کاش عمران خان یوٹرن نہ لیتے

جمعرات 8 اکتوبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کے کامیاب ترین ریفارمر اور مصلح تھے۔ جس نے بدوؤں کے معاشرے کو تاریکیوں سے نکالا کر روشنیوں کی راہ پر گامزن کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے معاشرے میں خودداری کو پروان چڑھایا۔ کیونکہ جب تک کسی قوم یا شخص میں خود داری کا پہلو غالب نہیں آتا، اس وقت تک وہ قوم یا شخص ترقی نہیں کر سکتا۔

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"جو شخص مانگنے کی عادت ڈال لے اللہ تعالیٰ اس پر محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔"
یہ محض ایک فرمان نہیں بلکہ باعزت زندگی گزارنے کا بہترین فارمولا ہے۔ جو انسان بھی اس پر عمل کرے گا۔
وہ در در کی ٹھوکریں کھانے سے محفوظ رہے گا۔ اور اسے چین اور دلی سکون نصیب ہو گا۔

(جاری ہے)

یہی حال کسی ملک اور قوم کا ہوتا ہے۔

آج تک کوئی ملک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لے کر حقیقی  معاشی ترقی نہیں کر سکا ہے۔ تیسری دنیا کے تمام ممالک ان اداروں کے مقروض ہیں۔ ان ممالک کی خارجہ پالیسی سے لے کر ملکی سلامتی تک کے فیصلے آئی ایم ایف اور دوسرے مالی اداروں کی ایماء پر ہوتے ہیں۔ وہ ممالک آج ستر دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آئی ایم ایف سے قرض لے رہے ہیں۔ اور اگر ان ممالک نے مستقبل میں اپنے بل بوتے پر کوئی پالیسی مرتب نہ کی تو وہ آئندہ سترسال بھی ان اداروں سے قرض لیتے رہیں گے۔


دوسری جنگ عظیم کے بعد دو ممالک سنگاپور اور ملائشیا نے مثالی معاشی اور سماجی ترقی کی ہے۔ یہ ممالک جہالت اور غربت کی اندھیر نگری تھے۔ لیکن ان ممالک کو خوش قسمتی سے خوددار لیڈر مل گئے۔ جنھوں نے غیروں کے سامنے اپنے کشکول توڑ ڈالے۔ اور اپنے وسائل سے ترقی کرنے کی منصوبہ بندی بنائی اور اس میں کامیاب رہے۔
سنگاپور کے سربراہ لی یو آن نے ایک چھوٹے سے جزیرہ نما ملک کو ایشیاء کا ترقی یافتہ اور معاشی مرکز بنا ڈالا۔

آج دنیا کے تمام بڑی کمپینوں کے صدر دفتر سنگاپور میں ہیں۔ اور آج لوگ وہاں کا ویزہ حاصل کرنے کو ترستے ہیں۔
ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالا۔ انھوں نے تعلیم، صحت اور روزگار کو اپنی اولین ترجیح بنایا اور کچھ عرصہ میں ہی ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہو گیا۔ انھوں نے کسی فاران فنڈنگ سے ترقی نہیں کی۔ انھوں نے کسی کےلئے کرائے پر کوئی جنگ بھی نہیں لڑی۔

اور یہ کسی آئی ایم ایف کے سامنے اپنا کشکول بھی نہیں اٹھاتے۔ ملائشیا نے اپنے وسائل اور بہتر حکمت عملی سے ترقی کی ہے۔
ملائشیا نے پہلی بار 1985ء میں گاڑیاں بنانے کا کارخانہ لگایا۔ لیکن لوگ مقامی کارخانے کی گاڑی استعمال کرنے سے کترانے لگے۔ مہاتیر محمد نے جب صورت حال دیکھی، کہ لوگ گاڑی خریدنے میں انٹرسٹ نہیں دیکھا رہے۔ تو یہ  کارخانہ گئے اور خود گاڑی خرید اور اس کو اپنے آفس کےلئے استعمال کرنا شروع کردیا۔

جس سے عوام میں اعتماد بڑھا اور آج دنیا ملائشیا سے کاریں امپورٹ کرتی ہے۔ 1989ء میں مہاتیر محمد کو دل کا دورہ پڑا۔ اس کے سٹاف نے انھیں امریکہ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن مہاتیر نے انکار کر دیا۔ اور ملک میں علاج کرانے کو ترجیع دی اور اللہ نے صحت یابی عطاء فرمائی اور یہ تندرست ہو گئے۔ جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کا کانفیڈنس مقامی ڈاکٹروں پر بڑھا۔

اور لوگ بیرون ملک جانے کی بجائے ملک میں علاج کرانے کو ترجیع دینے لگے۔ نہ صرف یہ بلکہ آج سالانہ پانچ ملین کے قریب لوگ ملائشیا علاج کرانے کی غرض سے جاتے ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کا تین بار وزیراعظم رہنا والا شخص کوئی ایسا ہپستال نہ بنا سکا۔ جہاں اس کا اپنا علاج ہو سکے۔ آج بھی ہمارے بڑے سیاست دانوں کے علان بیرون ملک ہوتے ہیں۔

یہ بڑی بڑی کاریں بیرون ملک سے منگواتے ہیں۔ ان کی اولادیں دنیا کے بڑے مہنگے ترین اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ ان کی جائیدادیں باہر کے ممالک میں ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق ملک سے صرف اتنا ہے، کرپشن اور لوٹ مار کا پیسہ جمع کر کے باہر بینکوں میں محفوظ کرنا ہے۔ جو ان لوگوں کی عیش پرستی کےلئے استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ ملک کا حال یہ ہے۔ لاکھوں بچے سکول ہی نہیں جاتے۔

ہسپتالوں میں کتے کاٹنے کی ویکسین دستیاب نہیں، لوگوں کو پینے کےلئے صاف پانی میسر نہیں۔ شہر گندگی کا ڈھیر ہیں۔ اور بے روزگاری عروج پر ہے۔
نواز شریف آج جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو کی بات کرتے ہیں۔ جب وہ مفرور ہیں۔ وہ عدالت سے سزا یافتہ ہیں۔ ان کو جمہوریت اس وقت یاد کیوں نہ آئی، جب یہ تین بار وزیراعظم رہے۔ جو لوگ حقیقی تبدیلی لانے کے خوگر ہوتے ہیں ۔

وہ آمریت کے دور میں بھی جمہوریت کو بحال کروا لیتے ہیں۔
جنرل ارشاد بنگلادیش کے آمر صدر تھے۔ جب اس کی نااہلی اور اقرا پروری عروج پر ہوئی تو تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئیں۔ عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد اور بی این پی کی قائد بیگم خالدہ ضیاء نے جنرل مخالف تحریک کا اعلان کردیا۔ اور عوام کو سڑکوں پر لے آئیں۔  6 دسمبر 1990ء ڈھاکہ کی سڑکوں پر عوام کا سمندر آمڈ آیا۔

جس سے ہمیشہ کےلئے آمریت کا خاتمہ ہوگیا۔ اور بنگلادیش میں آج جمہوریت مضبوط ہے۔ اور عسکری ادارہ اپنی ذمہ داریاں احسن انداز سے نبھا رہا ہے۔
ملک کی ترقی حالات پر منحصر نہیں ہوتی، بلکہ اچھا لیڈر اپنی قیادت سے حالات کو بدل دیتا ہے۔ ہمارے ملک کے حالات اس وقت تک نہیں بدل سکتے، جب تک ہم میں خود داری نہیں آتی۔ جب تک ہم آئی ایم اے کے آگے اپنا کشکول لے کر جاتے رہیں گے۔

یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ کاش عمران خان اپنے وعدے پر قائم رہتے۔ اور ہوٹرن نہ لیتے۔ اور یہ آئی ایم اے سے قرضے نہ لیتے۔ ان کے سامنے اپنا کشکول نہ پھیلتے۔ اور دوسرے پیش روؤں کی اس روش کو نہ اپناتے تو آج ملک میں کافی بہتری ہوتی۔ انھوں نے قرضے بھی لے لیے۔ اور مہنگی بھی کنڑول نہ کر سکے۔
جب تک ہم اپنا کشکول پھیلاتے رہیں گے۔ ٹھوکریں ہمارا مقدر رہیں گی۔ ہم دھتکارے جاتے رہیں گے۔ اور کسی کو ہم پر ترس نہیں آئے گا۔ ہمیں اپنے  کشکول کو توڑنا ہو گا۔ کب تک ہم دوسروں کے ٹکڑوں پر پلتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :