گلگت بلتستان انتخابات

منگل 17 نومبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

گلگت بلتستان کی 24 میں سے 23 نشستوں کے انتخابات مکمل ھوئے، میں نے گذشتہ دنوں لکھا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں انتخابات کی سائنس بالکل مختلف ہے، یہاں کے لوگ سیاست کو کم ازکم  پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے ڈسکس کرتے ہیں، اسی طرح مذہبی شعور بھی بہت زیادہ ہے، انتخابات میں وہ ھمیشہ مرکزی حکومت کو دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں، اس مرتبہ تحریک انصاف نے گلگت بلتستان میں دس نشستوں کے ساتھ میدان مار لیا، جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی حصہ بقدر جثہ وصول کر لیا ہے، آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر رہے، تحریک انصاف کے بعد سات آزاد امیدوار کامیاب ہو ئے ہیں، ن لیگ کو دو اور مجلس وحدت المسلمین کو ایک سیٹ ملی، بڑے بڑے تجزیہ نگار اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر تبصرے کرنے والے "مرد کوھستان "کی سیاسی بصیرت کو نہیں سمجھ سکتے، کئی ایک پیپلز پارٹی کو جیتا رہے تھے، تو کچھ ن لیگ اور مریم نواز کے "میک اپ"کیے جلسوں سے بے انتہا متاثر تھے، وہ کبھی رانی آف ھنزہ بنیں، کبھی ڈریسنگ کا رومان پیدا کر کے ارتغول کی"ھیروئن"یہ کرزمہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتا۔

(جاری ہے)

اب فرماتی ہیں کہ دھاندلی کے باوجود تانگہ پارٹی دس نشتیں جیت سکی، اس پر حیرت کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا، میں سمجھتا ہوں کہ بلاول بھٹو میں قدرے سیاسی بالیدگی اور چیزوں کو درست انداز سے دیکھنا مریم نواز سے کئی گنا بہتر ہے، حالانکہ مریم نواز گذشتہ پانچ سال وزیراعظم ھاؤس میں میاں صاحب سے"سیاست"سیکھتی رہی ہیں۔میرے گلگت بلتستان کے ذاتی علم کے علاؤہ ایک مضبوط ذریعہ سینکڑوں طلباء و طالبات ہیں جو آن علاقوں میں آباد ہیں، اور ان کی اکثریت گذشتہ پانچ سال سے تحریک انصاف سے وابستہ ہے، اسی طرح ہزاروں نوجوان بغیر کسی دعوت کے عمران خان کو پسند کرتی ہے اور چلتا پھرتا اشتہار ہیں، ان نوجوانوں کی عمران خان سے وابستگی پورے ملک میں اسی طرح قائم ہے، انہیں مہنگائی سے دلچسپی نہیں، بلکہ مستقبل کے پاکستان سے فکر مند ہیں اس لیے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، یہی نوجوان پورے ملک کی طرح گلگت بلتستان میں تبدیلی کا ذریعہ بنے ہیں، یہ بات نہ پیپلز پارٹی سمجھی ھے اور نہ ہی ن لیگ، جس دن اس نوجوان طبقہ کا دل ان دو پارٹیوں نے جیت لیا، وہ دن رخ موڑنے والا ھو گا۔

یہ بھی عمران خان کی تبدیلی کے آثار ہیں کہ اس مرتبہ خواتین کی بڑی تعداد الیکشن میں ووٹ ڈالنے یا مقابلے کے لیے باہر نکلیں، تبدیلی کا دوسرا پہلو ملاحظہ کریں، کہ گذشتہ دو انتخابات کی نسبت اس مرتبہ زیادہ پارٹی رہنما گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں شریک ہوئے، بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز اور دوسری جماعتوں نے کھل کر انتخابی مہم چلائی، تبدیلی کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ پی ڈی ایم اور خصوصاً نواز شریف کے بیانیے کو عوام نے بالکل مسترد کر دیا اس کا واضح اثر آزاد کشمیر کے آمدہ انتخابات پر پڑے گا، ایک سٹوڈنٹ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ھم نے 1947ء میں ڈوگرہ  حکمران کو شکست دی تھی اور آج ملک کے بڑے مافیا کو شکست دی ھے، میں نے جواب دیا اس طرح نہیں سوچتے، سیاستدان ایسے ہی ہوتے ہیں کہنے لگا کہ اب ھم نوجوان فیصلہ کریں گے کہ ملک کا مستقبل کیا ھونا چاھیے، ان انتخابات میں سابق وزراء اعلیٰ، اسپیکر اور۔

کئی رہنما ہار گئے، جس سے یہ چیز واضح ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے نئے صوبے کو ووٹ دیا ہے۔ایک اور بات مریم نواز کہتی ہیں کہ تحریک انصاف نے لوگوں کو سابق ممبران کو اپنے ساتھ ملایا ھے، بی بی آپ نے۔ کشمیر میں پوری مسلم کانفرنس ھائی جیک کر کے مسلم لیگ ن بنالی تھی اور حکومت حاصل کر لی تھی، گزشتہ الیکشن میں آپ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ یہ کیا ھے، یہ تو ھوتا رہا ہے، اس کے بھی موجد آپ لوگ ہیں، کیا ھوا عمران خان کو آپ نے سیاست سکھا دی ھے آ پ گلگت بلتستان کے حساس مقام پر کھڑے ہو کر فوج کو برا بھلا کہتے رہے ہیں ، جس کو عوام نے فی الحال مسترد کر دیا ہے وہ الگ بات ہے کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان ھے اس پر بھی آپ لوگ کچھ نہیں کر سکے، پی ٹی آئی نے اب گلگت میں آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانی ہے، ایم ڈبلیو ایم کا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ھے، البتہ نوجوانوں کی امید پوری کرنے کے لیے عمران خان کو کچھ کر کے دکھانا ھوگا۔

پی ڈی ایم نے کامیابی حاصل کرنے ھے تو۔ انہیں دل صاف کرکے ایک روڈ میپ دینا ھوگا گلگت بلتستان کا معرکہ بے شمار غلطیوں کے تحریک انصاف نے جیت لیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :