وزیراعظم کا بھارت کو دوٹوک جواب،ایک لائق تحسین قدم

بدھ 20 فروری 2019

 Mirza Zahid Baig

مرزا زاہد بیگ

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے بھارت کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے جواب میں واشگاف الفاظ میں یہ کہنا کہ اگر بھارت نے جنگ کی حماقت کی تو ہم سوچیں گے نہیں فوری جواب دیں گے ۔ پاکستان بھارت کی جانب سے ہونے والی جارحیت کے منہ توڑ جواب کے لئے پوری طرح تیار ہے ۔ بلاشبہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھارت کی گیڈر بھبکیوں کے جواب میں ان کو دن میں تارے دکھا دئیے ہیں ۔

جس کے بعد بھارت کی جانب سے مذاکرات کی حامی بھرنے کا جواب موصول ہوا ہے لیکن اس کی پاکستان کے خلاف الزامات کی رٹ میں کوئی کمی نہیں آئی ۔جبکہ انہوں نے اپنے الزامات کے ثبوت بھی پیش کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ بھارت میں آمدہ الیکشن کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی پاکستا ن کے خلاف ایک فضا پیدا کر کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہرزہ سرائی میں مصروف ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ پاکستان انڈیا کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے اور اب کی بار اس کا پالا اب کسی مصلحت پسند سیاسی وزیر اعظم سے نہیں پڑا ۔

(جاری ہے)

 
وزیر اعظم پاکستان کے دبنگ اعلان سے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ کشمیری قوم کے بھی حوصلے بلند ہوئے ہیں ۔ سرحدوں پر بھارت کی جانب سے غیر معمولی حرکات اور آئے روز سرحد پر گولہ باری سے آزادکشمیر کے سرحدی عوام شدید مشکلات سے دوچار ہیں ۔اس کے لئے ضروری تھا کہ بھارت کو اس کی زبان میں جواب دیا جائے ۔ کشمیری عوام جو طویل عرصہ سے ظلم و جبر کی چکی میں پس رہے ہیں ۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں وہاں کے مسلمان جو بھارتی فورسز کے ہاتھوں آئے روز نشانہ بن رہے ہیں اور لائن آف کنٹرول کے قریب بسنے والے عوام بھارتی سیکورٹی فورسز کی گولہ بازی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں وہاں کے باسیوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے ۔ وہاں کے مکینوں کو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ کون سی گولی ان کے باہر نکلنے پر ان کا انتظار کر رہی ہے ۔

 پلوامہ واقعہ کے بعد بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف جس تیز ی سے محاذ آرائی کرتے ہوئے بھارتی ارباب اختیار سے پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے ایک ماحول بنانے کی کوشش کی ہے اس سے ان کے مکروہ عزائم کا پتہ چلتا ہے ۔ پاکستان میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد کی وجہ سے کچھ دن کی خاموشی کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے جس خوبصورت انداز میں بھارتی سوچ کا جواب دیا ہے وہ نہ صرف لائق تحسین ہے بلکہ دوٹوک حکمت عملی پر عوامی حلقوں میں انہیں بھرپور پذیرائی بھی حاصل ہو رہی ہے ۔

مسئلہ کشمیر جو طویل عرصے سے سرد خانے میں ہے اس پر پاکستان کی جانب سے اپنائی جانے والی دو ٹوک حکمت عملی سے ہی اس مسئلے کے حل کے لئے پیش قدمی ممکن ہے کیونکہ سابقہ حکومتوں کے معذرت خواہانہ رویے ناکام خارجہ پالیسیوں کے باعث کشمیری عوام تا حال اپنے حق خود ارادیت کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں ۔
 موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح عمران خان نے بھارت کے رویے کے جواب میں شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے اسی طرح مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھی دوٹوک موقف اپنایا جائے ۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک حریت جس کی بھاگ دوڑ اب وہاں کے نوجوانوں نے سنبھال لی ہے وہ بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی ممالک بھی آزادی کی اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں ۔ اسلامی ممالک کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لئے اور ریاست جموں و کشمیر کے 22کروڑ انسانوں کی آزادی کے لئے وہ بھی اپنا کردار اداکریں ۔

 اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کر رکھا ہے لیکن حق خود ارادیت کے لئے کشمیریوں کو موقع فراہم کرنے میں لیت و لعل کی وجہ سے کشمیری قوم بھارتی مظالم کی چکی میں پس رہی ہے ۔ اگر کشمیر کی آزادی کے لئے فوری طور پر کوئی فیصلہ ممکن نہیں ہے تو اقوام متحدہ کو کچھ عرصہ کے لئے اس خطہ کو اپنی تحویل میں لے کرکشمیریوں کو اپنے غیر جابندار حق خود ارادیت کا موقع فراہم کرنا چاہیئے۔

مقبوضہ کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے قائدین سید علی گیلانی ۔ میرواعظ عمر فاروق ۔ یاسین ملک اور دیگر قائدین کی سیکورٹی واپس لئے جانے کا بھارتی اقدام بھی نہایت قابل مذمت ہے ۔ کشمیری نوجوانوں کی بڑی تعداد نے ذاتی طور پر ان کو سیکورٹی فراہم کرنے کی رضاکارانہ پیش کش کر دی ہے۔ کشمیر کی آزادی اور خطہ میں امن کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ اس حوالے سے ایک مربوط منصوبہ بندی کرتے ہوئے حکمت عملی مرتب کی جائے ۔ کشمیر کے حوالے سے دوٹوک پالیسی اپنانے سے نہ صرف عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا بلکہ آزادی کی راہیں بھی کھلنے میں مدد ملے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :