آخر کب تک؟؟

بدھ 26 مئی 2021

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

یوں تو پاکستان کو مدینہ کی ریاست کہا جانے لگا ہے لیکن حال ہی میں اس مدینہ جیسی ریاست میں زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان تمام واقعات سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلتا جا رہا ہے۔ کتنے ہی ننھے پھول اس ہوس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ کچھ سال پہلے پھول جیسی بچی زینب کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور بے دردی کے ساتھ اسے قتل کر دیا گیا اس پورے واقعے نے پاکستان کے ایک ایک فرد کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔

بہت زیادہ کوششوں کے بعد زینب کے قاتل کو سزائے موت دے دی گئی۔ اس واقعے کے بعد ایسا لگا جیسے یہ آخری واقعہ ہو گا اور ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں خود کو محفوظ تصور کریں گی۔ لیکن حال ہی میں ہونے والے زیادتی کی اس واقعے نے ایک بار پھر ہم لوگوں کی روح تک کو شرمندہ کر دیا۔

(جاری ہے)

کراچی میں پانچ سالہ بچی مروہ کو زیادتی کے بعد اس کی لاش کو جلا دیا گیا ابھی قوم اس واقعے کو بھول بھی نہ پائی تھی کہ موٹروے پر خاتون کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی خبر آگ کی طرح پورے سوشل میڈیا اور ہمارے تمام ٹی وی چینلز پر پھیل گئی۔

اس واقعے کی سب سے درد ناک بات یہ ہے کہ اس خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس تحریرکو لکھتے ہوئے آج میرے الفاظ بھی مجھ سے نظریں چرا رہے ہیں۔ فرانس سے تعلق رکھنے والی خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ موٹر وے کے راستے سے گجرانوالہ جا رہی تھی کہ اچانک اس کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہو گیا۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا تھا اتنے میں نامعلوم افراد نے آ کر گاڑی کے شیشے توڑ کر عورت اور بچوں کو باہر نکالا اور ان پر تشدد بھی کیا اور اس اکیلی عورت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ زیادتی کر ڈالی اور اس سے تمام چیز یں لوٹ کر فرار ہو گئے۔

نا جانے ان مجرموں کو زمین کھا گئی یا آسمان  نگل گیا نہ کسی نے آتے ہوئے دیکھا نہ جاتے ہوئے۔ لیکن دل کو دہلا دینے والا یہ واقعہ ہماری حکومت اور اداروں پر کئی سوالات کو جنم دے گیا۔
 کہا جاتا ہے کہ موٹر وے سے آنے جانے کا راستہ محفوظ راستہ ہے پھر یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟؟ وہاں کوئی سیکیورٹی موجود کیوں نہیں تھی؟؟ جب اس بےچاری خاتون نے تھانے فون کر کے مدد مانگی تو کیوں کہا گیا کہ یہ علاقہ ہماری بیٹ میں  شامل نہیں؟؟ سی سی پی او کے  بیان کے بعد تو جیسے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی جب میڈیا سے  گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ کہا کہ خاتون کو اتنی رات گئے بچوں کے ساتھ اکیلے سفر نہیں کرنا چاہیے تھا یا پھر پیٹرول پر ایک نظر ڈال دی ہوتی تا کہ پیٹرول ختم نہ ہوتا اور نہ یہ افسوسناک واقعہ پیش آتا۔

اس بیان کو سننے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے سی سی پی او کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کئی سوالوں کا رخ ان کی طرف موڑ دیا۔ اور حکومت سے سی سی پی او کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا۔ جب آپ لوگ اس قوم کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں تو میرے خیال سے ہمیں خود اپنی حفاظت کرنا ہو گی۔ ہمیں خود ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔


میں اپنی حکومت اور ہماری حفاظت کا فریضہ سرانجام دینےوالے پولیس سے یہ سوال پوچھتی ہوں کہ آخر کب تک اس ملک کی بیٹیاں مائیں بہنیں لٹتی رہیں گی؟ آخر کب اس گھناؤنے کھیل کو اس کے انجام تک پہنچایا جائے گا؟؟
آج اس افسوس ناک واقعے کے بعد میں امید کرتی ہوں کہ یہ آخری واقعہ ہو گا۔ ہمیں اس وقت اس قوم کی بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

جو بھی مجرم اس اس طرح کے واقعات میں ملوث ہیں انہیں سرے عام سزائےموت کا حکم دیا جائے ایسا قانون بنایا جائے جس میں زیادتی کرنے والے شخص کو ایسی سزا کا حکم دیا جائے جسے لوگوں کے لئے عبرت کا نشان بنایا جائے۔ جب اس ریاست  کو مدینہ کی ریاست کہا جاتا ہے تو پھر مجرموں کومدینہ کی ریاست جیسی سزا کا حکم کب سنایا جائے گا؟؟ ہمارا قانون طاقت ور ہونے کے بجائے مزید کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ جلد از جلد اس واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی اور اس گھناؤنے کاروبار میں شامل تمام افراد کے لیے عبرت کا نشان بنائی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :