آئی ایم ایف کے قرضے اور حکمرانوں کی عیاشیاں

جمعہ 24 مئی 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

پاکستان بد ترین معاشی بحران کے دور سے گز ررہا ہے۔ 10ماہ کی پی ٹی آئی حکومت مسائل کے گرداب میں بُری طرح پھنس چکی ہے۔ تبدیلی کے نعرے اور عوام کو دکھائے گئے سبز باغ کپتان عمران خان کے لیے درد سر بن چکے ہیں۔ 10ماہ کی کارکردگی نے یہ پول کھو ل دیا ہے کہ کپتان کی ٹیم نااہل اور ناتجربہ ہے۔ اِس میں ساراقصور کپتان کا نہیں بلکہ کوچ اور سفارشی کھلاڑیوں کا بھی ہے ۔

کپتان کے بیشتر کھلاڑی میدانِ سیاست کی سابق حکومتی ٹیموں کے بھگوڑے اور نااہل کھلاڑی ہیں۔کو چ کا انتخابِ ٹیم کپتان کے لیے باعث بدنامی بن گیا ہے۔
ڈالر کے درجہ جات بلند ہونے اور سٹاک ایکس چینج کے گرتے انڈکس کے بارے میں سوشل میڈیا پر خوب مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ افطار پارٹی ڈپلومیسی کے بعدکرپشن کے شکنجے میں گرفتار میاں نواز شریف اور متوقع گرفتار ہونے والے آصف علی زرداری کے جانشینوں مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری نے عید کے بعد حکومت گرانے کا طبل بجا دیا ہے۔

(جاری ہے)

موجودہ حکومت اِس وقت تین محاذوں پر بقا کی جنگ لڑی رہی ہے۔ پہلا اور سخت محاذ تبدیلی کے نام پر دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر کا ہے۔ دوسرا محاذ سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کی ہروز بدلتی سیاسی شطرنج کی چالیں ہیں اور تیسر امحاذ 72سالہ پرانے معاشی اور حکومتی انتظامی مسائل کا ہے۔
پوری قوم نے انٹر نیشنل مانٹیری فنڈ( آئی ایم ایف )کے ساتھ معاہدہ پر شور مچا رکھا ہے ۔

حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بے شک اقتدار سے قبل عمران خان نے آئی ایم ایف کے بارے میں جو تقریریں میڈیاپر کی تھیں وہی تقریریں اب سوالیہ نشان بن کر کپتان کے سامنے آکھڑی ہوئیں ہیں۔ جس کا جواب بظاہر ممکن نہیں ہیں۔ مگر اِسی تصویر کے دوسرے رُخ کا اگر طاہرانہ جائزہ لیں توقوم کو عمران خان پر تنقید کرنے سے قبل کچھ تو شرم آنی چاہیے کہ اب تک وہ کیوں سوتی رہی؟۔

یہ ملک ہم سب کا ہے ،ہمارے بچوں کا ہے۔ ہماری قبریں اِسی دھرتی پر ہیں۔ پھر 72سالوں سے یہ قوم کیوں ملک کو لوٹتا تو دیکھتی رہی مگر خاموش رہی؟۔ یہی شور، احتساب اور تنقید اگر سابقہ حکومتوں کے وقت کر لی جاتی تو آج یوں قوم کو معاشی بحران کا سامنہ نہ کرنا پڑتا۔
 آئی ایم ایف بُرا ادارہ نہیں ۔ برُے ہمارے سابق سارے حکمران تھے۔ جنہوں نے آئی ایم ایف سے امداد کے نام پر قرضہ لیا اور پھر نجانے کہاں اور کن کن عیاشیو ں پر خرچ کر ڈالا۔

مقروض قوم کے حکمرانوں نے جس شاہی انداز میں اب تک حکومت کی ہے آج کا معاشی بحران اور ڈالر کی اُڑان اُسی خر مستی کا نتیجہ ہے۔
1930میں دُنیا بھر میں معاشی بحران آیا۔ بڑے بڑے ممالک کے ماہر ین معاشیات کے ہوش اُڑ کر رہ گئے۔ اِس معاشی بحران سے سبق سیکھا گیا اور ایک پلیٹ فارم بنانے کا سوچا گیا۔ یکم ستمبر 1937کو دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی جس کا اختتام2ستمبر 1945کو ہوا ہے۔

اِسی دوران جولائی 1944کو Harry Dexter Whiteکی کاوشوں کی بناپر بریٹن ووڈ امریکہ میں 44ممالک کے نمائندگان کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی ۔جس میں آئی ایم ایف کی بنیاد ڈالی گئی۔ بعد از جنگ عظیم دوم کے دسمبر 1945سے یہ تنظیم فعال بھی ہوگئی۔ اِس ادارہ کا مقصد غریب ممالک اور معاشی بحرانوں سے متاثرہ ممالک کی مالی امداد کرنا ہے۔ 11جولائی 1950کو پاکستان اِس کا ممبر بنا اور آج تک ممبر ہے۔

اب تک پاکستان 21مرتبہ اِس ادارہ سے مختلف نوعیت کے قرض لے چکا ہے۔
پہلی مرتبہ 25ملین ڈالر کا قرض 8دسمبر 1958کوصدر ایوب خان نے لیا ۔ یہ قرض منظورتو ہوا مگر لیا نہ گیا۔ دوسری مرتبہ 16مارچ 1965کو پھر صدر ایو ب خان نے 37.5ملین ڈالر کا معاہدہ کیا اور قرض بھی لیا ۔ تیسری مرتبہ 75ملین ڈالر کا قرض بھی ایوب خان نے مورخہ 17اکتوبر 1968کو لیا ۔چوتھی مرتبہ 18مئی 1972کو سانحہ قیام بنگلہ دیش کے بعد صدر ذولفقار علی بھٹو نے 84ملین ڈالرکا قرض لیا۔

پانچویں مرتبہ 11 اگست 1973کو بھی صدر ذولفقار علی بھٹو نے 75ملین ڈالر کا قرض لیا۔ چھٹی مرتبہ 11نومبر 1974کو وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے 75ملین ڈالرکا قرض لیا۔7ویں مرتبہ 9مارچ1977کو پھر وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے 80ملین ڈالر کا قرض لیا۔8ویں مرتبہ فوجی آمر ضیاء الحق نے 24نومبر 1980کو 349ملین ڈالر کا قرض لیا۔9ویں مرتبہ بھی فوجی آمر ضیا ء الحق نے 2دسمبر 1981کو 730ملین ڈالر کا قرض لیا۔

10ویں اور11ویں مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 28دسمبر 1988کو دو قسم SBAاورSAF قرضے بالتر تیب بمالیت 194.5 ملین ڈالر اور 382.4 ملین ڈالرکے قرضے لیے۔ 12ویں مرتبہ نگران وزیر اعظم معین احمد قریشی نے 16ستمبر 1993کو 88ملین ڈالر کا قرض لیا۔13ویں اور14ویں مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں22فروری 1994کو پھر دوقسم EFFاور ECFقرضے بالترتیب 123.2ملین ڈالر اور 172.2ملین ڈالر کے قرضے لیے۔

15ویں مرتبہ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو نے 13دسمبر 1995کو294.7ملین ڈالر کا قرض لیا۔ 16ویں اور17ویں مرتبہ 20اکتوبر 1997کو میاں نواز شریف نے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح دو قسم ECFاور EFFبالترتیب بمالیت 265.4ملین ڈالر اور 113.7ملین ڈالرکے قرض لیے۔18ویں مرتبہ فوجی آمر صدر پرویز مشرف نے 29نومبر 2000کو 465ملین ڈالر کا قرض لیا۔ 19ویں مرتبہ پھرفوجی آمر صدر پرویز مشرف نے 6دسمبر 2001کو 861.4ملین ڈالر قرض لیا۔

20ویں مرتبہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 24نومبر 2008کو آئی ایم ایف سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑی مالیت کا قرض 4936ملین ڈالر لیا۔ جبکہ21ویں مرتبہ پھر سے وزیر اعظم نواز شریف نے 4ستمبر 2013کو 4393ملین ڈالر کا قرض لیا۔
 اِن تمام قرضہ جات کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ پاکستان اب تک آئی ایم ایف سے مجموعی طورپر 13795ملین ڈالر کا قرض لے چکاہے۔01 مرتبہ نگران وزیر اعظم، 07 مرتبہ فوجی آمر ، 10مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی اور 03 مرتبہ پاکستان مسلم لیگ ن ، آئی ایم ایف سے قرض لے کر حکومت چلاتے رہے ہیں۔

یعنی 01دفعہ درآمد شدہ وزیر اعظم، 13مرتبہ جمہوری سیاست دان اور07مرتبہ فوجی آمر غریب عوام کی حالت بدلنے کے دعوؤں پر قرض لیتے رہے ہیں۔
 اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعدادوشما رکے مطابق تیسرے کوارٹر مالی سال 2019تک پاکستان کے ذمہ 35094.5ملین روپے کا قرض واجب ادا تھا۔ جس میں اب ڈالر کی بناپر مذید ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے اور پاکستان کا مجموعی قرضہ اب جی ڈی پی کے 91.2فیصد تک پہنچ چکا ہے۔

19دسمبر 2013کو آئی ایم ایف کے نمائندہ جیفری فرنیکس نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ ”پروگرام میں بعض مسائل سے نمٹا نہیں کیا گیا“۔ چند الفاظ کا یہ جملہ پوری کہانی کا عکاس ہے۔ سابق حکمران عیاشیوں کی خاطر قرض تو لیتے رہے مگر نہ آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے پورے کرتے تھے اور نہ ہی ملک کی معاشی حالت سنبھال سکے۔ ہر حکمران نے فقط اپنا دور ِاقتدار گزرا۔

ملک میں مالیاتی استحکام قائم کرنے ، ٹیکس اصلاحات میں بہتری لانے، سرکاری اداروں کی تشکیل نو کرنے، تجارتی پالیسوں کی اصلاحات کرنے، سرماریہ کاری کا ماحول بنانے کی ضرورت، سول سرو س کو بہتر بنانے ، صوبائی ٹیکس محاصل بڑھانے ، مالیاتی خسارہ میں کمی کرنے اور بین الاقوامی ذخائر کوپائیدار کرنے پر کسی حکمران نے بھی کوئی مخلصانہ کو شش نہ کی۔

قرض کی مئے پر عیاشی کی جاتی رہی۔ ترقیاتی فنڈز کا لالچ دے کر نام نہاد عوامی خدمت گزاروں یعنی منتخب ممبران اسمبلیوں کو ہر حکمران نے اپنی حکومت کی چھتری تلے رکھا۔ اگریہ رقم ملک کی ترقی پر خرچ ہوتی تو آج یوں معاشی مسائل اور مہنگائی و غربت کا آتش فشاں نہ پھٹتا۔
 آئی ایم ایف کے مطابق 2013میں18کروڑ کے پاکستان میں فقط 12لاکھ افراد اور فرمیں ٹیکس ادا کرتی تھیں۔

اُنہی کے انکم ٹیکس ریٹرنز جمع ہوتے تھے۔ اِس قدر قلیل تعدد آخر کیوں ؟ سادہ سا جواب تو یہی ہے کہ جب حکمران چور اور کرپٹ ہوں گے تو پھر عوام ٹیکس کیوں دیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے اب سب کچھ اور پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔ عوام کو بھی اور حکمرانوں کو بھی۔ اب وقت آگیا ہے کہ سابق تمام حکمرانوں سے اِن قرضہ جات کے ایک ایک روپیہ کے خرچ کا حساب لیا جائے۔

دو تین ہزار کرپٹ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو کرپشن پر پھانسی لگائیں ۔ منزل سے بھٹکی ہوئی قوم کو خو د بخود منز ل ملے جائے گی۔ این آر او کی آوازیں کیوں گونجتی ہیں؟۔ ماضی میں کیوں کرپٹ لوگوں کو راہ فرار دی گئی اورآئندہ بھی راہ فرار دینے کی پھر کیوں گونج پیدا کی جا رہی ہے؟۔
کرپشن کی سزا موت قرار دیں اور اگر شریف برداران ، زرداری وغیرہ کرپٹ ہیں تو انہیں سر عام پھانسی پر لٹکائیں۔

اِن کے شاہی بچے ، اِن کے خاندان ایک عام پاکستانی کے بچوں اور خاندان سے زیادہ قیمتی تو نہیں ہیں۔پھر اِن کا سخت احتساب کرنے میں آخر کس بات کا ڈرہے؟ ۔ ہر روز کوئی نہ کوئی غربت زدہ بندہ اگر گلے میں خود کشی کا پھندہ ڈال کر پھانسی لگ سکتا ہے تو 72سالوں سے قوم کی دولت، دن رات اور سکھ چین کھانے والوں کو پھانسی کیوں نہیں دی جاسکتی؟۔ اگر یہ لوگ بے قصور ہیں تو پھر احتساب کا ڈرامہ کیوں قوم کو دکھایا جا رہا ہے۔

حکمران اپنے قول وفعل میں تضاد ختم کریں تاکہ اب قوم بھی اُن پر اعتبار کر سکے۔چیرمین نیب کو کون دھمکیاں دے رہاہے۔ اگر سینئر صوبائی وزیر پنجاب علیم خان کو100دن نیبکی قید میں رکھا گیا ہے تو اُس کا انصاف پر مبنی نتیجہ بھی عوام کے سامنے آنا چاہیے۔ علیم خان کی طرح دیگر حکومتی اور اپوزیشن کے کرپٹ سیاست دانوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ البتہ سیاسی انتقام کے نام پر احتساب کو ختم کریں احتساب کو احتساب رہنے دیں۔


جن لوگوں نے کراچی کا جناح انٹر نیشنل ائر پورٹ، پشاوراسلام آباد موٹر وے ، ملک کی نیشنل ہائی ویز، ٹیلی ویژن اور ریڈیوپاکستان کی املاک کو قرضوں کے عوض گروی رکھوایا ،اُن حکمرانوں سے وصول کرد ہ قرضوں کے خرچ کا حساب مانگیں۔ ہر پاکستانی کی آمدن اور اثاثہ جات کا احتساب کریں۔ کالے دھن کو سفید دھن بنانے کی سکیموں کی بجائے کالے دھن کو سرکاری تحویل میں لیں۔ نئے ٹیکس لگانے کا بوجھ اب قوم برادشت نہیں کر سکتی لہذا ٹیکس چوروں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لائیں اور حکومتی ریونیو بڑھائیں۔ اگر اب بھی وقت ضائع کیا تو پھر نہ آئی ایم ایف کا قرضہ اِس قوم کو بچا پائے گا اور نہ ہی تبدیلی کے نعروں سے قوم کو زیادہ دیر تک بے وقوف بنایا جا سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :