چلہ گاہ کہ پناہ گاہ

منگل 11 فروری 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ہمارے ہاں مذہب کی آڑ میں سیاست،مفاد اور ہمدردی حاصل کرنا ایک روایت ہے جب فاروق احمد لغاری صدرِ پاکستان تھے تو ایوان صدر سے ان کی تہجد گزاری کی خبریں زبان زدِ عام تھیں اور وہ پارسائی اور دانشور انہ تقاریر کا طلسم اس وقت ٹوٹا جب محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنے ہی فاروق بھائی نے معزول کر دیا مگر مکافات عمل دیکھیے لغاری صاحب جو بے نظیر بھٹو کی گاڑی کے پیچھے لٹکا کرتے تھے کہاں پیچھے جب میاں نواز شریف کے ہاتھوں رسوا ہو کر ملت پارٹی کے اسٹیج پر اکیلے نظر آئے مشرف دور ایک چھوٹا سا اتحاد نیشنل ایلینس بنایا گیا تو فاروق لغاری صاحب کی شخصیت اور کھل کر میرے سامنے آئی بس توبہ کر لی ایسے رنگ چڑھانے والے لوگوں سے۔


گزشتہ دنوں اسحاق ڈار صاحب کی رہائش گاہ کو پناہ گاہ میں تبدیل کیا گیا تو ان کا بھی ایک مذہبی اور صوفیانہ رنگ جو صرف داتا کے نام پر لیتا تھا،کی تصویر گھومنے لگی ہمارے شعور اور جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ میاں شریف صاحب نے بھی اسی طرح سیاست،کاروبار اور مذہب کے گھر میں حصے بنانے ہوتے تھے نواز سیاست،شہباز کاروبار،عباس بے چارہ مذہب اور اسی لبادے میں امیر المومنین بننے کی بھی کوششیں کی گئی۔

(جاری ہے)

اب اسحاق ڈار صاحب کو ہی دیکھیں پاکستانی معیشت کہانی کا اگر جائزہ لیا جائے تو جو سب سے بڑا مجرم نظر آنے گا وہ اسحاق ڈار ہوں گے۔یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ تمام ماہر اقتصادیات اس بات سے متفق ہیں البتہ وہ بیلنس شیٹ کے ماہر تھے جو ایک اچھے اکاؤنٹنٹ کی خاصیت ہوتی ہے۔
میاں صاحب کے ہر دور میں اتنے قرضے لیے گئے کہ وہ کور کرنے مشکل ہو چکے ہیں ایک فارمولا تھا جو اسحاق ڈار نے بنا کر رکھا ہوتا تھا کہ قرض لے کر بڑے پراجیکٹ شروع کریں،خود بھی کمائیں اور عوام کو بھی سبسڈی کے نام پر سیاسی رشوت دیں حالانکہ مسلم لیگ ن کو جو وقت اور موقع ملا تھا کہ وہ معیشت کو بنیادوں سے اٹھا سکتے تھے۔

جب موٹر وے بنائی گئی تھی یہ کہا جا رہا تھا اس سے صنعتوں کا انقلاب آئے گا لیکن اس کے برعکس قابل کاشت زمینوں پر رئیل اسٹیٹ اور ہوٹل مافیا نے ملک کی زراعت بھی چھین لی اور ماحول بھی فوگ اور سوگ ہی رہ گیا ہے۔بات اسحاق ڈار صاحب کی ہورہی تھی،میاں صاحب کے پاس وہی بڑا دماغ تھا جو نئی نسل کا مستقبل گروی رکھ کر معیشت چلا رہا تھا مافیا آج اسی کی یاد میں رو رہا ہے اور کیا پتا پھر وہی آ جائے۔

لیکن حقائق یہی ہیں ۔دوسرا بات ہو رہی تھی سیاست کو مذہب کی آڑ میں استعمال کرنا اسحاق ڈار نے ہجویری ٹرسٹ بنا کر یہ بھی کیا مال بھی،ثواب بھی اور دوسروں کی نظر میں نیک بھی،ان کا گھر پناہ گاہ کے بعد حکم امتناعی تک پہنچ گیا اس لیے زیادہ بات مناسب نہیں لیکن مذہب اور سیاست کے اس لبادے نے لوگوں کے جذبات سے بہت کھیلا ہے۔
اس وقت ملک میں مہنگائی اور جس عدم تعاون کا عروج ہے یہ اسی زوال کو ڈھونڈ رہا ہے۔

مذہبی اور فکری جماعتوں کا کام تھا کہ وہ اس وقت معاشرے کی تربیت اور سماجی بہبود کا شعور اور تعلیم کا اہتمام کرتے تاکہ ذخیرہ اندوزی،ناپ تول میں کمی اور ناجائز منافع خوری ختم ہوتی مگر وہ بھی مذہب کی آڑ میں سیاست کے میدان میں برسر پیکار ہیں اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی بجائے مذہب سے تاویلیں تلاش کرتے ہیں،عمران خان نہ فلاسفر ہے،نہ دانشور اور نہ ہی مبلغ و مفکر وہ ایک دیانتدار اور درد دل رکھنے والا ایسا واحد لیڈر ہے جو ہمت نہیں ہارتا،کامی آدمی ہے جو مسلسل محنت اور راستہ نکالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

نہ جھوٹ بول سکتا ہے کھلے دل لگی لپٹی کے بغیر بات کر دیتا ہے۔اگرچہ فیک نیوز،باہمی عدم تعاون اور کوئی قومی منصوبہ رجسٹر کرانے جیسی ناکامیوں کا سامنا ہے مگر ملک کی خستہ حال معیشت اور سیاسی نظام میں جکڑے ہوئے حالات سے لڑ تو رہا ہے مگر ہر گھر میں ایک بادشاہ بیٹھا ہے جس کا کوئی بھی اچھا نتیجہ برآمد ہونے کے لیے وقت اور سرجری کی ضرورت ہے۔اسحاق ڈار کو جو مواقع ملے تھے وہ اب کہاں! البتہ مذہب کی آڑ میں سیاست کرنے والوں کو لوگ خوب جان چکے وہ چائے چلے کریں یا رنگ چڑھائیں بہت جلد ڈار صاحب کی طرح اتر جائے گا اور چلہ گاہ پناہ گاہ بن سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :