لیڈر شپ

ہفتہ 4 جولائی 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

آن لائن کلاسز کی بدولت آج کل گھر ہی بچوں کا کلاس روم بنا ہوا ہے۔ میرا بیٹا ارمغان جوکہ تیسری جماعت کا طالب علم ہے دو روز قبل معاشرتی علوم (سوشل اسٹڈیز) کی آن لائن کلاس لے رہا تھا ، ارمغان کی ٹیچر جس موضوع پر لیکچر دے رہی تھی وہ موضوع تھا"لیڈرشپ"۔ میں خاموشی سے بیٹھاارمغان کی پرفارمنس کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ کلاس ختم ہوئی ،اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ارمغان صاحب نے سوال کر ڈالا:
پاپا جی”اتنی ساری خوبیاں کیا کسی میں نہیں ہوتیں“ یہ کہتے ہوئے انھوں نے میرے سامنے اپنی کتاب رکھ دی جس میں چارٹ بنا ہوا تھا ،درمیان میں لیڈر شپ کا لفظ لکھا ہوا تھا اور سب خوبیاں اس کے ارد گرد دائرے میں بیان کی گئی تھیں۔


میں نے ارمغان صاحب کو جواب دیا کیوں کیا ہوا؟ تو انھوں نے میری توجہ کتاب میں موجود چارٹ کی جانب مبذول کروائی کہ یہ دیکھیں ،اس چارٹ کے اوپر صرف ” علامہ اقبال“ اور ”قائداعظم محمد علی جناح“ کی تصاویر ہیں اور کسی کی نہیں۔

(جاری ہے)

اس کا مطلب ہے کہ ان میں یہ خوبیاں تھیں باقی کسی میں نہیں۔
میں نے پھرسوال کیا آپ نے کیوں پوچھا؟ تو جواب آیا کہ کوئی کسی کا لیڈر ہے کوئی کسی کا ،پاکستان کا کوئی لیڈرنہیں ورنہ اس کی تصویر بھی یہاں ہوتی۔

یہ دو لوگ ہی لیڈر شپ والے پیج پر کیوں ہیں ان کے پاکستان بنانے کے بعد کوئی اور لیڈر نہیں آیا؟ارمغان کے سوال نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں کتاب پر بنے اس چارٹ کو دیکھتے ہوئے سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر کیوں اس کسوٹی پر کوئی بھی ابھی تک پورا نہیں اتر پایا اسی سوچ کے دوران مجھے پاکستان تحریک انصاف کے ” علی محمد خان“کا ٹوئٹر پر دیا گیا پیغام یاد آگیا،
 اگر خان صاحب نہیں ہیں تو جمہوریت بھی نہیں ہے۔

ساتھ ہی مجھے اپنے وہ تمام دانشور یاد آ گئے جو کہ 124 دنوں کے دھرنوں سے شروع ہوئے اور کچھ عرصہ پہلے تک یہی گردان لگاتے رہے کہ عمران خان ہی بس آخری امید ہیں ان کے علاوہ باقی سب اندھیرا ہے۔
یہ بیانا ت ظلم کے بیانات ہیں اور قدرت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ قدرت کبھی خلا نہیں رکھتی اور قدرت کو چلینج کیے جا رہے ہیں کہ عمران خان کے بعد یا بغیر کچھ نہیں۔

ظلم کی انتہا تو دیکھیں کہ یہ دانشور عمران خان صاحب کی حمایت اور ان کو درست ثابت کرنے کے چکر میں اب یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ یہ پارلیمانی نظام جمہوریت درست نہیں ،ملک میں صدارتی نظام ہونا چاہیے۔ جناب دست بستہ عرض ہے کہ خرابی کسی اور جگہ نہیں معذرت کے ساتھ آپ کی سوچ اور آپ کے بنائے ہوئے عمران خان کے بت میں ہے۔
میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اس کی کچھ وجوہات ہیں۔

کچھ روز پہلے عمران خان صاحب نے اسمبلی میں بجٹ پاس ہونے سے پہلے تقریر کی جسے بلاول بھٹو زرداری اور خواجہ آصف نے کسی اور کے لیے قرار دیا۔ پھر بجٹ پاس ہونے کے بعد کی تقریر جس میں خان صاحب نے کرسی آنی چانی چیز ہے کا ذکر کیا۔ دوسرا انھوں نے کہا کہ نظریہ اہم ہوتا ہے۔ پھر انھوں نے مائنس ون کا ذکر کیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ میں اگر ہٹ بھی گیا تو جو بھی آنے والا ہے وہ آپ یعنی نواز شریف اور آصف علی زرداری کو نہیں چھوڑے گا۔

دونوں تقریروں کے درمیان وزیراعظم نے عشائیہ بھی رکھا اور چودہ لوگوں سے ون آن ون ملاقاتیں بھی کیں۔ جن میں نو لوگوں کا تعلق پی ٹی آئی سے اور پانچ لوگوں کا تعلق اتحادیوں سے تھا۔خان صاحب کے یہ رنگ ڈھنگ نئے تھے کیونکہ یہ خان صاحب کا طرز سیاست نہیں ہے۔ آج تک ان کی جگہ یہ سب کام کچھ طاقتیں کرتی رہی ہیں۔ ان چند دنوں میں ہونے والے واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان طاقتوں نے پیغام دے دیا ہے کہ دو سال اس دشت پر ہم نے آپ کو انگلی پکڑ کر چلایا ہے اب آپ لوگ اپنا بوجھ خود اٹھائیں،اب آپ کو آگے کا سفر خود طے کرنا ہے۔


خان صاحب کے ساتھ اچانک ایسا ہونا اور اس پر اپوزیشن کے تند و تیز جملے ،خان صاحب اور ان کے چاہنے والے سٹپٹا گئے اور بوکھلاہٹ میں بجٹ کے بعد والی تقریر کر ڈالی جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ذرا سوچیں ،وزیراعظم عمران خان خود کو ایک بڑا لیڈر سمجھتے ہیں ، کیابڑا لیڈر ، ملک کا وزیراعظم خواجہ آصف کی باتوں کا جواب دیتا اچھا لگتا ہے، وہ بھی ان کی غیر موجودگی میں ،سونے پہ سہاگہ کہ ملک کا وزیراعظم پارلیمنٹ میں سٹیج اداکاروں کی طرح بلاول بھٹو زرداری کی نقلیں اتار رہا ہے اور داد وصول کر رہا ہے۔

میں اپنے ان دانشوروں سے سوال پوچھتا کہ کیا یہ ہے ملک کے لئے ان کی آخری امید؟ اگر انہوں نے بلاول کی نقل اتارنی ہے تو ان کی فہم و فراست کی اتاریں جنہوں نے مراد سعیدیا آپ کی پارٹی میں سے باقی کسی کی باتوں کا کبھی جواب تک نہیں دیا ،وہ جب بھی ہدف تنقید بناتے ہیں وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھی شخصیت کوبناتے ہیں باقی کسی سے انھیں کوئی غرض نہیں۔


میری اطلاعات کے مطابق تو عمران خان صاحب کو پیغام دیدیا گیا ہے کہ جناب اب خود پاوٴں پاوٴں چلنا شروع کریں۔ شاید اسی لئے اس بجٹ کے پاس ہونے کے فوراً بعد خان صاحب نے اپنی پارٹی میں ایک فرمان جاری کیا کہ جناب اب سے جس وزیر یاپارٹی ممبر پر کوئی الزام ہو گا وہ خود میڈیا میں اس کا دفاع کرے گا اور اپنی صفائی پیش کرے گا۔اس غرض سے وزیراعظم ہاوٴس میں ایک مانیٹرنگ کا نظام بنایا جا رہا ہے جس کو ایڈیشنل سیکرٹری ہیڈ کریں گے۔

جب بھی کسی وزیر یا ممبر پر الزام آ ئے گا فوراعمران خان صاحب کوآگاہ کیا جائے گا،پھر موصوف کو صفائی دینے کے لئے میڈیا پر بھیجا جائے گا اور ساتھ اس کا حل نکالا جائے گا ، جیسے (شہزاد سید قاسم) کو عمر ایوب کی وزارت میں ایڈوائزر لگادیا گیا ، اس تعیناتی سے پچھلی رات کامران خان صاحب کے پروگرام میں عمر ایوب کی کافی درگت بنائی گی۔ کہنے کو تویہ طریقہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے مگر حکومتی سربراہ ہونے کے ناطے عمران خان صاحب کسی چیز کے ذمہ دار کیوں نہیں ہیں۔


اس بات کی کھوج میں گیا تو معلوم ہوا کہ جنا ب وزیراعظم ہر وقت اپنے فون پر سوشل میڈیا ہی واچ کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور اپنا اولین فرض یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو ان کےWhatsAppپر یا سوشل میڈیا پر کوئی چیز پتہ چلتی ہے تو وہ بغیر تحقیق کے اس کا جواب دینے کے لیے مختلف لوگوں کو بھیجی جاتی ہے۔ شیخ رشید صاحب تو اس کی بابت خان صاحب کو جواب بھی دے چکے ہیں کہ جناب اس طرح ہم کس کس بات کا جواب دیں گے اور کیا ہم اسی بات کا جواب دیتے رہیں کام نہ کریں۔

خیر اس معاملے میں جناب شہباز گل صاحب اور فیصل واوڈا صاحب بہت پیش پیش ہیں۔ حال ہی میں فیصل واوڈا نے ندیم ملک کے پروگرام میں بدتمیزی کی اور Chopکرنے کے لفظ کو بہت ڈھٹائی سے استعمال کیا۔ فیصل واوڈا یہ سب کچھ عمران خان کی اجازت سے کہ رہے ہیں بشمول ابھی جو وہ صحافی حضرات کے ساتھ ماتھا لگائے بیٹھے ہیں۔ میں فیصل واوڈا صاحب کی خدمت میں گزارش کرنا چاہتا ہوں جناب اس دشت کی سیاہی میں آپ جیسے تو نہ جانے کتنے گم ہو چکے ہیں اس کی گنتی تو سیاسی تاریخ نے رکھی ہی نہیں اور جنا ب سیاسی چاپر خان صاحب جیسے کئی لوگوں کو چاپ کر چکا ہے۔

اس لیے بڑے بول نہیں بولا کرتے۔ کیونکہ پھر حساب دینا مشکل ہو جاتا ہے۔
 خان صاحب کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ ہے کہ وہ اپنے سے بہتر اور اپنے سے آگے کسی کو نہیں دیکھتے اوپر سے یہ چاہتے ہیں کہ ہر وزیر، مشیرایڈوائز پاکستان تحریک انصاف کا رکن عوام کے سامنے اپنا حساب خود دے اور ان پر کوئی ذمہ داری نہ آئے تو خان صاحب ان کے کام میں اپنی ٹانگ بھی نہ اڑائیں۔

اگر بے ادبی نہ ہو تو جناب جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ صاحب جو کہ مشیر ہیں اطلاعات کے وہ کیبنٹ میٹنگ میں عمران خان کو کچھ عرصہ سے مشورے دے رہے ہیں کہ آپ کی میڈیا سے ڈیل کرنے کا طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ حکومت جو کام کر رہی ہے اس کی تشہیر کرے۔ جس پہ عمران خان صاحب کی طرف سے جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ صاحب کو یہ جواب دیا گیا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ انھیں (میڈیا) کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔

جب آپ خود بھی کچھ نہ کریں اور کرنے بھی نہ دیں تو آپ کی غلطیوں کا جواب آپ کے وزیر، مشیر پارٹی کے ارکان اور دوسرے لوگ کیونکر دیں۔ پھر جواب بھی آپ ہی کو دینا ہے۔ کیونکہ یہ بھی لیڈر شپ کی صلاحیتوں میں سے ایک ہے کہ وہ سامنا کرنے سے گھبراتے نہیں ہیں۔ مگر آپ تو کسی کا بھی سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
ابھی مالی سال کے اختتام پر ”ایف بی آر“ نے بڑے جوش و خروش سے تمام میڈیا کو خبر ارسال کی جس میں انھوں نے 2019-2020 میں اپنا ٹارگٹ حاصل کرلیا ہے۔

مگر جناب ”ایف بی آر“ نے ریونیو کی بات کی تو جناب اس کی ٹارگٹ تین سے چار مرتبہ تبدیلی ہو چکی ہے۔جناب آپ اس سے پچھلے سال اپنا ٹارگٹ پورا نہیں کر سکے تو اس سال کا پچھلے مالی سال سے تقابل بنتا ہی نہیں، اپنے ایک عام پڑھنے والے کے لیٴے مالی سال 2019- 2020 میں پہلے یہ ٹارگٹ 5500 ارب سے کچھ زیادہ رکھا گیا۔ پھر اس میں کمی کر کے 4900 ارب کیا گیا۔ پھر معلوم ہوا کہ نہ ہو پائے گا تو اس کو 4400 ارب کر دیا گیا۔

پھر کرونا کے بعد یہ ٹارگٹ 3900 ارب کر دیا۔ یاد رہے یہ سب کرونا سے پہلے ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ مئی 2018 میں جو ٹارگٹ حصال کر لیا تھا وہ 3712 ارب ڈالر تھا۔ تو جناب آپ نے دو سال کے بعد اگر 4123 ارب حاصل کر لیا ہے تو یہاں تک تو درست ہے کہ آپ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ چار ہزار ارب کا عددی ہندسہ عبور کیا ہے مگر اگرمئی 2018 سے اسے تقابل کیا جائے تو اس میں دوسال میں صرف 411 ارب کا اضافہ ہوا ہے۔

اور اس میں بھی 130 ارب ایڈوانس ٹیکس ہے جو ہ اس مالی سال میں آپ نے ایڈجسٹ کرنا ہے۔
اب اگر ہم 411 ارب میں سے 130 ارب روپے منفی کریں تو باقی بچتے ہیں 281 ارب روپے جو کہ آپ نے دو سال میں بڑھائے ہیں اور وہ بھی میرے جیسے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس مزید بڑھا کر۔ یوٹیلٹی بلز میں ٹیکس بڑھا کر، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی 30 روپے کر کے۔ اپنے پڑھنے والوں کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایف بی آر کی پریس ریلیز میں مالی سال 2019-2020 کا ریونیو کا لفظ شامل ہے جس کا مطلب ہے اس میں ٹیکس، ڈیوٹی (جو کہ ایف بی آر کے ذمہ ہیں) کے ساتھ ساتھ وہ پیسہ بھی شامل ہے جو کہ سرکاری املاک، زمینوں کو کرایہ پر دینے سے حاصل ہوتا ہے۔

یا کوئی سرکاری اثاثہ جاب بیچنے سے خزانے میں آتا ہے۔ اس میں صرف ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں آنے والے پیسے شامل نہیں ہیں۔
 تو جناب عمران خان صاحب آپ کی لیڈر شپ کے پیچھے بھی وہی اعداد کا گورکھ دھندا ہو رہا ہے۔ تو آپ کی لیڈر شپ کیسے انوکھی ہے۔( آپ نے تو مینارِ پاکستان پر 8000ارب روپے ٹیکس اکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا تھا اس کا کیا ہوا) اور اگر نواز شریف اور زرداری جواب دہ ہیں تو پھر اپ بھی جوابدہ ہیں۔

ایک اور بات عرض کرتا چلوں مجھے ڈر ہے کہ اکتوبر میں منی بجٹ آے گا اور اس میں تنخواہ دار طبقے پر اور ٹیکس لگے گا کیوں کہ آپ ٹیکس نیٹ اس سال بھی بڑھا نہیں پائیں گے ۔تو جنابِ عمران خان صاحب نہ آپ کو کوئی مائنس کرنا چاہتا ہے نہ آپ کی کرسی کو کوئی خطرہ ہے ، خاص کر اپوزیشن سے تو بلکل نہیں۔صرف میرے بیٹے کی تیسری کلاس کی معاشرتی علوم کی کتاب میں سے لیڈر شپ کی qualities پڑھ لیں اور اس پر عمل کر لیں۔ آپ کو اپنے اندر لیڈر شپ کی خوبیاں پیدا کرنی پڑیں گی۔ ورنہ آپ کب تک قربانیاں دیں گے آخر کو لوگ ختم ہو ہی جائیں گے اور سائیں بھی ہاتھ مکمل اٹھا لیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :