اقتصادی سروے اور پاکستان کے اصل مسائل

جمعرات 10 جون 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

عالمی ادارے سالوں سے دہائیاں دے رہے ہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں ہے عام پاکستانی کو بھی ہمارے حکمرانوں کی طرح سمجھ نہیں آئی کہ ان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کیا مرتب ہونگے؟ کیا موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو روکا یا اس کی رفتار کو سست کیا جاسکتا ہے ؟ تو جواب ہاں میں ہے اس کی زندہ مثال ہمارے خطے کو چھوٹا سا ملک بھوٹان ہے جو دنیا کا تیسرا کاربن فری ملک ہے ہم نے اس حوالے سے قوم کو ایجوکیٹ کرنے کی کوشش کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی -آج وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے گویا بم قوم کے سرپر دے مارا ہے قومی اقتصادی سروے کے لیے پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے مہنگائی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ہم خالصتاً اشیائے خورونوش درآمد کرنے والا ملک بن گئے ہیں ہم گندم، چینی، دالیں، گھی درآمد کررہے ہیں جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں آنے والے اتار چڑھاؤسے متاثر ہیں اس سے بچ نہیں سکتے“ایک زرعی ملک جس کا دعوی ہے کہ اس کی معیشت اور آبادی کا70فیصدحصہ زراعت پر مشتمل ہے وہ گندم‘گنا‘کپاس اور دالوں جیسی مقامی اجناس درآمد کرنے تک کیسے پہنچا؟حکومت یا سپریم کورٹ ہمت کرئے اور ایک بااختیار تحقیقاتی کمیشن قائم کرئے کہ ان اجناس کی برآمد سے درآمدتک سفر پاکستان نے کیسے طے کرلیا؟1971میں ہم سے کٹ کر مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے والا ملک آج خوراک میں خودکفیل ہوگیا ہے اور ہم خوراک کی شدید قلت کا شکار ہورہے ہیں جس کی بڑی وجہ لینڈ مافیا اور کالونی کلچرکو حکومتی اداروں اور پالیسی سازوں کا فروغ دینا ہے-ڈیفنس ہو یا بحریہ ٹاؤن ان سے شروع ہونے والا رہائشی کالونیوں کا طوفان 30سالوں کے مختصر عرصے میں ہمارے زرخیزرقبوں کو نگل گیاہے اور ملک کا لاکھوں ایکٹرآباد رقبہ”براہمنوں“کے لیے بننے والی ان کالونیوں کی نذرہوچکا ہے بڑے شہروں سے ہوتی ہوئی یہ وبا چھوٹے شہروں حتی کہ دیہاتوں تک جاپہنچا ہے شوکت ترین نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیرخزانہ کی حیثیت سے کون سا تیرمارا تھا جو انہیں تحریک انصاف نے وزیرخزانہ مقررکیا ہے؟عمران خان جنہیں معاشیات کا بیڑا غرق کرنے والا کہتے ہیں وہی ان کی کابینہ میں وزیربن رہے ہیں شوکت ترین سے پہلے انہوں نے ”چلے ہوئے کارتوس“ڈاکٹرحفیظ شیخ کو وزیربرقراررکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیامگر پاکستان کی خوش قسمتی کہ موصوف سینیٹ کا الیکشن بری طرح ہار گئے تو ایک اور ”چلے کارتوس“کو خزانہ کی اہم ترین وزارت سپرد کردی گئی وزیرموصوف نے پریس کانفرنس کے دوران فرمایا کہ پچھلے 12 ماہ کے دوران چینی کی عالمی قیمتیں 58 فیصد بڑھیں جبکہ ہمارے ہاں چینی کی قیمت 19 فیصد بڑھی، پام آئل کی قیمت میں 102 فیصد، سویابین کی قیمت میں 119 فیصد ہوا جبکہ ہمارے ہاں پام آئل کی قیمت میں صرف 20 فیصد اضافہ ہوا انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ گنا پاکستان کی مقامی فصل ہے اور ہمارے ہاں اتنا گنا ضرورپیدا ہوتا ہے کہ جو ملک میں چینی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے اس کے علاوہ دنیا میں گنے کے علاوہ شلجم اور دیگر ذرائع سے بھی چینی بنائی جارہی ہے شلجم ہمارے ہاں بڑی عام ہر جگہ پیدا ہونے والی سبزی ہے مگر ”شوگرمافیا“نے کسی متبادل کی طرف جانے ہی نہیں دیا کسی حکومت کو -شوکت ترین پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کے” دسترخوانوں“سے مستفید ہوتے رہے ہیں ہمارے اعلی تعلیم یافتہ اور انگریزطبعیت رکھنے والے وزیراعظم مافیازکو رونا تو روتے ہیں مگر ان کو توڑنے کے لیے اقدامات سے قاصر ہیں کیونکہ ان مافیازکے سرپرست ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں آج اگر وہ تحریک نصاف ہیں تو کل کو وہ اقتدار میں آنے والی کسی دوسری جماعت کے ساتھ ہونگے-ملتان کے ایک سیاست دان 2008میں ملتان سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی ملتان کے لیے اربوں روپے کے ایک خصوصی منصوبے کا اعلان کیا اور ان صاحب کو منصوبے کا سیکرٹری نامزد کردیا تو انہوں نے بجلی‘گیس‘بائی پاس‘ویمن یونیورسٹی ‘ڈسٹرکٹ کورٹس سمیت تمام ترقیاتی منصوبوں کا رخ اپنی آبائی زرعی زمینوں کی جانب موڑدیا جس سے کوڑیوں کے مول زمین کی قیمت کروڑوں روپے ایکٹرتک جاپہنچی یوں سینکڑوں ایکٹرزمین پر آباد آموں کے باغات ہوس زر کا شکار ہوگئے پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو موصوف نے باقی بچے منصوبوں اور اپنی رہائشی کالونی کے کاموں کے لیے فوری طور پر نون لیگ میں شمولیت اختیار کرلی جب نون لیگ کی حکومت ڈانواں ڈول ہوئی تو انہوں نے نہ صرف تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیا بلکہ اپنی جاگیردرانہ حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی اسمبلی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور آج وہ رکن قومی اسمبلی ہیں یقینی طور پر مستقبل میں کسی اور جماعت کی حکومت آئی تو موصوف اس میں ہونگے کیونکہ ان لوگوں کی وابستگی اپنے ذاتی مفادات سے ہوتی ہے یہ صرف ایک مثال ہے پاکستان کی قومی ‘صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے اراکین کا جائزہ لیا جائے تو ہردور میں مافیازکے سرغنوں کی اکثریت نظر آئے قیام پاکستان سے آج تک-پاکستان میں آج تک چینی کی مل کے لیے پرمٹ لینا پڑتا ہے اگر حکومت اس معاملے سنجیدہ ہے تو کالونیل عہد کی طرز پر قائم کالے قوانین کو بدلنے کی ضرورت ہے شوگر مل کے لیے پرمٹ کی بجائے اسے پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی کی طرز پر کردیا جائے یعنی اگر کسی کے پاس سرمایہ ہے تو وہ اپنی کمپنی رجسٹرڈ کروائے اور شوگر مل لگا لے اسی طرح سارے پرمٹ سسٹم کو سرے سے ختم کردیا جائے اور ہر پاکستانی شہری جس کے پاس اتنا سرمایہ ہواسے اجازت دی جائے کہ وہ شوگر مل‘فلورمل یا جو بھی کاروبار جس کے لیے پرمٹ درکار ہیں وہ قائم کرنے کا حق ہو-مسٹرترین کی پریس کانفرنس کا زیادہ ترحصہ اعدادوشمار کے گورکھ دھندے پر مشتمل ہے لہذا اس کو چھوڑرہا ہوں مگر بیروزگاری کے حوالے سے انہوں نے جو اعدادوشمار پیش کیئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں کیونکہ بیروزگاری حکومتی اعدادشمار سے کہیں زیادہ ہے لاک ڈاؤنزکے درمیان درزی‘حجام‘کمپیوٹراور موبائل رپیئرشاپس کو بلاجوازاتنا رگڑادیاگیا کہ ملک میں محتاط اندازے کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں ان شعبوں سے وابستہ دوکانیں بند ہوچکی ہیں کیونکہ دوکانداروں کا کہنا ہے وہ اخرات پورے نہیں کرپارہے تھے لہذا انہوں نے دوانیں بند کردیں شوکت ترین ہوں یا عمران خان وہ انہیں بیروزگاروں میں شامل نہیں کرتے اسی طرح غیررجسٹرڈ مزدور یعنی کنسٹرکشن ورکرز‘مالی‘منذیوں اور بازاروں میں مزدوری کرنے والے‘ٹرانسپورٹ کے شعبے سے منسلک مزدور یہ وہ شعبے ہیں جنہیں حکومت بیروزگاروں میں شمار نہیں کرتے-اب آتے ہیں اس خطرے کی طرف جو ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے وہ ہے پانی اور خوراک کی دن بدن ہونے والی کمی اس کی بنیادی وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور زرعی رقبوں کا تیزی سے خاتمہ ہے صرف لاہور میں 80فیصد سے زیادہ درخت کاٹے گئے ہیں ترقی کے نام پر جبکہ کسی بھی ملک میں 25 فیصد جنگلات کا ہونا لازمی ہے مگر ہمارے ہاں درخت کی نہیں بلکہ اس کی لکڑی کی اہمیت زیادہ ہے، اس لیے ہمارے ہاں جنگلات آہستہ آہستہ ناپید ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

کسی زمانے میں یہی جنگلات لاکھوں ایکڑ پر محیط تھے مگر اب صرف ہزاروں ایکڑ تک محدود ہو گئے ہیں۔ اگر درختوں کی کٹائی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو یہی جنگلات کچھ سو ایکڑ تک محدود ہو کر رہ جائیں گے۔ایک اندازے کے مطابق روس میں 48 فیصد، برازیل میں 58 فیصد، انڈونیشیا میں 47 فیصد، سوئیڈن میں 74 فیصد، اسپین میں 54 فیصد، جاپان میں 67 فیصد، کینیڈا میں 31 فیصد، امریکا میں 30 فیصد، بھارت میں 23 فیصد، بھوٹان میں 72 فیصد اور نیپال میں 39 فیصد جنگلات پائے جاتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں صرف 2.19 فیصد جنگلات ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کتنے ماحول دوست ہیں۔

اس کے علاوہ مینگرووز کے جنگلات تقریباً 207000 ہیکٹرز پر ہیں سندھ میں یہ 600000 ہیکٹرز پر مشتمل ہیں، جبکہ محکمہ جنگلات اس وقت 241198 ہیکٹرز تک کچے کی زمین پر اپنا کنٹرول رکھتا ہے ہمارے ملک میں اب جس درخت کو زیادہ اگایا جا رہا ہے وہ کونوکارپس (Conocarpus) ہے یہ یہاں کا مقامی درخت نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق شمالی امریکا سے ہے، جسے محکمہ جنگلات نے درآمد کیا ہے۔

ہمارے مقامی اشجار جن میں نیم، برگد، جامن، اور شیشم شامل ہیں، انہیں بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے قدرت کے تحفظ کی عالمی تنظیم آئی یو سی این کے مطابق یہ ایک نمکین درخت ہے، اس کا پتا جہاں بھی گرتا ہے وہاں سیم پیدا کرتا ہے، اسے لوگ دیہی علاقوں میں نہیں اگاتے، اور نہ ہی کوئی پرندہ اس میں گھونسلا بناتا ہے اس کے علاوہ یہ سانس کی الرجی کا بھی سبب بنتا ہے جس سے دمہ ہوتا ہے مگر نون لیگی حکمرانوں نے ماہرین کے رپورٹوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر جگہ کونوکارپس لگانے کا حکم دیا کیونکہ مقامی درختوں میں کتنا کمیشن بنے گا درآمد شدہ پودوں کے مقابلے میں؟زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر ضروری درخت ہے، اس کے بجائے نیم کو زیادہ سے زیادہ اگایا جائے، کیونکہ کونوکارپس کے مقابلے میں نیم‘دھریک‘بکائن ایسے درخت ہیں جو تیزی سے بڑھتے ہیں اور زمین کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچاتادنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیاں جس تیزی سے وقوع پذیرہورہی ہیں ہم نے شعوری طور پر ان کی رفتار کو دوگنا کردیا ہے -پنجاب اور سندھ میں موسم سرما سکڑکر صرف دوماہ پر محیط ہوکررہ گیا ہے جبکہ گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے اور اگر گرمی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو بڑے شہروں میں رہنا ناممکن ہوجائے گاشہروں کے معاملے میں بھی ہم نے انتہائی لاپروائی اور مجرمانہ غفلت برتی ہے ‘شہروں کوبڑھنے سے روکنے کی بجائے حکومت کے ماتحت ادارے اس کار ”خیر“میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ پرائیو ٹ ہاوٴسنگ سوسائٹیوں کو کئی حدود پار کرنے میں ان کی معاونت بھی کی ہے -لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)نے علامہ اقبال ٹاوٴن‘جوہرٹاوٴن اور سبزہ زار جیسی سکمیں بناکر لاکھوں ایکٹرزیرکاشت اراضی کو برباد کردیا ان زمینوں پر کھڑے لاکھوں درخت بھی ہوس زر کا ایندھن بن گئے ایل ڈی اے کے بعد نجی شعبہ میں لینڈڈویلپرزنے مانگا منڈی‘قصور‘کالاشاہ کاکو‘شرق پور‘بیدیاں روڈاوررائے ونڈتک وہ تباہی مچائی کہ سینکڑوں مربع کلومیٹرتک زرعی زمینیں اور درختوں کے ذخیرے فنا ہوگئے 1980کی دہائی تک دریائے راوی کے کناروں پر ”بیلے“ہوتے تھے جن کا آج نام ونشان بھی باقی نہیں بچا-ایک طرف ماحولیات اور جنگلات کے حوالے سے حکومتیں کوئی مربوط پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہیں تو دوسری جانب عوام میں شعور کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے درختوں کو بیدردی سے کاٹا گیا آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم کنکریٹ کے جنگل میں کھڑے ہوکر سو چ رہے ہیں ہے کہ حل کیا نکالا جائے؟ابھی بھی ہم ”ڈیمج کنٹرول“کرنے کے لیے اقدامات کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں سو فیصد عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا -حکومت کے ماتحت اداروں سمیت تمام لینڈڈویلپرزکو پابند بنایا جائے کہ ہر دوگھروں کے درمیان جگہ پر ایک درخت لازم لگایا جائے اور یہاں درخت سے مراد ہمارے روایتی درخت نیم، برگد، جامن، اور شیشم وغیرہ ہیں اگر ہوسکے تو ملک کی تمام شہری حکومتوں کے ماتحت اداروں اور نجی ڈویلپرزاپنے بائی لازمیں اسے شامل کریں اور اگر گھروں کے مالکاندرخت نہ لگائیں تو انہیں بھاری جرمانے کیئے جائیں -اس ماحولیاتی ایمرجنسی کو صرف زیرتکمیل یا مستقبل میں بننے والی ہاوٴسنگ سکمیوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ موجودہ سکیموں پر بھی اس کا اطلاق کیا جائے ہاوٴسنگ سکیموں کے چھوٹے ‘بڑے پارکوں میں آرائشی پودوں کی بجائے روایتی درخت لگائے جائیں جبکہ موجودہ پارکوں سے آرائشی پودوں کو مکمل طور پر ختم کرکے وہاں درخت لگائے جائیں فیکٹریوں اور کارخانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ صنعتی فضلے کو ندی ‘نالوں میں ڈالنے کی بجائے عالمی معیار کے مطابق کارخانوں سے خارج ہونے والے پانی میں سے صنعتی فضلے کو الگ کرنے کے لیے فلٹرنگ پلانٹس لگائیں کیونکہ ملک بھر میں عمومی طور پر اس کا خیال نہیں رکھا جاتا اور پانی میں شامل زہریلے موادنہ صرف ماحول کو بلکہ زمین کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس کی وجہ سے ہرسال ہزاروں ایکٹراراضی بنجرہورہی ہے-اربنائزیشن کی یہ وباء کراچی اور لاہور جیسے شہروں سے نکل کر اب ملتان‘فیصل آباد‘سرگودھا‘ساہیوال‘سکھر‘حیدرآباد وغیرہ میں بھی پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے ہمارا ایکو سسٹم بڑی تیزی متاثرہورہا ہے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 907 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، جو سالانہ جی ڈی پی کا 0.0974 حصہ بنتا ہے گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈیکس کی رپورٹ مرتب کرنے والے سونکی کریفٹ کے مطابق گزشتہ 20 سال سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنے والے ممالک میں اکثریت ترقی پذیر ممالک ہیں، کیوں کہ یہ ممالک ترقی اور کاروبار کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر بہت کم توجہ دیتے ہیں انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر نامی عالمی ادارے کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ پاکستان میں مسلسل قدرتی آفات آتی رہتی ہیں، گزشتہ 20سال سے پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے شکار 10 بڑے ممالک میں شمار رہا ہے ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کی آبادی سیلابوں اور گلیشیئرز پگھلنے کی وجہ سے متاثر ہوگی اور اس کا اثر زرعی پیداور پر بھی ہو رہا ہے پچھلے 20 سالوں کے دوران پاکستان میں 133 قدرتی آفات آ چکی ہیں کیوں کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سے ایسے خطے میں موجود ہے، جہاں آفات آتی رہتی ہیں دیہی پس منظررکھنے والے ہماری نسل کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ بیس برس پہلے تک جب کنکریٹ کے پہاڑکھڑے کرنے کا چلن اتنا عام نہیں ہوا تھا ہر گھر کے آنگن سے لے کر گاؤں کی بیٹھک‘تکیے‘ اور بہتے ہوئے کھالوں کے کناروں پر درخت نظرآتے تھے اشجار سے صرف انسانوں کا ناتا نہیں ہوتا، بلکہ یہ تو وہ وسیع دنیا ہے، جو کہ کیڑے مکوڑوں، جانوروں، اور پرندوں کی میراث ہے۔

وقت گزرتا گیا، ہم جوان ہو گئے، درخت بھی جوان ہوگئے، آج درخت لگائے کم اور کاٹے زیادہ جاتے ہیں شہروں کے لوگوں میں شعور نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ چھوٹے آرائشی پودوں کو درختوں کا متبادل سمجھتے ہیں جوکہ غلط سوچ ہے نیم، ببول، بید مشک اور دوسرے اشجار گاؤں‘شاہراوٴں کے کناروں کا حسن ہوا کرتے تھے مگر آج ہمیں سٹرکوں کے کنارے درخت نہیں کنکریٹ سے بنے پلازے نظرآتے ہیں۔

ان گذارشات کا مقصد ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے کہ اگر ہم نے ہوش نہ کیا تو ہمارے آنے والی نسلوں کے لیے پینے کے لیے پانی کا قطرہ ہوگا نہ کھانے کو دانہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں تمام تر خرابیوں کے باوجود گندم کی کمی نہیں بلکہ گندم کو ذخیرہ کرنے کے لیے گوداموں کی کمی ہے تمام صوبوں میں 73سالوں سے گندم کو ذخیرہ کرنے کے لیے گودام نہیں بنائے گئے بلکہ صوبوں کے محکمہ خوراک گندم خرید کر کھلے آسمان کے نیچے ذخیروں میں رکھ دیتے ہیں جس سے ہر سال لاکھوں ٹن گندم ضائع ہوجاتی ہے اگر اس کو روک لیا جائے تو ہمیں گندم درآمد کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اسی طرح جنوبی پنجاب کے صرف پانچ اضلاع میں دولاکھ ایکڑزمین پڑی ہے جسے استعمال میں لاکر دالوں کی کاشت کی جاسکتی ہے(یہ اعدادوشمار شہبازشریف حکومت کی قائم کردہ جنگلات کے لیے قائم ِکمپنی کی ویب سائٹ سے لیے گئے ہیں ان زمینوں پر مقامی وڈیرے اور بااثرافرادقابض ہیں)اسی طرح دالوں کے علاقوں کوبحال کرکے اور بلوچستان کے بہت سارے علاقے دالوں کے لیے اتنے موضوع ہیں کہ پاکستان نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے بلکہ دالیں برآمد کرسکتا ہے مگر اس کے لیے نیت کا صاف ہونا ضروری ہے کیونکہ افسرشاہی اور مافیازاس کی راہ میں روڑے اٹکائیں گے کیونکہ انہیں اجناس کو درامد کرنے سے مالی فوائد ہوتے ہیں لہذا اس کے لیے جرات دکھانی ہوگی اب دیکھنا ہے کہ عمران خان یہ جرات دکھاتے ہیں یا جسب سابق مافیازکے ہاتھوں بلیک میل ہوکر چپ سادھ کر بیٹھ جائیں گے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :