مائنس بزدار مگر کیوں اور کیسے؟

ہفتہ 18 جولائی 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

کوئی تو کمی ہے جو پائی جا رہی ہے
مٹا مٹا کے دنیا بنائی جا رہی ہے
سوشل میڈیا اور صحافتی حلقوں میں ایک بار پھر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تبدیلی کی خبریں سر گرم ہیں کچھ نومولود صحافی اس بات پر مصر ہیں کہ تخت پنجاب پر تبدیلی کے بادل نہیں منڈلا رہے جبکہ کچھ سینئر صحافیوں کے مطابق تبدیلی کے بادل برسنے والے ہیں۔

سہیل وڑائچ اور چوہدری غلام حسین کا شمار بھی انہی سینئر صحافیوں کی فہرست میں ہوتا ہے اور ماضی میں دونوں حضرات کی بہت سی پیشن گوئیاں درست ثابت ہوچکی ہیں خاص طور پر چوہدری غلام حسین کے بارے میں تو عوام کا ایک تاثر ہے کہ چوہدری صاحب موجودہ حکومت کی جانب نرم گوشہ رکھتے ہیں، اور چوہدری صاحب ہی وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے کلثوم نواز کا نام لیا تھا نواز شریف کی جگہ الیکشن لڑنے کا جبکہ خواجہ سعد رفیق کی اپنی پارٹی قیادت سے ناراضگی کی خبر بھی انہوں نے ہی دی تھی کیونکہ خواجہ صاحب پنجاب کی سیٹ جیتنے کے بعد سینیٴر ہوتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے، مگر شہباز شریف نے ان سے کہاکہ آپ پر
اتفاق رائے نہیں ہو سکا پارٹی حمزہ شہباز کو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر دیکھنا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)


مگر سوال یہ ہے آئے دن عثمان بزدار کی تبدیلی کے حق اور مخالفت میں دلائل کیوں دئیے جاتے ہیں؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کے عادی ہو چکے ہیں،ہمارے میڈیا پر خبر جتنی برق رفتاری سے چلتی ہے اتنی ہی برق رفتاری سے غائب بھی ہو جاتی ہے جبکہ معمولات زندگی اورمعاملات حکومت اس سے بہت مختلف ہیں۔ ہم سب یہ گماں کرتے ہیں کہ جو پیشن گوئی یا خبر ہم نے سنی وہ اگلے ہی لمحے وقوع پذیر ہوجائے گی مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتاتو ہم اس خبر کو جھوٹا سمجھتے ہیں ۔

اپریل2019 میں جب اسد عمر کو وزارت سے ہٹایا گیا تو جنوری 2019 میں یہ خبراخبار میں چھپی تھی کہ اسد عمر کی تبدیلی قریب ہے اور ان کی جگہ پر کون ہونا چاہیے کے معاملے پر وزیراعظم نے ملاقاتیں شروع کر دیں ہیں اور پہلی ملاقات رضاباقر سے ہویٴ ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جنوری 2019کی خبر تھی جبکہ عملی اقدام اپریل2019 میں ہوا۔ اسی طرح جب خان صاحب کی ریحام خان سے طلاق ہوئی تو اس سے تین سے چار روز پہلے مرحوم نعیم الحق صاحب نے ایسی باتوں کو بے بنیاد قرار دیا مگر تین چار روز بعد نعیم الحق صاحب ہی وہ شخص تھے جو دونوں کی طلاق کی خبردے رہے تھے۔


اب سے پہلے جب بھی عثمان بزدار صاحب کی تبدیلی کے حوالے سے بات ہوئی تو عمران خان صاحب خود میدان میں آئے اور ان باتوں کی تردید کی ۔ مگر اس مرتبہ یہ فریضہ جناب شبلی فراز صاحب نے ادا کیا کیوں ؟
فرض کریں اگر مائنس بزدار ہو بھی جائے تو وجہ کیا ہوگی اور پارٹی میں ان کا متبادل کون ہے؟ خیر بظاہر تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی لیکن اگر عوام میں چلے جائیں تو عوام کو بزدار صاحب کو لانے والے اور ان کے اوپر مقتدرحلقوں پر شدید غم و غصہ ہے کیونکہ ان کے خیال میں بزدار صاحب کچھ نہ کر کے بھی اس جگہ پر متمکن ہیں تو طاقتور حلقوں کی اشیرباد سے۔

عوام بزدار صاحب کا موازنہ پرویز الٰہی، شہباز شریف، میاں منظور وٹو، غلام حیدر وائیں مرحوم اور تو اور لوگ جناب عارف نکئی مرحوم کو ان سے بہتر گردانتے ہیں۔دو سال گزر چکے ہیں اور اب پرفارم کرنے کی ڈیمانڈ بڑھتی جا رہی ہے لیکن یہ بھی تو سوچنے کی بات ہے کہ جو شخص دو سال میں پرفارم نہیں کر سکا وہ اب کیسے کرے گا؟ ظاہر ہے یہ بات خان صاحب نے ہی سوچنی ہے۔


 اگر میری رائے پوچھیں تو جناب چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیں وہ ایک سینئر سیاست دان ہیں اور اس صوبے کو چلانے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ مگر یہاں بات میری نہیں ہے عمران خان صاحب کی ہے۔خان صاحب کی خواہش تو یہی ہو گی کہ کوئی پڑھا لکھا ہو اس کا امیج اور تصور ایسا ہو کہ یہ کام کرے گا ، میڈیا پر نمائش کم ہواورلوگ اس کے بارے میں کم بات کرتے ہوں اور سب سے بڑھ کے جو فیصلے لینے میں بنی گالہ کی جانب دیکھتا ہو۔

یہ سب خوبیا ں تو بزدار صاحب میں بھی ہیں مگر کمی صرف عوامی تصور اور امیج کی ہے جو یہ بن چکا ہے کہ بزدار صاحب کچھ نہیں کر سکتے ان کے کنٹرول میں کچھ نہیں ہے، یہ کسی بحران سے نہیں نمٹ سکتے۔ سیاست میں آپ کا بہت بڑا ساتھی آپ کا امیج ہوتا ہے جو کہ بزدار صاحب کا خراب ہو چکا ہے۔لیکن اگر بزدار صاحب نہیں تو کون ؟
 اگر ہم پاکستان تحریک انصاف کے اندر سے ہی بات کریں تو لوگوں کی نظر میں سب سے پہلا نام جو آئے گا وہ ہے علیم خان۔

مگر علیم خان صاحب کی اپنی وزارت میں گندم کا بحران جوں کا توں ہے۔علیم خان گندم کی ترسیل کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے اور ان کی فیصلہ سازی کا یہ عالم ہے کہ اس سال گندم کی پیداوار میں فیصلہ کیا گیا کہ سرکار پچھلے سال کی نسبت دوگنا گندم اٹھائے گی اورحکم جاری کیا گیا کہ کویٴ شخص چاہے کسان، پچیس من سے زیادہ گندم اسٹور نہیں کرے گا۔ اور تو اور ان کے اس فیصلے نے سیدھے سادے کسان کو بھی دو نمبری کرنے پر مجبور کر دیااور اس نے مختلف طریقے سے گندم زیادہ سٹور کر لی۔

دوسری فیصلے کی غلطی سرکار نے گندم 1450 روپے فی من کے حساب سے خریدی جس میں 150 روپے انشورنس ڈالی جائے تو قیمت 1600 روپے فی من ہو گئی۔ اب سرکاری ادارہ 1650 روپے فی من کے حساب سے فلور مل اور چکی والوں کو گندم دے رہا ہے ،جو کہ مزے کی بات ہے مل بھی نہیں رہی۔ کیونکہ جب پنجاب کی گندم کٹ کر سرکار کے گوداموں تک آتی ہے تو جولائی کا وسط آ جاتا ہے پھر اس کے بعد اس کا تخمینہ اور حساب کتاب لگایا جاتا ہے جس میں ہنگامی حالات کے لئے کوٹہ وغیرہ کا حساب لگایا جاتا ہے، جب تک یہ حساب کتاب نہیں لگتا سرکاری طور پر گندم کی سپلائی شروع نہیں ہوتی،اس سب میں پندرہ دن خرچ ہو جاتے ہیں۔

جب گندم کی سپلائی شروع نہیں ہوتی تو فلور مل اور چکی مالکان عام مارکیٹ سے گندم لیتے ہیں۔ جو انھیں من مانے ریٹ پر بیچی جاتی ہے۔ پنجاب کے دیہی علاقوں سے گندم اس وقت 1800 روپے فی من مل رہی ہے۔ اس پر پراسسنگ کا خرچ ڈال کر جس میں مل کا خرچ کام کرنے والوں کی تنخواہیں، بجلی کے بل، ٹیکس ڈال کر آٹا ایک عام بندے کو 2600 روپے فی من ہی ملے گا۔ میرے دوست کہیں گے جناب پہلے بھی تو گندم پڑی ہوتی ہے پچھلے سال کی۔

بالکل درست جناب ہوتی ہے یہی تیسرا فیصلہ ہے (جو علیم خان صاحب سے پہلے ہوا تھا) کہ جناب جو آٹا بحران آیا تھا نئی گندم آنے سے پہلے اس وجہ سے جو ذخیرہ موجود تھا اس کی سپلایٴ کو بھی پابندی کی نظر کر دیا گیا۔ ہمارے علیم خان صاحب کا کام تھا کہ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گندم اور آٹے کا بحران نہیں ہونا چاہیے تو اسے قابو کرنا علیم خان صاحب پر فرض تھا۔

انھوں نے اس بحران کو قابو کرنے کی بجائے یہ بتانا شروع کر دیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ جناب وہ تو ہم سب کو ہی معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے آپ کو وزیر بنایا تھا کہ آپ اسے حل کریں اور آٹے اور گندم کا بحران نہ پیدا ہونے دیں مگر آپ ناکام رہے۔ اب جو اپنی وزارت نہ چلا سکے اور کرے بھی اپنی من کی اسے وزارت اعلیٰ کا تاج کیسے پہنایا جا ئے گا۔ میں نے اپنے تحریک انصاف کے دوستوں سے پوچھا کہ بھائی کوئی اور نام تو سب خاموش تھے۔

ویسے سبطین صاحب بھی خان صاحب سے مل کر آئے ہیں۔ میاں اسلم صاحب کا نام بھی لیا جا رہا ہے جو کہ ایک اچھے امیدوار ہیں اور ان کی برادری یعنی آرائیں برادری کے ووٹ بھی ہیں، ڈیرے دار بھی ہیں، ایک بڑا میڈیا گروپ اُن کی پشت پہ ہے جس کی وجہ سے تانے بانے مسلم لیگ (ن) تک پہنچ جاتے ہیں، دوسرا ان کی حالیہ سیٹ پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ کی وجہ سے نہیں ۔

کیا عمران خان کو ایسا بندہ قبول ہوگا تھوڑی دیر کے لیے عمران خان آج کا عمران خان بن کر سوچیں، ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ اگر اوہ پنجاب کو خود گورن نہ کرنا چاہیں۔ویسے تو گورنر صاحب کو بھی بلایا گیا کیونکہ ان کے ساتھ آرائیں برادری کے ووٹ ہیں اب شاید وہ میاں اسلم صاحب کو سپورٹکرنے کے لیٴے ہیں یا کسی اور کے لیٴے۔ویسے اس سب سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ خان صاحب پنجاب کی سیاست سے واقف نہیں۔


ان ملاقاتوں میں دو اور ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں محسن لغاری کی ملاقات ہے جو کہ فواد چوہدری صاحب نے کروائی ہے اور فواد چوہدری اپنے قریبی حلقوں میں اس ہلچل کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ ایک اور ملاقات ہے بلکہ ایک ہی شخص کی دو ملاقاتیں وزیراعظم صاحب سے ہوئی ہیں ۔ پہلی بنی گالہ میں خفیہ طور پر اور دو دن بعد دوسری ملاقات اعلانیہ طور پر ہوئی ہے اور وہ شخصیت ہیں مراد راس ۔

ان سے خفیہ اور اعلانیہ دونوں ملاقاتوں کی وجوہات کچھ جم نہیں رہیں۔ جو ان ہیں، پڑھے لکھے ہیں اور میڈیا پر کم آتے ہیں۔ عوام میں اچھا یا برا کوئی امیج نہیں۔ یہ قابلیت کافی ہے۔ اسی طرح کا کوئی Black horse ہو گا جس کا کسی کو تصور نہ ہو۔ کیونکہ تختِ پنجاب کے لیٴے بندہ مقتدر حلقوں نے نہیں خان صاحب نے چننا ہے۔
اچھا یہ ہو گا کب؟ جناب بندہ خان صاحب چنیں گے اور اس کے لیے گارنٹی مقتدر حلقوں سے لیں گے کہ مسلم لیگ ق کا ووٹ بھی ان کے نامزد کردہ بندے کو ملے گا پھر یہ گارنٹی لی جائے گی کہ اپوزیشن کچھ نہیں کرے گی۔

اور اگر اپوزیشن حمزہ شہباز کو اپنی جانب سے امیدوار نامزد کرتی ہے تو اس کا مطلب اپوزیشن مقابلہ کرنے کے موڈ میں ہے۔ اور اگر رانا مشہود یا خواجہ سلمان رفیق کا نام بطور امیدوار دیا جاتا ہے تو میچ فکس ہے۔ ویسے عمران خان صاحب کے پاس پنجاب اسمبلی میں(سادہ اکثریت) 181 اپنے لوگ ہیں مگر بات پھر وہی ہے امیج کی، تصور کی جو کہ دو سال قبل حکومت کااور تھا، اب اور ہے۔

اس تصور کو برقرار رکھنے کے لیے مقتدر حلقوں سے ضمانت لی جائے گی، پھر یہ تبدیلی ہو گی۔ تاکہ perception برقرار رہے۔ اور اگر دوست دیا میر بھاشا ڈیم کے دورہ پر لی گئی ویڈیو اور تصویر کے حوالے سے یہ گمان کرتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو گیا ہے تو جناب دیامیر بھاشا ڈیم پاکستان کا پراجیکٹ ہے کسی ایک پارٹی کا نہیں۔ مشرف نے شروع کیا، پیپلزپارٹی کی حکومت نے زمین کے تنازعات ختم کیے،مسلم لیگ ن نے زمین خریدی پیسے دیے، نگران حکومت میں ٹھیکہ دیا گیا۔

اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں کام شروع ہوا۔ تو یہ Pictorial امیج اور میسج ملک کے اندر والوں کے لیے نہیں ملک سے باہر دو ایٹمی قوتوں کے لیے تھا۔
تو باتیں جتنی سیدھی اور سادی نظر آتی ہیں اتنی ہوتی نہیں۔ جیسے بظاہر بزدار صاحب کہیں نہیں جا رہے مگر ایک پارٹی کی پوری حکومت perception پر تین صوبوں سے فارغ ہو چکی ہے۔ تو بزدار صاحب کیوں نہیں؟ اور آخری بات یہ وقت اس وقت اور نزدیک آ جائے گا جب عمران خان صاحب کو اور ان کی حکومت کو اپنی perception اور کسی طاقتور کو اپنے فیصلے کی درستگی کے لیے قربانی چاہیے ہو گی اور وہ قربانی ہوگی وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی۔ باقی اوپر والا جانے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :