی عدم دستیابی کا سامنا اس لئے رہتا ہے
 کہ ہمارے پالیسی سازوں نے بانی پاکستان کی منشاء کے برعکس اس ریاست کو فلاحی بنانے کی بجائے سیکورٹی ریاست بنا کے رکھ دیا ہے،تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود اپنی قومی ضروریات پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے سرنگوں ہو نا پڑتا ہے،دفاع پر بھاری بھر کم سرمایہ لگانے کے باوجود ہمارا کور ایشو ” کشمیر“ ابھی تک حل طلب ہے،دوسری طرف ہر شہری معاشی پریشانی سے دو چار ہے جبکہ اشرافیہ اپنے بڑھتے ہوئے بینک بیلنس پر شاد ہے،عصر حاضر کے مطابق نہ تو جیو اسٹریٹجک ہمارا دکھوں کامداوا کر سکا نہ ہی جیو اکنامک سے کوئی بڑی توقع وابستہ کی جاسکتی ہے،فلاحی اور سیکورٹی ریاست کا حصول نہ خد اہی ملا نہ وصال صنم والا معاملہ قوم کو روز اول سے درپیش ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :