اس وقت میڈیا پر
قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس کی بریفنگ میں وزیراعظم عمران خان کی
عدم شرکت اور اپوزیشن راہنماوں سے ملاقاتیں سب سے زیادہ زیر بحث ہیں اور جس
مقصد کے لیے یہ اجلاس بلایا گیا تھا اس پر سب سے کم بات ہو رہی ہے حالانکہ
صحافیوں کو چاہیے تھا کہ وہ شرکاء سے کھوج لگانے کی کوشش کرتے کہ کن نکات
پر کیا گفتگو ہوئی پاکستان کا نئے پیدا شدہ حالات میں نئی پالیسی کیا ہو گی
پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے نئی پالیسی سے
اتفاق کیا ہے کسی نے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے یا سب نے اس سے اتفاق کیا
ہے لیکن سارے کا سارا میڈیا وزیر اطلاعات کے اس بیان کہ وزیراعظم اپوزیشن
لیڈر میاں شہباز شریف کی خواہش کہ اگر وہ آئے تو ہم نہیں آئیں گے کی وجہ سے
نہیں گئے وزیر اطلاعات بعض اوقات اپوزیشن سے چھیڑ خانی بھی کرتے ہیں اور
بعض اوقات اپوزیشن کو ڈی ٹریک کرنے کے لیے ان کی توجہ اصل معاملات سے ہٹا
کر کسی دوسری طرف لگانے کے لیے کوئی ایسی بات کر دیتے ہیں کہ اپوزیشن سمیت
میڈیا بھی اسی طرف دوڑ پڑتا ہے فواد چوہدری میں یہ فن ہے کہ ایک تو وہ زیر
بحث رہتے ہیں اور دوسرا وہ حالات کو اپنی مرضی سے موڑ کر اس میں سے اپنا
مقصد نکال لیتے ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھوں نے ان کیمرہ اجلاس کے اصل
معاملات کو خفیہ رکھنے کی حکمت عملی کے پیش نظر ایک ایسا بیان دے کر ساری
بحث کا رخ موڑ دیا ہو اب سارے وزیراعظم کو اجلاس میں جانا چاہیے تھا یا
نہیں اور وہ کیوں نہیں گئے کو کریدنے پر لگے ہوئے ہیں فواد چوہدری زبردست
میڈیا مینجر ہیں جب ان کا دل کرتا ہے وہ اپوزیشن اور میڈیا کو جی ٹی روڈ پر
لے آتے ہیں جب دل کرتا ہے وہ موٹر وے پر دوڑانا شروع کر دیتے ہیں وہ لاہور
اور کراچی سے اسلام آباد آنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں چوہدری صاحب کوئی نہ
کوئی ایسی شدنی چھوڑتے ہیں انھیں پشاور بجھوا دیتے ہیں بہر حال یہ ایک الگ
بحث ہے لیکن قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں سیکیورٹی کے حوالے سے
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید
نے اہم قومی معاملات پر اپوزیشن لیڈرز کو اعتماد میں لیا انھیں درپیش مسائل
اور معاملات بارے پاکستان کی حکمت عملی سے آگاہ کیا یقینی طور پر یہ
پالیسی حکومت پاکستان نے مختلف اداروں کی مشاورت سے بنائی ہو گی لیکن اس پر
عملدرآمد کروانے کے لیے سیکیورٹی کے اداروں کی ذمہ داری لگائی گئی ہے اور
ایک حکمت کے تحت حکومت نے براہ راست اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی بجائے
بذریعہ بھٹنڈا اپوزیشن کو اعتماد میں لیا ہے اور اپوزیشن اجلاس کے بعد بڑی
شاد نظر آرہی ہے اپوزیشن راہنماوں کی اس اجلاس کی اصل بریفنگ میں دلچسپی
ایک طرف لیکن ان کے اطمینان اور شادمانی کی وجہ کوئی اور ہے وہ یہ کہ
اپوزیشن کے تمام راہنماوں داوڑ سے لے بلاول اور شہباز شریف تک ہر ایک کی
خواہش تھی کہ وہ آرمی چیف سے راہ ورسم بڑھائیں انھوں نے آرمی چیف سے مزید
ملاقاتوں اور مزید کھانوں کی راہ ہموار کر لی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام کے
تمام اپوزیشن لیڈر خوش دکھائی دے رہے ہیں ہر کوئی اپنے آپ کو قابل قبول
بنانے کے چکروں میں ہے خوش آئیند بات یہ ہے کہ اس وقت حکومت اپوزیشن اور
اسٹیبلشمنٹ سب ایک پیج پر آچکے ہیں عین ممکن تھا کہ اگر وزیراعظم عمران خان
بھی اس اجلاس میں شرکت کرتے تو ایسا کمفرٹیبل ماحول نہ بن پاتا اور بجائے
اس کے کہ اپوزیشن سے قومی معاملات پر تعاون حاصل کرنے کے مزید تلخیاں پیدا
ہو جاتیں کیونکہ وزیراعظم روز اول سے اپوزیشن سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں اور
وہ فی الحال اس فاصلہ کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں بجٹ پاس ہونے کے بعد حکومت
کمفرٹیبل زون میں آگئی تھی لیکن اب اپوزیشن کے اسٹیبلشمنٹ کے پیج پر آنے
سے حکومت اور زیادہ آسودہ محسوس کر رہی ہے انھیں اب یقین ہو گیا ہے کہ اب
بات بیان بازی تک محدود رہے گی پیدا شدہ حالات کی وجہ سے کسی سیاسی تحریک
کی گنجائش نہیں نہ ہی کوئی احتجاج موثر ہو سکتا ہے اوپر سے نئے الیکشن میں
وقت کم رہ گیا ہے سیاسی جماعتوں کے پاس ایک سال کا وقت ہے اس کے بعد تو
انتخابی تیاریاں شروع ہو جائیں گی اب یہ بھی امید پیدا ہو گئی ہے کہ
اپوزیشن انتخابی اصلاحات کی طرف بھی آجائےگی اور اگلے انتخابات میں اپنے
خدشات دور کرنے کیلئے اپنی خواہش کے مطابق اقدامات کروانے کی کوشش کرے گی
اب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی سوچ حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کی
نہیں کیونکہ ایک تو ماحول نہیں بن پا رہا دوسرا تسلسل ٹوٹ چکا ہے تیسرا
اپوزیشن تقسیم ہو چکی ہے اب اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں میں اپنے آپ کو
قابل قبول بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور دونوں پیا کا دل لبھانے کی کوششوں
میں مصروف ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔