حیاتیاتی جنگ اور نوح انسانی کی بقاء

منگل 28 اپریل 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

امریکا اور اس کے اتحادی چین پر دباؤ بڑھا رہے واشنگٹن نے تو سفارتی سطح پر بیجنگ سے حساس حیاتیاتی ریسرچ لیبارٹریوں تک رسائی مانگ لی ہے جس کے جواب میں چین کے دفتر خارجہ نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے الزام تراشیاں کررہا ہے امریکا کے اتحادی جرمنی نے تو باقاعدہ طور پر نقصانات کی ایک فہرست بیجنگ کو بجھواکرہرجانے کی ادائیگی کا مطالبہ بھی کردیا ہے.

اسی طرح امریکا کی کئی ریاستو ں میں چین کے خلاف وفاقی عدالتوں میں مقدمات دائر کیئے گئے ہیں جبکہ ریاست میزوری نے تو سرکاری طور پر مقدمہ دائرکیا ہے تاہم قانونی ماہرین کے مطابق ان مقدمات کی کوئی اہمیت نہیں.

(جاری ہے)

امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ اور وزیرخارجہ مائیک پومپیو کورونا کو ”چینی وائرس“کہہ کر بیجنگ کو چڑاتے رہے ہیں تاہم ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ کورونا قدرتی وباء ہے یا اسے کسی لیبارٹری میں تیار کیا گیا.

البتہ دنیا بھر سازشی تھوریوں کی بھرمار ہے صحافت کے خار زار میں عمر بیت چلی کسی بھی سازشی تھیوری کے پیچھے کچھ نہ کچھ حقیقت ہوتی ہے جو اس تھیوری کو بنیاد فراہم کرتی ہے شاید قارئین کے لیے یہ بات حیرت انگیزہو کہ حیاتیاتی ہتھیاروں کی تاریخ اٹیمی ہتھیاروں سے بہت زیادہ پرانی ہے مغربی دنیا کے ہیروکرسٹوفرکولمبس جسے دنیا ایک سیاح اور کھوجی کے طور پر جانتی ہے بنیادی طور پر وہ مغربی دنیا کا ایک ”انڈرکور“کمانڈر تھا امریکا کی دریافت کو حادثاتی قراردیا جاتا رہامگر آج دنیا جانتی ہے یہ جھوٹ تھا.

کرسٹوفرکولمبس پہلا ”کھوجی نہیں تھا جس نے بحیرہ اوقیانوس عبور کیا تھا بلکہ اس سے پانچ صدیاں پہلے نورس وائکنگ لیف ایرکسنن نامی جہازراں 1000عیسوی میں بحیرہ اقیانوس کو پار کرکے براعظم امریکا تک جاچکا تھاجبکہ کچھ مغربی مورخین کا کہنا ہے کہ آئرلینڈ برنیڈین کی سرکردگی میں نورس وائکنگ سے بھی پہلے مہم بجھواچکا تھا. دلچسپ بات یہ ہے کہ جب برطانیہ اورفرانس جیسی بڑی مغربی طاقتوں نے کرسٹوفرکولمبس کی مہم کے لیے فنڈنگ کرنے سے انکار کردیا تو انتہا ئی کٹر عیسائی نظریات رکھنے والے بادشاہ فرڈینینڈ اور ملکہ اسابیلانے اس کے لیے خزانے کے منہ کھول دیئے یہ دونوں وہی کردار ہیں جن کے ہاتھوں سپین میں مسلمانوں کو شکست کھانا پڑی اور معاہدے کے خلاف انہوں نے کئی دن تک سپین کے مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا .

کہا جاتا ہے کہ کرسٹوفرکولمبس اپنے ساتھ کمبلوں کی ایک کھیپ لے کر گیا تھا جو طاعون کے جان لیوا جراثیم سے آلودہ تھے اسے کرسٹوفرکولمبس کا ”حیاتیاتی حملہ“کہا جاتا ہے جس سے لاکھوں ریڈانڈین مارے گئے‘کئی ریڈانڈینزکے تو پورے کے پورے قبیلے اس ”حیاتیاتی حملے“کا شکار ہوکر نابود ہوگئے. اب 16ویں صدی سے 2020پر آتے ہیں ‘کیا دنیا میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے ؟ تو بہت سارے عالمی ادارے اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ بیائیوٹیکنالوجی میں جدت آنے سے انتہائی خطرناک جراثیمی ہتھیار دنیا میں موجود ہیں اور ایک چھوٹے سے ڈبے کے ذریعے کسی بھی ملک یا براعظم کو جنگ لڑے بغیر نیست و نابود کیا جاسکتا ہے.

براعظم افریقہ پچھلی کئی دہائیوں سے عالمی طاقتوں کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے اسی طرح کئی دواساز کمپنیاں‘دنیا کی بڑی فوڈ کارپوریشنزاور این جی اوزکے ذریعے دنیا کے مختلف خطوں میں انسانوں پر مختلف جراثیموں سے خفیہ تجربات کیئے جارہے ہیں. عصر حاضر کے ایک امریکی مفکرکا کہنا ہے کہ ”تعمیرنو اور بحالی“دنیا کی بڑی انڈسٹری بن چکی ہے دنیا کی بڑی کارپوریشنز کے تحت اگر ایک ادارہ ”تخریب“کا کام کرتا ہے تو اسی کارپوریشن کی کسی دوسری کمپنی کو ”تعمیرنو اور بحالی“کے ٹھیکے دیئے جاتے ہیں تو یہ ایک بزنس ہے کارپوریٹ ورلڈ میں انسانی جذبات اور احساسات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اس دنیا میں صرف کاروباری فائدے دیکھے جاتے ہیں.

دنیا میں حیاتیاتی ہتھیاروں کے حوالے سے نیوکلیئر تھریٹ انشی ایٹو (این ٹی آئی) نامی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ بائیوٹیکنالوجی کے شعبے میں برق رفتار ترقی کی وجہ سے جراثیمی ہتھیار بنانا بیحد آسان ہو گیا ہے اور کوئی بھی ملک جو دوائیاں اور میڈیکل آلات بنا سکتا ہے، وہ جراثیمی ہتھیار بنانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے. نیوکلیئر تھریٹ انشی ایٹو (این ٹی آئی) نامی تنظیم ویسے تو ایٹمی ہتھیاروں پر نظر رکھتی ہے لیکن وہ حیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں رپورٹیں بھی جاری کرتی ہے‘اس ادارے کی ویب سائٹ پر 16 ملکوں کے نام درج ہیں جن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہیں ان میں کینیڈا، چین، کیوبا، فرانس، جرمنی، ایران، عراق، اسرائیل، جاپان، لیبیا، شمالی کوریا، روس، جنوبی افریقہ، شام، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو اس نے 1972 ہی میں بی ڈبلیو سی پر دستخط کر دیے تھے اور دو سال بعد اس کی توثیق بھی کر دی.

1972 میں دنیا کے ملک سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے حیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں ایک معاہدے پر دستخط کیے اس معاہدے کو بائیو لاجیکل ویپنز کنونشن( بی ڈبلیو سی) کہا جاتا ہے اور اب تک 183 ملک اس کی توثیق کر چکے ہیں اس کے تحت کسی بھی قسم کے حیاتیاتی ہتھیار بنانا یا ان کا ذخیرہ کرنا ممنوع ہے لیکن اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی حیاتیاتی ہتھیاروں کے بارے میں سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ 183ملکوں کی نگرانی کے لیے بی ڈبلیوسی کے پاس کل 4افراد پر مشتمل عملہ ہے.

دوسری جانب بی ڈبلیو سی کو نافذ کرنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے ادارے کے پاس کوئی ایسا طریقہ کار نہیں جس کی مدد سے وہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کی نشان دہی کر کے انہیں جواب دہ قرار دے سکے. اس کے مقابلے میں اٹیمی ہتھیاروں کی نگرانی کے لیے قائم ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(آئی اے ای اے) اورجوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک باقاعدہ موثر اور فعال عالمی ادارہ موجود ہے جس کے پاس اڑھائی ہزار سے زیادہ افرادپر مشتمل عملہ ہے امریکی محکمہ دفاع کا الزام ہے کہ پاکستان کے پاس حیاتیاتی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت اور وسائل موجود ہیں، تاہم اس نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان کے پاس اس قسم کے ہتھیار موجود ہیں.

2014 میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے قریب واقع ایک تحقیقاتی مرکز میں گتے کے ڈبوں میں چیچک کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں پڑی ہوئی ملیں جو” بھول“ سے ان ڈبوں میں رہ گئی تھیں اسی طرح 2015 میں امریکی فوج نے حادثاتی طور پر جنوبی کوریا کے ایک فوجی اڈے سمیت ملک بھر میں واقع9 لیبارٹریز کے لیے مردہ کے بجائے زندہ اینتھریکس کے نمونے بھیج دیے‘بڑی تعداد میں واقع تحقیقاتی لیبارٹریز میں مختلف حفاظتی نظام رائج ہیں.

لیبارٹریز جو بی ایس ایل-4 کے حساب سے بنائی گئی ہیں ان میں بہت سخت انتظامات کیے جاتے ہیں کیونکہ یہاں انتہائی خطرناک جرثوموں پر کام ہوتا ہے ایک عالمی ادارے نے 50 ایسی لیبارٹریوں کی فہرست مرتب کی ہے جن میں ووہان میں واقع ڈبلیو آئی وی بھی شامل ہے، تاہم ایسی لیبارٹریوں کی کوئی حتمی فہرست دستیاب نہیں ہے. بی ایس ایل- 4 لیبارٹری میں خطرناک جرثوموں پر کام ہوتا ہے اور یہاں بہترین حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانا ہوتا ہے اس وجہ سے ان میں سے کسی لیب سے متعلق حفاظتی انتظامات میں کوتاہی برتنا بہت اہم ہوجاتا ہے.

1940میں دوسری جنگ عظم کے دوران جاپان کے جنگی جہاز چینی شہر ننگبو کے اوپر نیچی پرواز کرتے ہوئے گیندنما بم گرائے جن کے اندر باردو نہیں بلکہ مکھیاں بند تھیں ان مکھیوں کے طاعون کے مرض سے ہلاک ہونے والے مردوں کے ساتھ مکمل طور پر سیل کمروں میں چھوڑا کر طاعون کے تباہ کن جراثیم سے آلودہ کیا گیا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طاعون کے جراثیم جاپان کی حیاتیاتی جنگ کے خصوصی ادارے یونٹ 731 نے طاعون کے مریضوں کے جسموں سے حاصل کرکے لیبارٹری میں ان کی افزائش کی .

جاپان نے چین پر کئی برس تک حیاتیاتی جنگ مسط کیے رکھی جس کے نتیجے میں ایک رپورٹ کے مطابق 6 لاکھ کے قریب افراد مارے گئے 1990 کی دہائی میں جاپان کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والے چینی باشندوں کے لواحقین نے جاپان کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا تھا جس میں ہر متاثرہ شخص کو 18 ہزار ڈالر دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا. سال2002میں ٹوکیو کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے تسلیم کیا کہ جاپان نے دوسری عالمی جنگ کے دوران حیاتیاتی ہتھیار استعمال کر کے لوگوں کو نقصان پہنچایا تھا تاہم عدالت نے ہرجانے کا مطالبہ مسترد کر دیا‘یہ کسی ملک کی جانب سے سائنسی علوم استعمال کر کے بڑے پیمانے پر جراثیمی جنگ چھیڑنے کا پہلا موقع تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دور میں صرف جاپان ہی اس سرگرمی میں ملوث تھا.

1939میں سائنس دان آئن سٹائن نے اپنے دستخط سے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو ایک خط بھیجا جس میں انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ ایٹم بم بنانا شروع کر دیں ورنہ جرمنی ان سے پہلے یہ بم تیار کر سکتا ہے. اس کے دو سال بعد، جب دوسری عالمگیر جنگ پورے عروج پر تھی اور امریکہ نے ایٹمی پروگرام شروع کر دیا تھا امریکہ کے وزیرجنگ ہینری سٹمسن نے نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کو حیاتیاتی جنگ کا پروگرام شروع کرنے کے لیے خط لکھا فروری 1942 میں امریکہ نے بڑے پیمانے پر حیاتیاتی ہتھیار بنانے کا خفیہ پروگرام شروع کر دیا جس میں درجنوں جراثیم کو بطور اسلحہ استعمال کرنے پر تحقیق کا آغاز ہوا.

سائنسی جریدے ایمبو رپورٹس کے مطابق اس پروگرام کے تحت 1950 میں سان فرانسسکو اور 1966 میں نیویارک میں بے ضرر جراثیم چھوڑ کر دیکھا گیا کہ ان کا پھیلاؤ آبادی میں کس حد تک اور کتنی تیزی سے ہوتا ہے. جاپان نے بڑے پیمانے پر جنگی قیدیوں اور مفتوحہ آبادیوں پر جراثیموں کے اثرات کے تجربات کر رکھے تھے اس لیے جب امریکہ نے 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسانے کے بعد جاپان پرفتح حاصل کی تو اس نے حیاتیاتی ہتھیاروں کے جاپانی ادارے” یونٹ 731 “کے ارکان کو اس شرط پر معاف کیا کہ وہ اپنی ساری تحقیق اور تمام ریکارڈ امریکہ کے حوالے کریں گے .

مگر امریکہ سے بھی پہلے برطانیہ جراثیم کو جنگی ہتھیاروں کے طورپر استعمال کرنے کے لیے نہ صرف تحقیق بلکہ عملی تجربات بھی کر رہا تھا. 18ویں صدی میں برطانوی فوج نے امریکہ اور آسٹریلیا کے آبائی باشندوں کو جنگی حکمت عملی کے تحت چیچک اور تپ دق جیسی تباہ کن بیماریوں سے آلودہ کیا 20ویں صدی میں برطانیہ نے سکاٹ لینڈ کے جزیرے گرونارڈ میں اینتھریکس کے جراثیم ا س قدر آلودہ کیا کہ پورا جزیرہ اگلی نصف صدی تک”نو گو ایریا“ بنا رہا اور 1990 میں اسے ڈی سینیٹائز کر کے دوبارہ کھولا گیا.

یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ برطانیہ نے اس جزیرے میں جنگی قیدیوں پر خفیہ طریقے سے حیاتیاتی ہتھیاروں کے تجربات کیئے تاہم اس کے ثبوت کسی کے پاس نہیں ہیں اس لیے اس الزام کو صرف ایک سازشی تھیوری ہی قراردیا جاتا ہے. اپنے عروج کے زمانے میں سوویت یونین کے حیاتیاتی جنگ کے پروگرام سے 50 ہزار افراد وابستہ تھے جو 52 خفیہ لیبارٹریوں میں کام کر رہے تھے اس پروگرام کے تحت انہوں نے ایسے بیکٹریا تیار کیے جن پر ہر طرح کی اینٹی بایوٹکس بے اثر تھیں اس وقت دنیا سے چیچک کی بیماری ختم ہو رہی تھی لیکن سوویت یونین کے پاس سینکڑوں ٹن کے حساب سے یہ موذی جراثیم موجود تھے.

اس دوران سوویت یونین نے ایسے بین البراعظمی میزائل بھی تیار کیے جو ہولناک بیماریاں پھیلانے والے جراثیم ہزاروں میل دور تک لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے 90 کی دہائی میں روسی صدر بورس یلسن نے اس پروگرام کو تسلیم کیا اور یہ اعتراف بھی کیا کہ اسی قسم کی ایک لیبارٹری میں حادثاتی طور پر جراثیم پھیلنے کے نتیجے میں 64 افراد ہلاک ہو گئے تھے. حیاتیاتی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے معاہدے(ڈبلیوبی سی)کے پاس اپنے پاورز نافذ کرنے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے اس کے پاس کوئی ایسی طریقہ کار نہیں جس کی مدد سے وہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کی نشان دہی کر کے انہیں جواب دہ قرار دے سکے.

ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے تو بہت بڑے پیمانے پر کارخانے اور سینٹری فیوج لگانے پڑتے ہیں، اعلیٰ ٹیکنالوجی درکار ہوتی ہے اور بڑے پیمانے پر تربیت یافتہ عملہ اور جدید ترین ساز و سامان درکار ہوتا ہے جن پر کروڑوں ڈالر لاگت آتی ہے اس لیے کسی ملک کے لیے چھپ چھپا کر ایٹمی ہتھیار بنانا آسان نہیں ہے. لیکن جراثیمی ہتھیار ایک چھوٹی سی لیبارٹری میں تیار کیے جا سکتے ہیں اور ان پر خرچ بھی بہت کم آتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا کھوج لگانا انتہائی دشوار ہے اور وہ بھی4 لوگوں پر مشتمل عملے کے لیے.

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے ملک سائنسی تحقیق کے نام پر حیاتیاتی ہتھیاروں پر ریسرچ جاری رکھے ہوئے ہیں کنونشن میں کوئی ایسا مکینزم وضع نہیں کیا گیا جو بتا سکے کہ خالص تحقیق کی حدیں کہاں ختم ہوتی ہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی کہاں شروع ہوتی ہے. امریکہ جو ماہرین کے مطابق معاہدے کی لکیر کے دونوں طرف چل رہا ہے امریکہ چونکہ 20ویں صدی کے آغازسے لے کر اب تک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں چھایا رہا ہے اس لیے وہ جراثیمی جنگوں کے میدان میں بھی دوسروں سے بہت آگے ہے.

2001 میں نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک خفیہ پروگرام شروع کیا تھا جسے بعد میں بش انتظامیہ نے مزید توسیع دی اس پروگرام میں جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کر کے مہلک ترین جراثیم تیار کیے جاتے ہیں. ایسے ہی ایک پروجیکٹ کا نام”کلیئر وژن“ تھا جو بظاہر تو سابق سوویت یونین کے تیار کردہ جراثیمی بموں پر تحقیق کے لیے قائم کیا گیا تھا مگر اس آرٹیکل کے مطابق یہ اپنے مقررہ مشن سے کہیں دور جا ہٹا اور اس نے خود ایسے بم بنانا شروع کر دیے.

اگست 2019 میں امریکی ریاست میری لینڈ میں واقع فورٹ ڈیٹرک نامی حیاتیاتی لیبارٹری میں اس وقت کام روک دیا گیا جب پتہ چلا کہ ایک طوفان کے نتیجے میں عمارت اور ساز و سامان کو نقصان پہنچا ہے جس کے باعث یہاں سے مہلک وائرس اور بیکٹیریا لیک ہونے کا خطرہ ہے . اسی دوران منظرعام پر آیا تھا کہ امریکہ خفیہ طور پر ایبولا وائرس، طاعون کے جراثیم اور رائسین نامی انتہائی زہریلے مادے پر کام کر رہا ہے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے یہ پروگرام بی ڈبلیو سی کے دائرے کے اندر آتے ہیں کیوں کہ یہ دفاعی نوعیت کے ہیں اور ان کا مقصد امریکی عوام کو جراثیمی حملوں سے بچانے کے طریقے وضع کرنا ہے.

لیکن یہ کون طے کرے گا کہ دفاع کی لکیر کہاں ختم ہوتی ہیں اور جارحیت کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں؟شاید یہی وجہ ہے کہ جب بی ڈبلیو سی کو مزید طاقتور بنانے کے لیے اس میں جین ایڈیٹنگ کے ذریعے جراثیم بنانے پر پابندی اور مشتبہ مقامات کے معائنے کی شقیں شامل کرنے کی کوشش کی گئی تو بش انتظامیہ نے اس کو سبوتاژکر دیا. آج کرونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھا ہوا ہے عملا پوری دنیا بند ہے اور اب تک دنیا کے185ممالک میں لاکھوں لوگ مرچکے ہیں اور کھربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوچکا ہے کورونا وائرس کے بارے میں بھی مختلف سازشی تھوریاں گردش کررہی ہیں امریکا اور چین ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں کئی اہل دانش اسے حیاتیاتی ہتھیار قراردے رہے ہیں مگر حقیقت آنے والے وقتوں میں کھل کر سامنے آہی جائے گی جس طرح آج1940کے حقائق دنیا کے سامنے کھلے پڑے ہیں.

کورونا حیاتیاتی ہتھیار ہے یا قدرتی وباء اس کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں لیکن دنیا اس وقت ایک سبق سیکھ سکتی ہے کہ حیاتیاتی جنگ کو روکنے کے لیے ”بی ڈبلیو سی“ کو ختم کر کے اس کی جگہ کہیں زیادہ موثر اور فعال ادارہ قائم کیا جائے جس کے پاس اتنی طاقت ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کو کٹہرے میں کھڑا کر سکے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :