دورہ چین اور دھرنا

بدھ 9 اکتوبر 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

27اکتوبر کو بالآخر مولانافضل الرحمن نے دھرنا دینے کا واضح اعلان کردیا ہے اور اس بات کا اشارہ بھی دے دیا ہے کہ حکومت کسی طور ہمیں اسلام آباد میں دھرنا دینے سے نہیں روک سکتی لیکن مختلف سیاسی طبقہ ہائے فکر و اہل علم ودانش بشمول حکومتی اراکین کا خیال ہے کہ دھرنا نہیں ہوگا۔مگر مولانا اور ان کے ہم خیال سیاسی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ اب جینا ہوگا یا مرنا ہوگا دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا۔


مولانا کے عزائم سے تو لگ رہا ہے کہ مولانا نے دھرنے کو دھرم ہی بنا لیا ہے،دھرنا ہوگا یا نہیں ؟یہ ایک الگ موضوع بحث ہے تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی میدان میں اپنی نشست بھی برقرار نہ رکھ پانے والے مولانا صاحب کس سیاسی طاقت یا اشارے کے تحت دھرنا دینے پر بضد ہیں ۔کیا اس دھرنے میں جمعیت علما (ف)کے سیاسی ومذہبی کارکنان ہی شامل ہوں گے یا کوئی اور سیاسی پارٹی بھی مولانا کے اس فعل کی حمائت کرے گی،کیونکہ دیگر ملکی بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس بات کی وضاحت اپنے اپنے سیاسی بیانات اور پریس کانفرنس میں کر دی ہے کہ ہم آزادی مارچ تک مولانا کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن دھرنے میں شامل نہیں ہوں گے ۔

(جاری ہے)

ن لیگ کے ترجمان احسن اقبال نے اپنی پریس کانفرنس میں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ میاں نواز شریف کا فیصلہ حتمی ہوگا کہ دھرنا میں شمولیت اختیار کرنی ہے یا کہ نہیں،جو کہ کرپشن کے الزامات کے سلسلہ میں خود جیل یاترا پر ہیں۔اسی طرح بلاول اور دیگر سینئر سیاسی راہنماؤں کا خیال ہے کہ ہم آزادی مارچ تک تو مولانا کا ساتھ دیں گے اس سے آگے نہیں۔

بلکہ ابھی سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی بلاول کو سیاسی نصیحت جاری کر دی ہے کہ مولانا کے ہاتھ میں احتجاج کا سٹیئرنگ نہ دینا،اس بات سے اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت مولانا پر کسی طور سیاسی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے،اس کے پیچھے کیا راز اور سیاسی حکمت عملی ہے میرے خیال میں وہ تمام سینئر سیاسی راہنمااور میڈیا پرسن جانتے ہیں کہ ماضی قریب وبعید میں مولانا کی سیاسی چالیں اور سیاسی مفادات سے واقف ہیں۔

موجودہ صورت حال میں اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی جمہوری اصولوں کے عین مطابق چلتی دکھائی دے رہی ہے کہ رابطے،ضابطے بناتے ہیں اور تمام مسائل کا حل سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہوں تو جمہوری عمل میں تسلسل برقرار رہتا ہے۔اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہوتا ہے۔اسی سیاسی حسن کو مدنظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کے راہنما بلاول کا خیال بالکل درست بھی لگتا ہے کہ مزاحمت کی بجائے جمہوری رد عمل کو اپنایا جائے جو کہ صرف اور صرف پارلیمنٹ کے ایوان میں ہی ممکن ہے،دوسری طرف رہبر کمیٹی کے ممبران بھی سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس فیصلہ پر پہنچ چکے ہیں کہ اب وقت آچکا ہے کہ حکومت کو استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہئے،لیکن اس کے لئے لائحہ عمل کیا ہوگا اس سلسلہ میں کمیٹی واضح نہیں ہے۔

مذکور تمام سیاسی حالات وواقعات،پریس کانفرنسز،مولانا کے احتجاج کا فیصلہ اور رہبر کمیٹی کے احتجاج پر حکومتی اراکین کے کانوں تک جوں بھی نہیں رینگ رہی۔اس بات کا اندازہ آپ پاکستان تحریک انصاف کے وزیر خارجہ وداخلہ کے حالیہ بیانات ہیں کہ جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آزادی مارچ حزب مخالف کا جمہوری حق ہے اور حکومت اس سے بالکل بھی خائف نہیں ہے۔

ایسے ہی جذبات کا اظہار حکومتی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا بھی ہے کہ مولانا کبھی بھی دھرنا نہیں دیں گے۔
ایک طرف تو حزب مخالف کی مذکور سیاسی سرگرمیاں ہیں تو دوسری طرف حکومتی وفد وزیراعظم کی قیادت میں تین روزہ چین کی دورے پت بڑے چین کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں اور معاہدات پر دستخط فرما رہا ہے۔دورہ کے دوران چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کی جیونگ پاکستانی وزیر اعظم سے الگ الگ ملاقات بھی کریں گے جس میں دوطرفہ تعلقات کی حالیہ نوعیت اور نئے معاہدات پر بھی بات چیت ہوگی۔

اس دورے میں سب سے اہم بات چینی کمپنی گیژوبا گروپ کے چیئرمین سے ملاقات شامل ہے کیونکہ یہ کمپنی پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی خواہاں ہے۔اگر توانائی کے شعبہ میں حکومت پاکستان کا وفد چینی کمپنی کو راضی کر لیتا ہے تو پاکستان کے نصف معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔کیونکہ معاشی ترقی کا دارومدار صنعتی ترقی میں مضمر ہے اور صنعتی ترقی کی بنیاد یقینا توانائی کی بحالی اور سپلائی پر منحصر ہے۔

اب تک کی ملاقاتوں میں سی پیک منصوبہ کی تکمیل، اس کے معاشی اثرات اور خطہ کی خوش حالی جیسے موضوعات زیر بحث رہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک کی تکمیل دراصل خطہ کی معاشی صورت حال کی بہتری کی ضامن ہے۔دورہ چین ابھی جاری ہے اور بہت سے معاہدات اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی ہونگے لیکن عوام اس دورہ کے ثمرات کے منتظر ہیں کیونکہ بغیر ثمرات دورہ محض سیر سپاٹا سیزیادہ کچھ نہیں ،جبکہ عوام اب حکومت سے کچھ زیادہ ہی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔خدا کرے کہ حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہو جائے اور دورہ چین کے ثمرات جلد از جلد عوام کو دیکھنا نصیب ہو ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :