نتائج

ہفتہ 5 دسمبر 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 پچاس سال قبل7 دسمبر کو ملک میں پہلے عام انتخابات ہوئے،اور نتائج تسلیم نہیں کیے گئے، یہی سے ہمارے قومی المیے نے جنم لیا، مینڈیٹ مینڈیٹ کی آج بھی بحث جاری ہے، عوام کے ووٹ سے ملنے والا یہ مینڈیٹ کس لیے ہوتاہے؟ ملک بچانے کے لیے یا توڑنے کے لیے؟ ہمارا عمومی رویہ بن چکاہے کہ جب بھی کسی سے، کوئی بھی سوال کیا جائے تو جواب دینے کی بجائے بات کا رخ موڑنے کے لیے رد عمل میں الٹا سوال داغ دیاجاتا ہے، قومی زندگی میں ہر سطح پر یہ رویہ ہمیں مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے، آئین کہتا ہے کہ ملک میں حق حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہے، جو اللہ کے نائب کی حیثیت سے بطور حکمران اپنے فرائض انجام دیں گے، ملک میں آئین بنے آج 47 سال ہوگئے ہیں، بھٹو دور میں چھ ترامیم لائی گئیں، پھر ضیاء الحق دور میں آٹھویں ترمیم غیر جماعتی اسمبلی سے منظورکرائی گئی، اس کے بعد بھی ہر منتخب حکومت نے کوشش کی کہ ایسی ترمیم لائی جائیں جس سے ان کے اقتدار کو استحکام مل جائے، آئین تیرویں ترمیم لائی گئی جس سے صدر کے اختیارات محدود کیے گئے، پھر چودویں ترمیم لائی گئی کہ ارکان اسمبلی قابو میں رہیں، ان دنوں اٹھارویں آئینی ترمیم کا بہت ذکر ملتا ہے،یہ ترمیم ایسی تھی کہ آئینی ترامیم مرتب کرنے والی کمیٹی کے ہر رکن کو صدارتی تمغہ دیا گیا، پھر اس ترمیم میں خلاء نظر آیا تو اسے دور کرنے کے لیے انیسویں اور بیسویں ترمیم لائی گئیں، ملک کے پہلے عام انتخابات اور اس کے نتائج آج تک ہمیں یاد ہیں، یہ ہماری سیاسی تاریخ کے تلخ حقائق ہیں، اس وقت چوبیس سیاسی جماعتیں 1970 کے انتخابی میدان میں اتر ی تھیں، انتخابی مہم اس وقت ہر پارٹی کے پاس اپنا منشور اور پروگرام تھا لیکن دو جماعتیں، عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی تو ایسی تھیں جیسے انتخابی قلعہ فتح کرنے نکلی تھیں ایک جانب بھٹو تھے اور دوسری جانب مجیب، دونوں ہی ینگ تھے،جنوری 1970 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی 42 ویں سالگرہ کے دن نشتر پارک، کراچی میں ایک جلسہ عام سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا اور عوام سے کہا کہ وہ ان کی ’گول میز کانفرنس‘ ہیں، اس کے بعد وہ پنجاب آئے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ کیا اس کے بعد وہ خیبر پختونخوا (اس وقت سرحد) میں داخل ہوئے، پیپلز پارٹی نے کل 138 نشستوں میں 81 نشستیں حاصل کیں جن میں پنجاب کی 82 نشستوں سے 62 اور سندھ کی 27 نشستوں میں سے 18 نشستیں شامل تھیں،مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنے چھ نکات کو انتخابی منشور کا حصہ بنایا تھا، یہ ایک طویل انتخابی مہم تھی،7 دسمبر کو ہونے والے انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کے لئے نامزدگی کے کاغذات 14 اکتوبر کو اور اگلے دن صوبائی اسمبلیوں کے لئے جمع کروائے گئے تھے، شیخ مجیب نے مغربی پاکستان میں اپنے متعددامیدوار کھڑے کیے لیکن پیپلزپارٹی نے مشرقی پاکستان میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا مغربی پاکستان میں قومی اسمبلی کی138 نشستوں کے لیے1070 امیدواروں نے کاغذات جمع کروائے، مشرقی پاکستان سے162 نشستوں کے لیے 870 امیدوار میدان میں اترے تھے عوامی لیگ نے ہر حلقے میں اپنا امیدوار کھڑا یوں اس کے 162 امیدوار تھے،مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اتنی کامیابی حاصل نہیں کرسکی جیسی مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کو ملی تھی، عوامی لیگ مغربی پاکستان میں کوئی امیدوار کھڑا نہ کرکے بھی بڑی پارلیمانی جماعت کے طور پر سامنے آئی انتخابی نتائج کے بعد جنرل یحییٰ خان نے پارٹی کے دونوں رہنماؤں کو مبارکباد کے پیغامات بھیجے،یحییٰ خان کے لئے انتخابی نتائج خوش گوار نہیں تھے کہ انہیں ایک جائزہ کی روشنی میں بتایا گیا تھا کہ کوئی بھی پارٹی واضح برتری حاصل نہیں کرسکے گی لہذا مخلوط حکومت بنے گی یہ منظر نامہ جنرل یحییٰ خان کی اپنی اہمیت بڑھا رہا تھا مگر جب نتائج آئے تو سارے اندازے غلط ہوگئے ایک جانب پیپلزپارٹی اور دوسری جانب عوامی لیگ کا زور تھا، 300 کے ایوان میں جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر جماعتیں صرف 37 نشستوں پر کامیاب ہوسکیں، ان نتائج کے بعدصورتحال یہ تھی کہ مجیب الرحمن نے ڈھاکہ میں بیٹھ کرآئندہ کی حکومت کی ترجیحات پر حکمت عملی بنانا شروع کی، بھٹو نے جواب دیا کہ ان کی پارٹی کے تعاون کے بغیر کوئی آئین وضع کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مرکز میں حکومت چل سکتی ہے، اسی دوران یحیی خان نے وعدہ کیا کہ 120 دن کے اندر آئین تیار ہوجائے گا یا اسمبلیاں ختم کردی جائیں گی، اور 17 دسمبر 1970 کو مجیب نے اعلان کیا کہ بنگلہ دیشن بننے سے کوئی نہیں روک سکتا یحییٰ 28 دسمبر کو کراچی آئے جہاں انہوں نے بھٹو سے ملاقات کی،اگلے ہی دن یہ اعلان جاری کیا گیا کہ اسمبلی کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں ہوگا نتائج کے بعد بھٹو اور مجیب دونوں رہنماؤں نے سخت موقف اختیار کرلیا، مجیب نے کہا کہ جس نے ملنا ہے وہ ڈھاکا آئے، بھٹو نے کہا کہ جو اجلاس کے لیے ڈھاکا گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، مجیب نے 3 جنوری کو رمنا ریس کورس گراؤنڈ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا، جس میں تمام منتخب اراکین نے بنگلہ دیش سے کم پر کوئی بات نہیں کی قسم کھائی، یحیی خان 12 جنوری 1971 کو ڈھاکہ پہنچے انہوں نے شیخ مجیب سے ملاقات کی جب وہ کراچی واپس آئے تو کہا کہ مجیب اگلے وزیر اعظم ہوں گے لیکن وہ خود نہیں ہوں گے، جنرل یحییٰ خان بھٹو سے ملاقات کے لیے لاڑکانہ گئے انہیں ڈھاکہ کا دورہ کرنے اور مجیب سے بات کرنے کا مشورہ دیا، بھٹو نے انہیں چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام سمیت متعددآپشن دیے…… آپشن کیا تھے یہی کہ حکومت ملنی چاہیے…… دوسری جانب بھی آگ تھی برابر لگی ہوئی… لیکن کچھ لوگ یہ بھی تھے کہ جن کے لیے صرف پاکستان ہی آپشن تھا اور ہے، جنہوں نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کا آپشن اپنے لیے منتخب کیا وہ ملا قادر، مطیع الرحمن، میر قاسم، صلاح الدین وہ سب اپنی منزل پاچکے ہیں اور جنہوں نے اس وقت اپنے لیے ہر قیمت پر صرف حکومت کا آپشن لیا تھا ،وہ آج حکومت میں ہیں یا نہیں یہ سب خوار ہو رہے ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :