اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کا پیج

اتوار 4 جولائی 2021

Mian Habib

میاں حبیب

اس وقت میڈیا پر قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس کی بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان کی عدم شرکت اور اپوزیشن راہنماوں سے ملاقاتیں سب سے زیادہ زیر بحث ہیں اور جس مقصد کے لیے یہ اجلاس بلایا گیا تھا اس پر سب سے کم بات ہو رہی ہے حالانکہ صحافیوں کو چاہیے تھا کہ وہ شرکاء سے کھوج لگانے کی کوشش کرتے کہ کن نکات پر کیا گفتگو ہوئی پاکستان کا نئے پیدا شدہ حالات میں نئی پالیسی کیا ہو گی پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے نئی پالیسی سے اتفاق کیا ہے کسی نے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے یا سب نے اس سے اتفاق کیا ہے لیکن سارے کا سارا میڈیا وزیر اطلاعات کے اس بیان کہ وزیراعظم اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی خواہش کہ اگر وہ آئے تو ہم نہیں آئیں گے کی وجہ سے نہیں گئے وزیر اطلاعات بعض اوقات اپوزیشن سے چھیڑ خانی بھی کرتے ہیں اور بعض اوقات اپوزیشن کو ڈی ٹریک کرنے کے لیے ان کی توجہ اصل معاملات سے ہٹا کر کسی دوسری طرف لگانے کے لیے کوئی ایسی بات کر دیتے ہیں کہ اپوزیشن سمیت میڈیا بھی اسی طرف دوڑ پڑتا ہے فواد چوہدری میں یہ فن ہے کہ ایک تو وہ زیر بحث رہتے ہیں اور دوسرا وہ حالات کو اپنی مرضی سے موڑ کر اس میں سے اپنا مقصد نکال لیتے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھوں نے ان کیمرہ اجلاس کے اصل معاملات کو خفیہ رکھنے کی حکمت عملی کے پیش نظر ایک ایسا بیان دے کر ساری بحث کا رخ موڑ دیا ہو اب سارے وزیراعظم کو اجلاس میں جانا چاہیے تھا یا نہیں اور وہ کیوں نہیں گئے کو کریدنے پر لگے ہوئے ہیں فواد چوہدری زبردست میڈیا مینجر ہیں جب ان کا دل کرتا ہے وہ اپوزیشن اور میڈیا کو جی ٹی روڈ پر لے آتے ہیں جب دل کرتا ہے وہ موٹر وے پر دوڑانا شروع کر دیتے ہیں وہ لاہور اور کراچی سے اسلام آباد آنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں چوہدری صاحب کوئی نہ کوئی ایسی شدنی چھوڑتے ہیں انھیں پشاور بجھوا دیتے ہیں بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے لیکن قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں سیکیورٹی کے حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید نے اہم قومی معاملات پر اپوزیشن لیڈرز کو اعتماد میں لیا انھیں درپیش مسائل اور معاملات بارے پاکستان کی حکمت عملی سے آگاہ کیا یقینی طور پر یہ پالیسی حکومت پاکستان نے مختلف اداروں کی مشاورت سے بنائی ہو گی لیکن اس پر عملدرآمد کروانے کے لیے سیکیورٹی کے اداروں کی ذمہ داری لگائی گئی ہے اور ایک حکمت کے تحت حکومت نے براہ راست اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی بجائے بذریعہ بھٹنڈا اپوزیشن کو اعتماد میں لیا ہے اور اپوزیشن اجلاس کے بعد بڑی شاد نظر آرہی ہے اپوزیشن راہنماوں کی اس اجلاس کی اصل بریفنگ میں دلچسپی ایک طرف لیکن ان کے اطمینان اور شادمانی کی وجہ کوئی اور ہے وہ یہ کہ اپوزیشن کے تمام راہنماوں داوڑ سے لے بلاول اور شہباز شریف تک ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ آرمی چیف سے راہ ورسم بڑھائیں انھوں نے آرمی چیف سے مزید ملاقاتوں اور مزید کھانوں کی راہ ہموار کر لی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام کے تمام اپوزیشن لیڈر خوش دکھائی دے رہے ہیں ہر کوئی اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے چکروں میں ہے خوش آئیند بات یہ ہے کہ اس وقت حکومت اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ سب ایک پیج پر آچکے ہیں عین ممکن تھا کہ اگر وزیراعظم عمران خان بھی اس اجلاس میں شرکت کرتے تو ایسا کمفرٹیبل ماحول نہ بن پاتا اور بجائے اس کے کہ اپوزیشن سے قومی معاملات پر تعاون حاصل کرنے کے مزید تلخیاں پیدا ہو جاتیں کیونکہ وزیراعظم روز اول سے اپوزیشن سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں اور وہ فی الحال اس فاصلہ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں بجٹ پاس ہونے کے بعد حکومت کمفرٹیبل زون میں آگئی تھی لیکن  اب اپوزیشن کے اسٹیبلشمنٹ کے پیج پر آنے سے حکومت اور زیادہ آسودہ محسوس کر رہی ہے انھیں اب یقین ہو گیا ہے کہ اب بات بیان بازی تک محدود رہے گی پیدا شدہ حالات کی وجہ سے کسی سیاسی تحریک کی گنجائش نہیں نہ ہی کوئی احتجاج موثر ہو سکتا ہے اوپر سے نئے الیکشن میں وقت کم رہ گیا ہے سیاسی جماعتوں کے پاس ایک سال کا وقت ہے اس کے بعد تو انتخابی تیاریاں شروع ہو جائیں گی اب یہ بھی امید پیدا ہو گئی ہے کہ اپوزیشن انتخابی اصلاحات کی طرف بھی آجائےگی اور اگلے انتخابات میں اپنے خدشات دور کرنے کیلئے اپنی خواہش کے مطابق اقدامات کروانے کی کوشش کرے گی اب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی سوچ حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کی نہیں کیونکہ ایک تو ماحول نہیں بن پا رہا دوسرا تسلسل ٹوٹ چکا ہے تیسرا اپوزیشن تقسیم ہو چکی ہے اب اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں میں اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور دونوں پیا کا دل لبھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :