
بھارت کے سرحدی تنازعات
اتوار 14 جون 2020

نعیم کندوال
عوامی جمہوریہ چین اور بھارت کے درمیان دو الگ الگ علاقوں پر ملکیت کا تنازعہ ہے۔ایک علاقہ اکسائی چن اور دوسرا میکموہن لائن کا جنوبی علاقہ ہے ۔اکسائی چن سنکیانگ -تبت شاہراہ پر اعلیٰ اونچائی پر واقع غیر آباد اور بنجر زمین ہے ۔دوسرا علاقہ سابقہ برطانوی دور کا نام شمال مشرقی سرحدی ایجنسی تھا جسے اب ارونا چل پردیش کہا جاتا ہے۔میکموہن لائن برطانیہ اور تبت کے درمیان 1914ء میں ہونے والا شملہ کنونشن کا حصہ تھا جسے چین نے مسترد کر دیا تھا ۔
(جاری ہے)
اکسائی چن چین اور بھارت کی سرحد پر واقع ایک علاقہ ہے جو چین کے زیرِ انتظام ہے جبکہ بھارت اِس پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے ۔اکسائی چن بھارت اور چین کے درمیان دو سرحدی تنازعات میں سے ایک ہے ۔جغرافیائی طورپر یہ علاقہ سطح مر تفع تبت کا حصہ ہے۔ہمالیہ اور دیگر پہاڑی سلسلوں کے باعث علاقے میں آبادی بہت کم ہے۔تاریخی طور پر یہ علاقہ مملکتِ لداخ کا حصہ تھاجو انیسویں صدی میں کشمیر میں شامل ہو گئی۔چین کے علاقوں تبت اور سنکیانگ کے درمیان اہم ترین شاہراہ اِسی علاقے سے گزرتی ہے جس کے باعث یہ چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے ۔یہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا حصہ ہے ۔
دونوں ممالک کے درمیان اِس معاملے پر جنگ بھی ہو چکی ہے۔1962ء میں ہونے والی چین بھارت جنگ انھی دونوں علاقوں کے لیے تھی۔یہ جنگ چین نے جیتی اور اکسائی چن پر قبضہ کر لیا۔اِس جنگ میں چین کے 722فوجی ہلاک اور 1697زخمی ہوئے جبکہ بھارت کے 1383 ہلاک اور 1047زخمی ہوئے۔بھارت کے تقریباََ چار ہزار فوجیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔
موجودہ کشیدگی گزشتہ مہینے کے شروع سے جاری ہے ۔5مئی کے بعد سے لداخ کے بہت سے علاقوں میں بھارت اور چین کی سیکیورٹی فورسز آمنے سامنے ہیں۔ایک ماہ سے جاری اِس کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے فریقین کی فوج کے اعلیٰ سطحی مذاکرات بھی ہو چکے ہیں۔
7جون کو بھارتی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جسمیں کہا گیا کہ دونوں اطراف کے کمانڈر مشرقی لداخ کے موجودہ سرحدی امور کو دو طرفہ معاہدوں کی بنیاد پرپرُ امن طریقے سے حل کرنے کے لیے تیار ہیں۔کچھ دن پہلے بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک ٹی وی چینل کر انٹرویو دیا جس میں کہا گیا کہ چینی فوج نے علاقے میں بڑی تعمیرات کی ہیں اور بھارت نے مناسب اقدامات اٹھائے ہیں۔میڈیا کے مطابق دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر در اندازی کا الزام لگا رہے ہیں۔گزشتہ ماہ سے ایل اے سی سے منسلک پورے علاقے میں انڈین سیکیورٹی فورسز کی بھاری تعداد موجود ہے ۔معمول سے زیادہ تعداد میں سیکیورٹی فورسز کا ہونا اِس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیا ن کشیدگی جاری ہے۔اطلاعات کے مطابق انڈین آرمی کے جوانوں کو بھی تعینات کر دیا گیا ہے ۔کچھ ذرائع کے مطابق لداخ میں سرحد کے نزدیک چینی فوج کے ہیلی کاپٹر بھی پرواز کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ڈیمچوک ،دولت بیگ اولڈی ،دریائے گلوان اور پینگونگ سو جھیل کی اطراف میں انڈین اور چینی فوج نے اپنی تعیناتی مضبوط کر دی ہے۔مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کے نزدیک کچھ دن پہلے چین اوربھارت کی فوجوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہو چکی ہے ۔انڈیا اِس خطے میں کچھ عرصے سے موٹر گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے ایک سڑک تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔چینی فوج اِس سڑک کی تعمیر کی مخالفت کرتی ہے ۔
کچھ دن پہلے چین کے سرکاری میڈیا میں کہا گیا کہ مغربی سیکٹر کی گلوان وادی میں انڈیا کے ذریعے یکطرفہ اور غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے موجودہ صورتحال کو بدلنے کی کوشش کے بعد پیپلز لبریشن آرمی نے اپنا کنٹرول سخت کر دیا ہے ۔گزشتہ چند ہفتوں میں ایل اے سی پر دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان جھڑپوں کے چار واقعات پیش آچکے ہیں۔27مئی کوامریکی صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کیا جس میں چین بھارت کشیدگی میں ثالثی کی پیشکش کی گئی لیکن چین کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے3جون کو دیئے گئے بیان میں امریکی صدر کی اس پیشکش کو مسترد کردیا گیااور کہاگیا کہ کسی تیسرے ملک کی ثالثی کی ضرورت نہیں۔
بھارت نیپال سرحدی تنازع بھی جنم لے چکا ہے۔ گزشتہ روز نیپال کی پارلیمنٹ نے ایک نقشہ پاس کیا جسمیں بھارت کے تین علاقوں پر ملکیت کا دعوی کیا گیا۔نیپال بھارت سرحد پر چھڑپوں کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا چین بھارت ،نیپال سرحدی تنازعہ صرف تین ممالک کے درمیان ہے۔ میرے خیال سے یہ تنازعہ صرف تین ممالک کے درمیان نہیں بلکہ اِس کا دائرہ پورے ایشیا میں پھیلا ہواہے۔خدا نخواستہ اگر ان تنازعات کی وجہ سے ان ممالک کے درمیان جنگ ہو جاتی ہے تو صرف بھارت ، چین یا نیپال نہیں بلکہ پورا خطہ اِسکی لپیٹ میں آئے گا۔اِس لیے دنیا کی دونوں بڑی جمہوریتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔کیونکہ جنگ کسی کے فائدے میں نہیں ۔جنگ میں جیت کسی کی نہیں ہوتی بلکہ جنگ تباہی اور بربادی کا نام ہے ۔خصوصاََ بھارت جس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات پہلے ہی خراب ہیں اور مسئلہ کشمیر کی وجہ سے اسے پوری دنیا کی طرف سے تنقید کا سامنا رہتاہے ،اِس پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتربنائے بلکہ خطے کے تمام ممالک سے تعلقات بہتر بنائے ۔بھارت پہلے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے ایک بد ترین بحران سے دو چار ہے،اِس لیے ملکی مفادات اور خطے کے حالات کے پیش نظر اِسے کشیدگی کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
نعیم کندوال کے کالمز
-
شکریہ فواد چوہدری
جمعرات 27 جنوری 2022
-
سی پیک کی اہمیت
جمعہ 5 نومبر 2021
-
آزادی اظہار رائے
بدھ 27 اکتوبر 2021
-
مسلم ڈیموکریٹک پارٹی
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
جلالپورنہر منصوبہ بے روزگاری کا خاتمہ کرے گا
بدھ 22 ستمبر 2021
-
پنڈ دادنخان ترقی کی راہ پرگامزن
جمعہ 10 ستمبر 2021
-
جہلم، پنڈ دادنخان! فواد آیا صواد آیا
پیر 30 اگست 2021
-
فیصل شاہ نے ساٹھ سے زائد ممالک میں پاکستان کا پرچم لہرایا
جمعرات 6 مئی 2021
نعیم کندوال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.