کشمیر۔۔۔۔ضمیر پہ زنجیر؟

ہفتہ 24 اکتوبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

"ھم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کریں گے، اور ھم پوری دنیا، کشمیریوں اور پاکستان سے وعدہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کروانے کے لیے تیار ہیں"
   2 اکتوبر 1947ء کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی نشری تقریر میں یہ وعدہ کیا، تقسیم ھندوستان کے وقت تقریباً 600 ریاستوں کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، کشمیری پہلے ھی ڈوگرہ سامراج کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے، اور اپنی مدد آپ کے تحت وادی میں داخل ھو چکے تھے، کہ نہرو اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گئے،  کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کیا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے استصواب رائے کی قرداد منظور کی، کشمیری عوام کی نمائندہ  جماعت نے14 جولائی 1947ء کو قرارداد الحاق پاکستان منظور کی، ضمیر کے اس فیصلے سے بھارت خوف میں مبتلا تھا کہ 27 اکتوبر 1947ء کو تمام عالمی قوانین روندتے ہوئے رات کے اندھیرے میں کشمیر میں فوج اتار دی ضمیر پہ پہرے بیٹھا دئیے مگر کشمیری عوام 1931ء سے لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر آزادی کی شمع جلائے ہوئے ہیں روشنی کے یہ چراغ کشمیر کی تیسری نسل کو منتقل ہو چکے ہیں، جہاں روشنی کی کرنیں صبح آزادی تک جلتی رہیں گی، کیا کبھی ضمیر پہ زنجیر گار گر ثابت ہوئی؟ اب بچہ بچہ آزادی کشمیر کا سپاھی ھے، اور 27 اکتوبر کے فوجی قبضے کے خلاف یوم سیاہ مناتا ھے یہ تاریخ کا المیہ بھی ہے اور سیاہ باب بھی ،جہاں انسان آج بھی قلعہ نما حصار میں بند ہیں, بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے آرٹیکل 370 ختم کر کے اور 35 اے کے خاتمے سے اپنے عزائم کا اظہار تو کر دیا مگر اس طرح کے اقدامات نے مودی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر شدید دباؤ کا سامنا ھے، خود بھارت کے اندر کئی طبقات بیدار ھو رہے ہیں، عالمی میڈیا جب بھی مودی پر کچھ لکھتا یا بولتا ہے تو فاشسٹ حکمران کا ٹائٹل ضرور دیتا ہے، وزیراعظم عمران خان نے اس مرتبہ یو این او کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ بھارت ریاستی سطح پر اسلامو فوبیا کا شکار ہے، اس موقف کو دنیا میں بہت پزیرائی ملی، دوسری طرف حال میں معاون خصوصی معید یوسف نے مشہور صحافی کرن تھاپڑ سے انٹرویو میں تصدیق کی کہ بھارت نے پاکستان سے کشمیر سمیت ھر مسئلہ پر مذاکرات کا پیغام بھجوایا ھے مگر اب پاکستان کشمیر سے کرفیو اٹھانے، کشمیری قیادت کی رہائی اور ضمیر کی آواز پر لگائے گا پہرے اٹھانے کی پیشگی شرائط رکھے گا، بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی ماضی میں بھی کئی غیر منطقی باتیں مشہور کیں، ہری سنگھ کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد میں قبائلی لشکر کی شمولیت کو بھی وجہ بنایا حالانکہ قبائلی عوام اس شاخ سے موجود سدھن قبائل کی دعوت پر مدد کو پہنچا تھا، جن کا کشمیر پر قبضے کا کوئی منصوبہ شامل نہیں تھا، مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ کے ظالمانہ قوانین اور جبر و استبداد کے خلاف اٹھے تھے، کچھ طبقات یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاراجہ ہری سنگھ آزاد اور خود مختار ریاست کا حامی تھا، لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اسی خدشے کے پیش نظر مہاراجہ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر مہاراجہ نے بیماری کا بہانہ بنا کر ملاقات نہیں کی، کچھ طبقات اسی کو وجہ بنا کر خود مختار ریاست کا نظریہ کشیدتے ہیں حالانکہ مہاراجہ کا بھارت کے ساتھ بغیر کسی معاہدے کے الحاق کرنے والی ریاستوں اور ان کے خلاف بھارتی حکومت کے رویے پر تحفظات کا اظہار کرتا تھا تاھم وہ کچھ اختیارات کے تحت مکمل بھارت کا حامی تھا، ریڈکلف کی ملی بھگت ھو یا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی نہرو سے دوستی کشمیری عوام کو زبردستی اور شیخ عبداللہ کی بھارت یا نہرو نوازی نے کشمیریوں کے حق کو سلب کیا جس کا خمیازہ آج سب بھگت رہے ہیں، خود فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے بھارت کے حامی سیاستدان بھی "جناح اب بھی جیت رہا ہے" کی صدا لگا رہے ہیں، اسی لیے کہتے ہیں کہ لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن جاتی ھے، تقسیم ھندوستان کے فارمولے میں یہ طے تھا کہ ریاستوں کے عوام اپنی مرضی سے فیصلہ کریں گے مگر ان کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی کا انتخاب کرنا ھو گا، کرفیو، نو لاکھ فوج، جبر ،استحصال کے باوجود کشمیر کی تحریک وہیں کھڑی ہے، مودی نے ابادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے بھی ڈومیسائل کے قوانین تبدیل کیے، ھندی زبان کے رائج کے لیے بھی قانون لایا مگر جتنا اس تحریک کو دبانے کے لیے ذرائع استعمال کیے گئے شاید ھی کسی اور تحریک کے لیے یہ کچھ کیا گیا ھو مگر نتیجہ آزادی کا جذبہ اور بڑھ گیا، جب بھی فطرت کے اس اصول کو چیلنج کیا جائے گا ردعمل تو ھو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :