پی ڈی ایم میں ”مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی “ کا اپنا اپنا بیانیہ

جمعرات 22 اکتوبر 2020

Nadeem Basra

ندیم بسرا

اس وقت ملک میں سیاست کا پارہ عروج پر ہے کہیں اپوزیشن اپنے دعووںمیں حکومت کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے اور کہیںحکومت اپوزیشن کے جلسوں کو این آر او کا نام دے رہی ہے مگر ان دونوں کے درمیان عوام کی نظر مسلسل مہنگائی پر ہی ٹکی ہوئی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ اپوزیشن نے گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں لوگوں کو گھروں سے باہر نکالا ہے چاہے یہ لوگ ”جیالے“، ”متوالے “ یا” مدارس“ کے طالب علم ہوں یا” عوام“۔

اپوزیشن نے عوامی مقامات پر طاقت کا مظاہرہ کرکے حکومت کیلئے ایک ”دباﺅ“ کی بنیاد تو رکھ دی ہے۔شہری یہی سوچتے ہیں کہ اگر ان جلسوں میں اپوزیشن اپنااپنا بیانیہ پیش کرنے کی بجائے عوام کی بات کریںجس کا عوام ان حالات میں سامنا کررہے ہیں جس میں مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے تو یقیننا اپوزیشن کو عوامی تائید ضرور حاصل ہوگی مگر لگ یہی رہا ہے کہ حکومت وقت اور اپوزیشن دونوں ہی بغیر تیاری کے میدان میں اتریں ہیں۔

(جاری ہے)

ایک بات تو وزیراعظم پاکستان واضح کر چکے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے ان جلسوں کے بعد دباو میں نہیں آئیں گے کیونکہ عمران خان خود کہ چکے ہیں مجھ سے کسی نے استعفی مانگا تو میں اس سے استعفی لے لونگا ،ان کا اشارہ کس کی طرف ہے یہ وہ خود ہی بتاسکتے ہیں ۔ مگر سیاسی ہلچل میں جو کام اپوزیشن اور حکومت کی طرف سے ہورہے ہیں وہ بھی ایک علیحدہ منطق رکھتا ہے۔

متحدہ اپوزیشن میں ”ن لیگ“ کا بیانیہ الگ نظر آرہا ہے اور اس میں ”پیپلز پارٹی “ کا نظریہ ایک الگ سمت کی طرف جارہا ہے ۔مریم نواز جو مسلم لیگ کی نمائندگی کررہی ہیں ان کا ایک ہی موقف ہے ”ووٹ کو عزت دو“ وہ اپنے اس موقف پر ڈٹی نظر آرہی ہیں ۔پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری مہنگائی ،عوامی مسائل اور صوبوں کے نظر انداز ہونے کے بیانئے کو لے کر چل رہے ہیں ۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا موقف تو دونوں سے الگ ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ ”ریاست کا تصور میرے بغیر نامکمل ہے “،وہ بھی ایک طرح سے اپنے آپ کوٹھیک سمجھتے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت میں خود پہلی بار آوٹ ہوئے ہیں ماضی کی حکومتوں میںمولانا صا حب کا حصہ ہر صورت میں رہا ہے۔اب یہ بات غور طلب ہے کہ گوجرانوالہ جلسے میں نواز شریف کے خطاب کو دکھایا گیا مگر کراچی کے جلسے میں نواز شریف کومائنس کردیا گیا اس کی وجہ تو بظاہر یہی لگ رہی ہے کہ آصف زرداری،بلاول بھٹوایک محتاط پالیسی کو لیکر چل رہے ہیں کیونکہ پی پی کی نظر ایک بڑی منزل کو ہے جس کو حاصل کرنے کیلئے وہ نواز شریف کے اس بیانئے کو وقتی طور پرسپورٹ نہیں کرنا چاہتی جوسخت تقاریر نواز شریف کی طرف سے کی جارہی ہیں ۔

دوسری جانب حکومت کی طرف سے بیانات داغنے کا سلسلہ جاری ہے جس جگہ اپوزیشن جلسہ کرتی ہے اس سے اگلے روز یا تو وزراءآکراسی جگہ پریس کانفرنس کرنا شروع کردیتے ہیں جیسے شہباز گل نے گوجرانوالہ میں آکر کیا ،یا کراچی جلسے میں اگلی صبح کیپٹن صفدر کو سندھ پولیس گرفتار کر لیتی ہے کیا ہمیں یہ کہنا چاہیئے کہ عمران خان کے ایڈوائز ان سے جلدی سے فیصلہ کروالیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک نیا مسئلہ عوام کے سامنے آجاتا ہے ۔

کراچی واقعہ جس کی رپورٹ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کور کمانڈر کراچی سے لی ہے کہ کراچی کا واقعہ کیونکر ہوا جس کی وجہ سے آئی جی سندھ پولیس سمیت تقریبا تمام پی ایس پی افسران نے چھٹی کی درخواستیں سندھ حکومت کو دی، جس پر بلاول بھٹو نے سخت درعمل میں پریس بریفنگ کی جس میںانہوں نے آرمی چیف سے اس کا نوٹس لینے کا کہا۔ یقیننایہ بات پاکستان کے عوام کو بخوبی جانتے ہیںکہ کچھ عر صہ قبل سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور اعلی سیاسی قیادت نے جب آرمی چیف سے ملاقات کی تو آرمی چیف نے واضح پیغام دیا کہ ہماراسیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

ہمارے لئے سب ہی برابر ہیں جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ افواج پاکستان ایک غیر جانبدار ادارہ ہے جو ملک کی سرحدوں کا نگہبان اور محافظ ہے اور پوری قوم کو اس بات پر فخر ہے کیونکہ اس ملک کی حفاظت اور امن کو برقرا رکھنے کیلئے سب سے زیادہ قربانیا ں افواج پاکستان نے ہی دی ہیں۔ اسی وجہ سے جب بلاول بھٹو زرداری نے اعلی عسکری قیادت سے کراچی واقعے کا نواٹس لینے کا کہا تو آرمی چیف نے اس پر نوٹس لیا اور بلاول بھٹو زرداری سے رابطہ بھی کیا جس پر بلاول بھٹو نے آرمی چیف کا خصوصی شکریہ بھی کیا ۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے تمام انتظامی اداروں کو سختی سے ہدایات دیں ہیں کہ مہنگائی پر کنٹرول کرنے کیلئے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے ۔اس سلسلے میں تمام چیف سیکرٹریز نے کمشنر،دپٹی کمشنرز کو سخت مانیٹرنگ کی ہدایا ت دی ہیں ۔عمران خان نے ایک روزہ لاہور کا دورے میں بھی مہنگائی کرنے والے عناصر ،ذخیرہ اندوزوں کے خلاف مکمل کاروائی کی ہدایات بھی دی ہیں۔

اس سلسلے میں وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار پہلے ہی ہر ضلع میںصوبائی وزرائ،معاو ن خصوصی کی ڈیوٹیاں لگاچکے ہیں کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کریں ،بازاروں کے دورے کریں ،پنجاب میں اس سلسلے میں ماڈل بازار بھی قائم ہوئے ہیںجہاں عوام کو سستی اشیاءفراہم کی جارہی ہیں ۔ حکومت پنجاب کا یہ اقدام یقینی طور پر مہنگائی کے ستائے عوام کیلئے ایک خوشخبری ہے۔

اس سلسلے میں وزیر اعلی پنجاب خود بھی بڑے متحرک ہیں وہ تمام اضلاع میں خود مانیٹرنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اس مین کوئی شک نہیں کہ پنجاب جس کو منی پاکستان کہا جاتا ہے ، پنجاب کے عوام کا درد رکھنے والے وزیر اعلی پنجاب جو خود بھی ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنی تمام تر توانائیاں اس سلسلے میں وقف کئے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے تمام اضلاع کی انتظامیہ کو تبدیل کیا نئے افسران کوہر ضلع میں لگایا اور انہیںٹاسک دیا کہ وہ خود ہر جگہ جاکر مانیٹرنگ کریں ۔

وزیراعلی پنجاب کو اس سلسلے میں یہ ہدایات بھی دینی چاہئے کہ کمشنرز،ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کے دروانے عوام کیلئے کھلے رہیں۔ دیکھنے میں یہی آتاہے کہ کمشنر اور ڈی سی صاحبان کو ملنے کیلئے عوام کو انتظار کی سولی پر لٹکایا جاتا ہے جب بھی شہری ان افسران کو ملنے کیلئے جاتے ہیں تو ان کی رسائی ان تک براہ راست نہیں ہوتی ،انہیں یہ کہ کر ملنے نہیں دیا جاتا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں جس کی وجہ سے عوام ان کو کوستے دفاتر سے نکلتے ہیں ۔

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے بارے میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہ عوامی آدمی ہیں ۔عوام کا درد رکھنے والے وزیراعلی پنجاب ہیں وہ ایسا سسٹم متعارف کروائیں کہ عوام کی رسائی انتظامیہ تک براہ راست ہواگر عوامی شکایات انتظامیہ کے بارے میں آئیں تو وہ وزیراعلی کے نوٹس میں آئیں ۔وہ اس سلسلے میں شکایات بکس بھی دفاتر میں رکھوا سکتے ہیں ان شکایت باکس کو وزیر اعلی پنجاب کی اپنی ٹیم خود سی ایم تک پہنچائیں ۔جس سے یقیننا روایتی اندازکا خاتمہ ہوگا اور عوام کو بابو صاحبان کی خوار کرنے کی روش ترک ہوسکتی ہے اگر ایسا نظام وضح ہوگیا تو نظام کی خامیاں یقینا کم ہونگی اور عوامی ترجمان کی حکومت کا نعرہ جو تحریک انصاف عمران خان نے لگایا تھا وہ پورا ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :