کراچی ایک مرتبہ پھر ڈوب گیا

بدھ 29 جولائی 2020

Mubashir Mir

مبشر میر

شہر کراچی اپنی تمام تر اہمیت کے لحاظ سے پورے ملک کیلئے بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم خبروں میں رہتا ہے، میڈیا آئے روز اس میں گورننس کے مسائل اجاگر کرنے میں پیش پیش ہے، سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ آواز بھی اسی شہر کے لوگ اٹھارہے ہیں۔ لیکن حیرت ہے ، سندھ حکومت پر جو اس کی گورننس کو مزید دا پر لگارہی ہے۔
 چند دن پہلے مولانا فضل الرحمن نے ، بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور اس کے چند دن بعد ان کے چھوٹے بھائی ضیاالرحمن کو سندھ حکومت نے ڈسٹرکٹ سینٹرل کراچی میں ڈپٹی کمشنر تعینات کرنے کے احکامات جاری کردیئے، مولانا فضل الرحمن کے بھائی کی سول سروسز میں شمولیت کی داستان سن کر ہر کوئی دنگ رہ گیا، صوبائی وزیر ناصر شاہ نے تنقید پر ردعمل یہ دیا کہ ضیاالرحمن کا مولانا فضل الرحمن کا بھائی ہونا اس کا کوئی جرم نہیں اور سندھ حکومت نے وضاحت دی کہ ضیاالرحمن کو وفاق نے ڈیپوٹیشن پر سندھ بھجوایا ہے، لیکن وفاق نے اسے ڈپٹی کمشنر لگانے کا تو ہرگز نہیں کہا ہوگا؟
سندھ حکومت کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اپنے سیاسی اتحادیوں میں مولانا فضل الرحمن کو خصوصی اہمیت دیتی ہے، اس لیے ان کی اس خواہش کو پوراکرنا ان کیلئے چنداں مشکل نہیں لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ ایسے تجربات پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں کیے جاتے ہیں جو پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

وہاں ایسے لوگوں کو تعینات کرنا جن کے کیریئر پر سوالیہ نشان نمایاں ہے۔
 ابھی حال ہی میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے شہرکراچی کی جو صورتحال دیکھی گئی اس پر ہر سیاسی جماعت جو کراچی کے ووٹرز کو سبز باغ دکھاتی آئی ہے، اسے شرمندہ ہونا چاہیے ، بارشوں سے سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کررہی تھیں ، صاف پانی کی کم یابی پہلے ہی زبان زدعام ہے، لیکن بارش کے بعد سیوریج اور بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا اور پانچ افراد لقمہ اجل بن گئے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے وزراایسی جگہوں پر کھڑے ہو کر اپنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دکھا رہے تھے جہاں صورتحال نارمل تھی۔ اس کے ساتھ عوام الناس اور الیکٹرونک میڈیا اصل صورتحال پر ماتم کررہا تھا۔
اس پر طرہ یہ کہ جب رات کے وقت لوگوں کے گھروں میں پانی بھرا ہوا تھا اور سینکڑوں نہیں ہزاروں گھر بجلی سے محروم تھے، پانی میں پھنسے ہوئے لوگ گھروں کو جانہیں پارہے تھے، تب پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کے اہم لوگ سابق صدر آصف علی زرداری کی 65ویں سالگرہ کا کیک کاٹ رہے تھے، جس پر انہیں عوام کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

ایک بات نے اس سے بھی زیادہ مایوس کیا کہ کئی ٹی وی چینلز پر پیپلز پارٹی کے لوگ ناقص انتظامات پر معذرت کرنے کی بجائے سب اچھا ہے کی خبر دے رہے تھے۔
کراچی کا میئر وسیم اختر اپنے آپ کو اس حوالے سے بری الذمہ قرار دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہا تھا ، اگر چہ اب ان کا ٹائم پورا ہونے کو ہے، لیکن انہوں نے اپنے چار سال کا عرصہ میئرشپ اسی طرح گذارا ہے۔

سیاسی پنڈت اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اسے سازشی تھیوری ہی تصور کیا جائے لیکن کراچی کے حالات خراب کرنے میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی برابر کی شریک ہیں، کیونکہ یہ سندھ سے تحریک انصاف کا بستر گول کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
تحریک انصاف نئے بلدیاتی الیکشن پر نظر لگائے ہوئے ہے، چونکہ بلدیاتی الیکشن کروانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے، اس لیے پیپلز پارٹی اسے ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرسکتی ہے۔

پہلے ہی یہ عندیہ دیا جارہا ہے کہ سندھ حکومت کم از کم ایک سال بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال الیکشن میں رکاوٹ ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سر توڑ کوشش کررہے ہیں کہ وہ آل پارٹیز کانفرنس میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی شرکت کو یقینی بناسکیں لیکن شہباز شریف کے ذرائع سے یہ کہا گیا ہے کہ اگر ڈاکٹرز نے انہیں اجازت دی تو پھر سوچا جاسکتا ہے۔

یہ بات تو سیاست کا ہر طالبعلم بھی سمجھتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کو مشکل وقت دینے پر آمادہ ہے، لیکن بلاول بھٹو زرداری کو ایسی کانفرنس کی قیادت کرنے کا موقع ہرگز نہیں دے گی۔
بلاول بھٹو زرداری یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہیں کہ آئندہ کیلئے ملک کے اہم ترین عہدے کیلئے وہ موزوں ترین امیدوار ہیں، اعتزاز حسن پیپلز پارٹی کے سینئر ترین رہنما نے ایک انٹرویو میں دعوی کیا ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان خفیہ انڈراسٹینڈنگ موجود ہے جس کے تحت مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے کی گارنٹی دے رکھی ہے۔

آخر یہ گارنٹی کس کو دی گئی ہے، اگر تاریخی طر پر دیکھا جائے تو صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں این آر او کے بعد 2008میں پیپلز پارٹی کو پانچ سال پورے کرنے اور 2013میں مسلم لیگ ن کو مدت اقتدار مکمل کرنے کی واقعی گارنٹی دی گئی تھی۔ مقتدر حلقوں کی طرف سے اس بات کی تائید حاصل تھی کہ دونوں پارٹیاں اپنی اپنی باری مکمل کریں گی۔ یوں اقتدار عوام کے نمائندے ووٹ سے حاصل نہیں کرتے بلکہ اس کی بندر بانٹ کہیں اور ہوتی ہے۔


احتساب کا نعرہ بھی اسی وجہ سے کھوکھلا دکھائی دیتا ہے، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو نیب سے ریفرنس کا سامنا ہوسکتا ہے، کیونکہ جعلی بینک اکا نٹس کے حوالے سے ان پر تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں۔ اگر یہ ریفرنس دائر بھی ہوگیا لیکن انہیں اسی وجہ سے کوئی خوف نہیں ہوگا کہ جو سیاسی نظام چلایا جارہا ہے، اس میں سب کچھ طے شدہ ہے۔ اب چونکہ تینوں بڑی پارٹیوں کے لوگ کسی نہ کسی مقدمہ میں پھنس چکے ہیں، اسی وجہ سے نیب قوانین کو تبدیل کرنے کی بات ہورہی ہے۔


الیکشن کے دو برس مکمل ہونے پر عوام موجودہ سیاسی نظام کو زیادہ تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کہ اگر اس میں مسائل کا حل موجود نہیں تو پھر اسے کیوں چلایا جارہا ہے۔
کراچی میں نامور بزرگ دانشور اور شاعر، پروفیسر عنایت علی کا انتقال ہوگیا، مزاحیہ شاعری میں انہوں نے بہت نام کمایا، شہر کراچی کے ادبی حلقوں نے ان کی موت کو اردو ادب کا بہت نقصان قرار دیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :