بادشاہ گر لوٹ رہا ہے

جمعرات 5 نومبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

بادشاہ گر لوٹ رہا ہے  کوئی استقبال کرے گا، جس نے شان بی نیازی دکھائی تھی، وہ شامل ھوا تو شامل ھونے والوں کا تانتا بندھ گیا تھا، چمکتے بالوں اور دھیمی چال کے ساتھ وہ تیز دھوڑنے کا عادی ھے، کام میں انتہائی پروفیشنل، سیاست میں دھیما مزاج مگر بد قسمتی ہے کہ دو مرتبہ سپریم کورٹ سے اور پھر چینی سکینڈل میں ملوث ہونے پر راندہ درگاہ ھو گیا، میں ذاتی طور پر اس کے ساتھ پروفشنل کام کر کے بہت مطمئن ھوا تھا اور میرے تمام اندازے غلط نکلے، میڈیا میں آنے والے پارٹی قبضے کی باتیں ھوا ھو گئیں تھیں، مگر نہیں سمجھ آئی کہ سپریم کورٹ میں اس کے ساتھ کیا ہوا، چینی سکینڈل میں کیسے نام آیا؟سپریم کورٹ کی کہانی سمجھنے کی کوشش کی تھی جس میں پتہ لگا کہ ٹرسٹ ڈیڈ بعد میں پیش ھوئی، البتہ چینی سکینڈل کی کہانی میری سمجھ سے باہر ھے، کیوں کہ جہانگیر ترین کے خلاف جتنے فائدے کی بات کی جاتی ہے، وہ اس کی بے پناہ دولت، تجارت اور کاروبار کے آگے کچھ بھی نہیں ھے، پھر وہ کیوں اتنی چھوٹی سی رقم کے لیے اپنے آپ کو بدنام کرتا، میں اتنی ھی بات کر رہا ہوں جتنا میں جہانگیر ترین کو جانتا ہوں، عمران باجوہ صاحب تحریک انصاف کے بڑے سرگرم کارکن ہیں، ان کی وساطت سے 2017ء اور 2018ء میں جہانگیر ترین صاحب ملاقاتیں رہی ہیں، جہاں ترین صاحب نے گھنٹوں بیٹھ کر تحریک انصاف کی الیکشن مہم، تجزیاتی اور سروے رپورٹس بنوائیں اس پر حکمت عملی مرتب کی گئی تھی، اس پر کراچی سے لے کر پنجاب تک کافی فوائد حاصل ہوئے، میں نے بس میڈیا کے حوالے سے تجاویز اور عوامی مسائل کا تجزیہ ان کے سامنے رکھا ، جس کو جہانگیر ترین اور ان کی ٹیم نے بڑے انہماک سے سنا خوشی اس بات کی تھی کہ ان کی سوچ اور عمل انتہائی پروفیشنل تھا، جس میں وہ کامیاب رہے، الیکشن میں تحریک انصاف کو کافی ووٹ ملے، حکومت بنانے کے مرحلے میں بھی جہانگیر ترین صاحب سب سے زیادہ سرگرم دکھائی دئیے، سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت بنانی ہو یا بلوجستان میں اتحادیوں اور حکومت میں معاونت وہ پیش پیش رہے، شاید وزیراعظم عمران خان ان سے چینی اور گندم کی دستیابی میں غلط رپورٹنگ یا غلط مانیٹرنگ پر ان سے ناراض ہوئے کہ دیکھتے ہی دیکھتے، وزیراعظم ھاؤس سے جہانگیر ترین صاحب کا فاصلہ بڑھ گیا، تاھم عمران خان نے اس کے بعد بھی جہانگیر ترین صاحب کے لیے اچھے الفاظ بیان کیے، چینی سکینڈل سامنے آیا تو کاروائی بھی شروع ھوئی مگر ترین صاحب بیماری کی وجہ سے برطانیہ چلے گئے اپوزیشن کا شدید دباؤ تھا کہ حکومت نے ان کو بھیجا ھے، حالانکہ نہ چینی سکینڈل میں عمران خان کا کوئی کردار ھے اور نہ ھی باھر بھیجنے میں البتہ جہانگیر ترین صاحب نے خود کہا تھا کہ میں بھاگنے والا نہیں، علاج کے بعد واپس آؤں گا، تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وہ جلد واپس آرہے ہیں، اگرچیکہ انہوں نے تاریخ نہیں دی لیکن یہ کہہ دیا ھے کہ اس مہینے کے اندر وہ پاکستان آجائیں گے ، حکومت سے کچھ اتحادی ناراض ہو کر اپوزیشن اتحاد میں شامل ھو گئے جن میں سردار اختر مینگل نمایاں ہیں، جبکہ ق لیگ بھی تحفظات پیش کر کے وزیراعظم کے ظہرانے میں نہیں آئی، جولائی 2002ء میں بننے والی ق لیگ، بنیادی طور پر مشرف لیگ تھی جو سکڑتے سکڑتے 2013ء میں تانگہ پارٹی بن چکی تھی محض چوھدری برادران کی ھمت اور سیاسی اھمیت پر چل رہی تھی کہ عمران خان نے کندھا دے دیا، جہاں مری ھوئی ق لیگ کو پھر زندگی مل گئی آج مونس الہیٰ صاحب کا ٹیوٹ پڑھ کر بڑی حیرانی ہوئی جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ق لیگ کا اتحاد ووٹ تک ھے، عمران خان کا کھانا کھانے کیوں جائیں"وضع داری کی سیاست کے دعویدار کیا کہہ رہے ہیں، کس مفاد کے لیے کیا ھو جاتے ھیں؟سیاست ھے ھی بے رحم، خود غرض اور بے وفا کے کسی کی نہیں ھوتی اگر بادشاہ گر، جہانگیر ترین صاحب آجائیں تو شاید ق لیگ میں بھی اچھی حرکت نظر اجائے، باقی اتحادی بھی مان جائیں یہ سب ممکن ہو گا تحریک انصاف کے لئے یا جہانگیر ترین کے لئے؟ البتہ یہ ضرور ہے کہ جہانگیر ترین صاحب آرہے ہیں لوٹ رہا ہے بادشاہ گر کیا کوئی استقبال کرے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :