حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

منگل 6 اکتوبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

وزیراعظم عمران خان کے ندیم ملک کو دئے گئے انٹرویو میں بہت سے مسائل کا احاطہ کیا گیا لیکن سب سے زیادہ کن دو باتوں پر زور دیا گیا ان میں سے ایک تو افواج پاکستان کی اہمیت،سول اور افواج کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور دوسرا سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا اے پی سے کو خطاب تھا۔وزیر اعظم سے جب سوال کیا گیا کہ سول ،ملٹری تعلقات کی موجودہ صورت حال کیا ہے تو میں نے اپنی پورے صحافتی کیرئر میں پہلی بار دیکھا کہ وزیر اعظم نے بلا ہچکچاہٹ کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ادارے ایک ہی پیج پر ہیں اور مل کر ملکی ترقی میں اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

جب خان صاحب اپنا یہ موقف عوام کے سامنے پیش کر رہے تھے تو مجھے جاپانی شہنشاہ شارلیمان کا قول یاد آگیا کہ ”فوج نہ تو کبھی شکست کھاتی ہے اور نہ ہی کبھی ہتھیار ڈالتی ہے جب تک کہ اسے یقین رہتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک محبت کرنے والی قوم موجود ہے“
اگر یہ کہ جائے تو تکمیل پاکستان کے بعد یہ پہلی بار دیکھنے میں آرہا ہے ک ہ عسکری اور سیاسی نظریات ایک ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں کوئی اچنبہ کی بات نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ فوج اور پارلیمنٹ مل کر ملک کی بہتری وترقی کے لئے کام کرتے ہیں۔امریکہ،اسرائیل،چائنہ اور جاپان کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔بلکہ مجھے یار آرہا ہے کہ ایک بار امریکی صدر باراک اوبامہ کسی ملک کے دورہ کے لئے امریکہ کے ایک ائر پورٹ سے رخصت ہو رہے تھے کہ جلدی جلدی میں پروٹول کے لئے آئے ہوئے ایک ملٹری جنرل کو سلیوٹ نہیں کر پائے ۔

ابھی آدھی سیڑھیاں ہی چڑھے ہوں گے کہ انہیں یاد آیا کہ ملٹری جنرل کو انہوں نے سلام نہیں کیا تو باراک اوبامہ واپس آئے اور اسے سلام کیا۔اسی طرح سے ٹی وی سکرین پر بہت سے لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جہاز سے اتر رہے تھے کہ تیز ہوا کی وجہ سے ایک ملٹری آفیسر کے سر سے ٹوپی نیچے گر گئی،ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اس ملٹری آفیسر کے سر پر رکھی۔

بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سول ملٹری تعلقات کو جس نامناسب انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے یا کیا جاتا رہا ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہ یہ ہمارے ملک کی فوج نہیں بلکہ کسی دشمن ملک کی فوج ہو۔سول ملٹری تعلقات میں خلیج پید اکرنے والوں یا ان کی مخالفت کرنے والوں کا خیال ہے کہ فوج کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے نا کہ ملک میں سیاست یا سیاسی مداخلت کرنا۔

میرا ایسے خیالات کے متحمل لوگوں سے ایک سوال ہے کہ جب ملک میں ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو کیوں سرحدی علاقوں سے افواج پاکستان کو مدد کے لئے بلایا جاتا ہے۔ملک میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے سیلاب ہو،یا انہی سیاستدانوں کے اکسانے سے عوام کا سڑکوں پر آکر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا ہو ،تو ایسی سورت حال میں کنٹرول کرنے کے لئے فوج کو کیوں سرحد سے بلا کر امن وامان کے لئے بلایا جاتا ہے۔

یعنی کرے کوئی اور بھرے کوئی۔یا پھر ”کھان پین نوں باہر لے تے کٹ کھان نوں باندری“۔
وزیر اعظم نے میاں نوازشریف کے بارے میں بڑی وضاحت اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ جو کھیل نواز شریف کھیل رہا ہے وہ بڑا خطرناک ہے،وہ پاکستان کے خلاف کھیل رہا ہے،یہی الطاف حسین نے بھی کیا تھا،میں واضح کرتا ہوں کہ سو فیصد ہندوستان اس کی مدد کر رہا ہے۔خود ہی انہوں نے وضاحت فرمائی کہ کس کی خواہش ہے کہ پاکستانی فوج کمزور ہے ایسا صرف دشمن ہی سوچ سکتا ہے۔

وزیر اعظم کے لفظوں کا اعتماد بتا رہا تھا کہ کوئی تو ہے جو اس کے پیچھے ہے اور عمران خان صاحب جانتے ہیں۔اگر ایسا ہے تو پھر میری سمجھ میں خان صاحب کی تقریر اور اس بیان سے دو باتوں کی وضاحت ہوتی ہے ،ایک یہ کہ اگر ایسا واقعی ہے تو پھر میاں صاحب قانونی اور آئینی طور پر ملکی غداری کے مرتکب ہوتے ہیں۔اور دوسری بات یہ کہ کوئی سیاسی گیم بھی ہو سکتی ہے۔

پہلی بات کے پہلوؤں کا اگر جائزہ لیں تو بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی کہ اگر میاں صاحب کسی کے اشارے پر اپنے ہی ملک کی افواج کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں تو ان پر غداری کا مقدمہ کس نے دائر کرنا ہے حکومت یا عوام نے۔جمہوری اور سیاسی بیان ہوگا کہ عوام نے لیکن عوام تو اب مہنگائی کی دلدل میں ایسے دھنسے ہوئے ہیں کہ
غم سے چھوٹوں تو ادھر دیکھوں میں
دل کو رو لوں تو جگر دیکھوں میں
اگر حکومت نے یہ کام کرنا ہے تو پھر دیر کس بات کی۔

اب تو عدالتوں کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ آزاد ہیں ،اگر حقیقت میں عدلیہ آزاد ہے تو پھر حکومت وقت کو میاں صاحب پر غداری کا مقدمہ دائر کر کے انہیں وطن واپس لانے کا چارہ کرنا چاہئے۔ایسا کرنا صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ فوج کو بھی نشانہ میں رکھا ہے گویا عوامی اور عسکری قیادت کو مل کرمیاں صاحب کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر اپنی پوزیشن کو صاف کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ بھی دائر کرنا ہے۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر کوئی سیاسی گیم ضرور ہو رہی ہے ۔جو آئندہ چند روز میں کھل کر سامنے آجائے گی۔لیکن عوام کو اب یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ نواز شریف کے حالیہ بیانات سے صاف تاثر پیا ہو رہا ہے کہ وہ اب واپسی کی کشتیاں جلا چکے ہیں اور کوئی بھی انسان ایسا اسی وقت کرتا ہے جب وہ فیصلہ کر لے کہ اب تخت یا تختہ،قرائن اور میاں صاحب کا سابقہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ تختہ تو کسی طور بھی قبول نہیں کریں گے کیونکہ اگر ان میں اتنا دم خم ہوتا تو جیل کی سختیوں سے گھبرا کر ،جھوٹ بول کر کبھی بھی راہ فرار اختیار نہ کرتے۔

میاں صاحب نے ایسا پہلی بار نہیں کیا جب بھی سیاسی تنگی داماں سے واسطہ پڑا میاں صاحب نے خودساختہ یا معاہداتی ملک بدری کو ترجیح دی۔اب ان کے حالیہ بیانات سے واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان کی ایسٹیبلشمنٹ اور ادارے ان پر اور ان کے خاندان پر اعتماد کا اظہار نہیں کر رہے ،جس کی بڑی وجہ یہی دکھائی دے رہی ہے کہ اداروں اور ایجنسیوں کو شائد کنفرم ہو گیا ہے کہ میاں صاحبکو کوئی استعمال کر رہا ہے جس کا عندیہ عمران خان اپنے انٹرویو میں دے چکے ہیں،کہ میاں صاحب یہ سب دشمن ملک ہندوستان کے ایما پر کر رہے ہیں۔

یاد رکھئے کہ اگر پاکستانی اداروں ،ایجنسیوں اور ایسٹیبلشمنٹ کا اعتماد میاں صاحب سے اٹھ گیا تو میاں صاحب کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
یہ بات بھی پس پشت نہیں ڈالی جا سکتی کہ میاں صاحب کو اچانک کیا ہوا کہ انہوں نے ایک دم ہی پاکستانی افواج کو ہدف تنقید بنانا شروع کردیا جبکہ ملکی سیاسی حالات کچھ ایسے بھی نہیں تھے کہ جس کی بنا پر میاں صاحب کو پردیس میں دیس کی یاد نے ستا دیا ہو اور انہوں نے عوامی امنگوں کی ترجمانی کے لئے یہ وقت مناسب سمجھا ہو۔

لیکن میاں صاحب نے تو عوام اور عوامی مسائل کو یکسر نظر انداز کر کے صرف اور صرف اداروں اور فوج کو ہی آڑے ہاتھوں لیا۔تو جناب یہ ایک دم یا ایک دن کی بات نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی پلاننگ ہے جس کی بلی چند روز بعد تھیلے سے برآمد ہو جائے گی۔کیونکہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :