میں نہیں جانتا

پیر 4 نومبر 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

احمد دیدات کا پیدائشی نام احمد حسین کاظم دیدات تھا وہ ایک بھارتی نژاد جنوبی افریقی مسلمان مبلغ،مقرر اور مناظر تھے،انہیں اسلام،مسیحیت اور بائبل میں سند حاصل تھی،ان کے زیادہ تر لیکچرز انہی تین عنوانات کے گرد گھومتے تھے۔ان کا ایک مشہور زمانہ قول ہے کہ ”اسلام کی سب سے بڑی دشمن جہالت ہے“۔عرف عام میں اسے کہا جاتا ہے کہ عقل نئیں تے موجاں ای موجاں۔

عمیق تناظر میں اگر اس بات کا خلاصہ دیکھنا ہو تو آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ایک پڑھا لکھا اور عالم شخص کسی کو قتل کرنے یا زیادتی کرنے کے لئے کئی بار سوچے گا کہ اگر میں نے یہ کرپشن کی تو اس کی سزا یہ ہو سکتی ہے اور اگر میں نے کسی کے ساتھ اس نوعیت کی زیادتی کی تو سزا کس سطح کی مل سکتی ہے جبکہ ایک گنوار اور عقل سے پیدل انسان کسی کو دکھ، درد اور قتل تک کرنے سے نہیں گھبراتا،جو اس کے ذہن میں آگیا کر گزرتا ہے،سوچتا بعد میں ہے کہ اس کے نتائج کیا نکل رہے ہیں جبکہ عقل مند اور باشعور انسان پہلے سوچتا ہے کہ نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)


آجکل پورے پاکستان میں موضوع بحث دھرنا اور صرف دھرنا ہے،سارا سارا دن ٹی وی چینل دھرنے کے نتائج،اثرات،اور خفیہ طاقتوں کے بارے میں بحث میں پڑے دکھائی دیتے ہیں،ویسے میری سمجھ میں بھی نہیں آیا کہ آخر دھرنا کیوں کیا جارہا ہے؟جب آزادی مارچ کی تیاریاں ہو رہی تھیں تو مولانا صاحب نے مذہبی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے ایک خاص طبقہ فکر کی رائے ہموار کرنے کی کوشش کی کہ ہم اس لئے وزیراعظم کا استعفیٰ چاہتے ہیں کہ وہ ایک یہودی ایجنٹ ہے،پھر تحفظ اور ناموس رسالتﷺاور پھر ادارے اور ان کی وزیراعظم کو سپورٹ۔

مجھے لگتا ہے کہ مولانا اور ان کے پیروکار اس سلسلہ میں شائد ابھی تک نہیں جانتے کہ وہ چاہتے کیا ہیں ماسوا اس کے کہ وزیراعظم کو استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہئے،کیوں جانا چاہئے ،کن بنیادوں کو انہیں مستعفیٰ ہونا چاہئے،مولانا صاحب یہ رائے عامہ ہموار کرنے میں شائد ناکام ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ طلبا جو مولانا کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد تک کا سفر طے کر کے آئے ہیں جب ان سے مختلف ٹی وی اینکرز اور رپورٹرز نے سوال کیا کہ آپ عمران خان کا استعفیٰ کیو ں مانگ رہے ہیں تو کچھ لوگوں کو جواب یہ تھا کہ ہمیں معلوم نہیں،بس چونکہ ہمارے علما کا کہنا ہے اس لئے ہمارا بھی مطالبہ ہے کہ وزیراعظم کو استعفیٰ دینا چاہئے۔

ایک کارکن نے تو حد ہی کر دی جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ایک وزیراعظم استعفیٰ دے تو اس نے جواب میں کہا کہ وہ ایک یہودی ایجنٹ ہے،سوال پھر کیا گیا کہ کیسے وہ ایک یہودی ایجنٹ ہے تو اس کارکن نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم،لیکن میرے قائد کہتے ہیں۔اس ضمن میں مجھے تین واقعات یاد آگئے جو قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
جج نے مصری صدر انور سادات کے قاتل سے پوچھا ”تو نے سادات کو کیوں قتل کیا؟
قاتل؛کیوں کہ وہ سیکولر تھا۔


جج؛یہ سیکولر کیا ہوتا ہے؟
قاتل؛مجھے نہیں معلوم۔
مشہور مصری ادیب نجیب محفوظ پر قاتلانہ حملہ ہوا،ملزم پکڑ لیا گیا ،اسے جج کے سامنے پیش کیا گیا تو جج نے اس سے پوچھا کہ ”تم نے نجیب محفوظ کو کیوں چھرا مارا؟
مجرم؛کیونکہ وہ ایک دہشت گرد تھا اور اس نے دہشت گردی کو ترغیب دینے کے لئے ایک کتاب”روایة اولاد حارتنا“لکھی ہے۔
جج؛کیا تم نے وہ کتاب پڑھی؟
مجرم؛جی نہیں میں نے وہ کتاب خود نہیں پڑھی۔


ایک اور واقعہ کہ جج نے مشہور کاتب فرج فودة کو مارنے والے تین مجرموں میں سے ایک سے پوچھا کہ ”تو نے فرج فودة کو کیوں قتل کیا؟
قاتل؛کیوں کہ وہ ایک کافر تھا۔
جج؛تمہیں کیسے معلوم کہ وی ایک کافر تھا۔
قاتل؛اس کی کتابوں سے۔
جج؛کون سی کتاب سے پتہ چلا کہ وہ کافر تھا۔
قاتل؛میں اس کی کتابیں نہیں پڑھتا۔
جج؛تم اس کی کتابیں کیوں نہیں پڑھتے۔


قاتل؛کیوں کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔
لہذا میرا سوال ان تمام احباب سے یہ ہے اس مین کوئی شک نہیں کہ آزادی مارچ اور دھرنا جمہوری ممالک میں آئینی حق سمجھا جاتا ہے،اور آزادی حق رائے بھی ہے،لیکن رائے کے اظہار سے قبل رائے عامہ کو ضرور ہموار کرلینا چاہئے۔ان حضرات کی تربیت اور تعلیم ضرور کر لینی چاہئے جو رائے اظہار کی آزادی کے لئے آپ کے ساتھ سڑکوں پر نکلے ہیں یا دھرنا دینے کے لئے اسلام آباد میں تشریف فرما ہیں۔اگر ان شرکا کی مذہبی و سیاسی تربیت کی گئی ہوتی تو کئے گئے ہر سوال کا جواب یہ نہ دیتے کہ مجھے معلوم نہیں،بس ہمارے راہنما کا حکم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :