پاکستان میں شخصیت پرستی

بدھ 12 اگست 2020

Muhammad Riaz

محمد ریاض

شخصیت پرستی کے لغوی معنی کسی شخصیت کی پرستش، پوجا کرناہے۔جبکہ عام زبان میں کسی شخص کی محبت میں سبکو پیچھے چھوڑ دینا تصور کیا جاسکتا ہے ۔ جو شخص اس بیماری یا وہم یا محبت یا عشق کا شکار ہوتا ہے وہ اپنے محبوب کی ہر ادا، ہر طرزعمل، ہرحرکت کو عزت، محبت اور عشق کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور یہاں تک کے اسکے ہر غلط قول و فعل کو بھی صحیح ثابت کرنے کے لئے مختلف قسم کے حیلے اور جواز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔


پاکستان میں شخصیت پرستی کی وباء کوئی نئی نہیں ہے۔ یہاں بھی شخصیت پرستی عروج پر دیکھنے میں ملتی ہے۔پاکستان میں شخصیت پرستی مذہبی بنیادوں پر بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور اب تو سیاسی بنیادوں پر ہونے والی شخصیت پرستی نے مذہبی شخصیت پرستی کو بھی مات دے دی ہے۔

(جاری ہے)

سیاسی طور پر ایوب خان ، بھٹوازم ،ضیاء الحق، نواز شریف، عمران خان اور باچا خان کے ماننے والوں کی مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں۔

کوئی اپنے مسلک، مذہب کے عالم دین کے ساتھ اس حد تک منسلک ہے کہ اسکو اپنے اس عالم دین کے علاوہ سب میں بہت سی برائیاں نظر آتی ہیں۔کچھ کم علم محب تو اپنے محبوب کے علاوہ دوسروں پر کفر، بدعتی،مشرک کے بلند و بالا فتوے جاری کربیٹھتے ہیں۔بعض اوقات وہ کسی حق بات،قران و سنت اور صحیح احادیث کے مقابلے میں اپنے عالم دین کے فتوے اور اس عالم کی تصانیف کو مقدم رکھتے ہیں۔


بظاہر تو پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور اسکے ماننے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن اگر تعصب کا چشمہ اتار کر دیکھا جائے تو ہم مسلمان کم مگرسنی، حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی، وھابی،اہلحدیث، توحیدی، تبلیغی،چشتی، سہروردی، سلفی، سیفی، گیارہویں والے وغیرہ وغیرہ زیادہ ہیں۔ ہر کوئی اپنے آپکو حق پر اور دوسرے مسلمانوں کو مشرک، بدعتی، خارجی، رافضی، گستاخ، بدمذہب زیادہ سمجھتا ہے۔

پاکستان میں مسلمانوں کی زیادہ تر تعداد اپنے دوسرے مسلک کے اماموں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتی کیونکہ انہیں یہی سیکھایا اور بتایا گیا ہے کہ دوسرے مسلک والوں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ چھوٹے چھوٹے اختلافی معاملات پر فتوے جاری کر دیتے ہیں اور لڑنے لڑانے پر آجاتے ہیں۔ ان تمام برائیوں کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ اپنے مسلک، مذہب کے عالم دین کو حرف آخر ماننا اور جاننا ہے۔

اور قرآن و سنت کی پیروی کی بجائے اپنے عالم دین کی ہر کہی ہوئی بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلینا ہے۔اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کی وجوہات میں اک وجہ یہ بھی ہے ہم نے مذہب اسلام کو اپنے اپنے مولانا پر چھوڑ دیا ہے۔ ہم نہ خود اسلام کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی گزرانے کے لئے اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم اپنے ہر بنیادی ضروریات زندگی جیسا کہ اک مسلمان کا نکاح سے لے کر بچہ کی پیدائش، بچہ کی دینی تعلیم و تربیت،اپنے پیاروں کی نمازہ جنازہ ادائیگی کے لئے اپنے اپنے مذہبی رہنما کے محتاج بن چکے ہیں۔حالانکہ ان تمام امور کے مسائل کا سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ہر مسلمان پرخود لازم ہے۔
کوئی اپنے پیرومرشد کے ساتھ اس حد تک منسلک اوراسکی محبت میں اندھا ، بہرا ہو کر پیر و مرشد کو موفوق الفطرت شخصیت سمجھتے ہوئے خود شرک کا مرتکب ہو جاتاہے ۔

جسکی تازہ ترین مثال سرگردھا کے قریب اک درگاہ پر اپنے پیر و مرشد کے حکم پر اپنی گردنوں کو پیر ومرشد کے آگے پیش کرکے اپنے آپکو قتل کروا بیٹھنا۔بہت ساری ویڈیوز اس وقت سوشل میڈیا کے ریکارڈ پر ہیں جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ پیرومرشد ننگی حالت میں بیٹھے ہوتے ہیں او ر مریدین جس میں بلاتفریق مردو خواتین اس ننگ ترنگ پیر و مرشد کے سامنے گھٹنے جھکا کر اپنی دلی منتیں اور مرادوں کو پورا کرنے کی آس لگا کر بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں۔

مزارات اور درگاہوں پر عرس کے نام پر میلے ٹھیلے اور رقص ، دھمالوں کی محفلیں جنکا مذہب اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے اسقدر پروان چڑھ چکی ہیں کہ اگر کوئی عام مسلمان اپنے کسی دوست ، احباب یا رشتہ داروں کے سامنے ان خرافات کا تنقیدی ذکر کرے تو اس تنقید کرنے والے کو فورا وہابی وہابی پکار کر بے عزت کیا جاتا ہے۔ پیرومرشد کی محبت میں ہم اتنے اندھے ہو چکے ہوتے ہیں کہ اپنے پیرومرشد کے حکم پر ہر غلط اور غیر شرعی کام کرنے کو بھی اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔

استغفراللہ۔
 جبکہ بحیثیت اک مسلمان کے ہمیں قرآن مجید و فرقان حمید میں سب بڑی تلقین و درس یہی دیا گیا ہے کہ ”اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں (سورہ الفاتحہ)“
کوئی اپنے سیاسی رہنما کو اتنی اہمیت دیتا ہے کہ اسکے سیاہ وسفید قول و فعل پر آنکھیں بند کرکے لبیک کی پکار دیتا ہے۔جو جتنا زیادہ جھوٹ بولے ، جو جتنے زیادہ یوٹرن مارے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر تصور کیا جاتا ہے۔

سیاسی رہنما کی شخصیت پرستی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنی رشتہ داریاں، دوستیاں اور قرابت داریاں بھول جاتے ہیں اور اس شخصیت کی محبت میں گالی گلوچ، مارکٹارئی پر آجاتے ہیں۔سوشل میڈیا آنے کے بعد شخصیت پرستی کی لعنت کھل کر سامنے آچکی ہے۔یہاں کچھ سیاسی رہنماؤں کے جھوٹے نعرے اور دعوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جن نعروں اور دعووں کے پیچھے لگ کر ہم اپنے دوستیاں، رشتہ داریاں اور باہمی محبتوں کا قتل عام کردیتے ہیں۔


”اگر چھ ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نا کیا تو میرا نام بدل دینا، اگر زرداری کو سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام بدل دینا، اقتدار میں آکے کر بلٹ ٹرین چلائیں گے، اقتدار میں آکر پچاس لاکھ گھر بنائیں گے، اقتدار میں آکر ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، اقتدار میں آکر سب سے زیادہ تعلیم کے لئے بجٹ میں پیسہ رکھیں گے، اقتدار میں آکرڈالر کو نتھ ڈال دیں گے، آپکا وزیراعظم آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی بجائے خودکشی کرلے گا، نوے روز میں ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردوں گا، جب مہنگائی بھڑتی ہے تو سمجھو آپکا وزیراعظم چور ہے، گورنر ھاؤس پر بلڈوزر چلوادوں گا، پروٹوکول نہیں لوں گا، وزیراعظم ھاؤس کو یونیورسٹی بنوا دوں گا، بیرون ملک دوروں پر خصوصی ہوائی جہاز استعمال نہیں کروں گا وغیر ہ وغیرہ “
 آج ہر روز سوشل میڈیا پر ہر سیاسی جماعت کے جیالے، متوالے اور ٹائیگرز اپنی اپنی سیاسی شخصیت پرستی کے تابع اپنے بھائیوں ، دوستوں، رشتہ داروں ، آفس میں کام کرنے والوں کے ساتھ منہ ماری کررہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو بات گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے۔

آج کی تاریخ میں دیکھ لیں تو سابقہ حکومت کی جی ڈی پی گروتھ جوکہ پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد چھوڑ کر گئی جب نیا پاکستان والوں کی حکومت آئی اسکے بعد آج جی ڈی پی گروتھ ریٹ منفی صفر اعشاریہ چار فیصد ہوچکی ہے مگر نیاپاکستان کے اکژانصافی ٹائیگرز آج بھی شخصیت پرستی کرتے ہوئے دوسری سیاسی جماعتوں کے اپنے دوستوں ، رشتہ داروں اور اپنے آفس کولیگز کے ساتھ منہ ماری اور گالی گلوچ کر رہے ہوتے ہیں۔

سب سے مزیدار اورمزاق والی بات یہ ہے :
پرانے پاکستان میں ملک کے تمام مسائل اور مشکلات ، مصیبتوں کی ذمہ دار حکومت وقت ہوا کرتی تھی اور سیاسی پارٹی کا حکمران ہوا کرتا تھا
نئے پاکستان میں ملک کے تمام مسائل اور مشکلات ، مصیبتوں کی ذمہ دارحکومت وقت یا سیاسی پارٹی کا حکمران نہیں بلکہ ان تمام کی ذمہ دار مافیا، اپوزیشن، بیوروکریسی، ضلعی انتظامیہ ہے۔


نئے پاکستان کے ٹائیگرز کی درج بالا سوچ ثابت کرتی ہے کہ یہ شخصیت پرستی کا کتنا شکار ہیں۔انصافی ٹائیگرز ہر روز درج بالا سوچ و شخصیت پرستی کے تابع سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی کر رہے ہوتے ہیں۔دوسری طرف اپوزیشن پارٹی سے سیاسی ہمدریاں رکھنے والے جیالے، متوالے حکومت وقت پر بعض اوقات بے جا تنقید کررہے ہوتے ہیں۔
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا یہ ہم پر لازم ہے کہ جس کے ساتھ ہماری سیاسی، مذہبی وابستگیاں ہیں انکے ہر سیاہ و سفید قول و فعل کی آنکھیں بند کرکے تقلید کرنی ہے؟ جن شخصیات کی ہم شخصیت پرستی کرتے ہیں کیا وہ انسان نہیں؟ اگر وہ انسان ہیں تو کیا یہ انسان غلطی ، کوتاہی نہیں کر سکتے؟
مذہب اسلام اور جمہوری روایات و اقدار میں ہر غلط انسان پر تنقید ہوسکتی ہے اور مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ہر انسان کو سزا بھی دی جاسکتی ہے۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اپنے خودساختہ دائروں سے اپنے آپکوباہر نکالیں اور تمام مذہبی مسالک کے لوگوں اور مخالف سیاسی پارٹیوں کے لئے اپنے دلوں کو کشادہ کریں۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور سب مسلمان ہیں ہم سب کو پاکستان کے لئے سوچنا چاہئے ناکہ صرف اور اپنے اپنے مسالک اور سیاسی پارٹیوں کے بارے میں ۔
آئیں ہم اپنے اپنے سیاسی، مذہبی خود ساختہ بتوں کو خود اپنے ہاتھوں سے توڑ دیں تاکہ ہم ان بتوں کی شخصیت پرستی سے بچ سکیں۔
پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :