کاوان ہاتھی۔۔۔تنہائی اور اب جدائی!!!

پیر 30 نومبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

تنہائی انسان کی ہو یا جانور کی خود خوف اور اداسی کو جنم دیتی ہے، انسان تو تنہائی کا کوئی نہ کوئی علاج ڈھونڈ لیتا ہے، اس کے رویے میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی وہ اسی تنہائی کی تلاش میں عمر گزار دیتا ہے اور کبھی مونس و غم خوار ڈھونڈتا  ہے، لیکن جانور بے چارے اپنی فطرت کے عین مطابق گھل مل کر رہنے کے عادی ہوتے ہیں، وہ تنہائی میں بہت ہی خوفناک ہو جاتے ہیں، ایسی ہی تنہائی کا شکار اسلام آباد کے مرغزار میں ایک ھاتھی تھا، جو 1985ء میں ایک سال  کا تھا جب سری لنکا نے تحفے کے طور پر پاکستان کو دیا ، آج 36 سال کی عمر میں کاوان تنہائی سے آزاد ھوا، جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی خاتون رہنما نے اس کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی، اسلام آباد ھائی کورٹ نے اس تنہا ھاتھی کو آزاد کرنے کا فیصلہ دیا، کاوان ھمارے بچوں کا بھی دوست تھا، آج سب بچے اداس ہیں مگر خوشی یہ ہے کہ وہ اب جنگل میں اپنے دوستوں کے ساتھ آزاد ھو گا، کیا پتہ غلامی سے آزاد ہو کر وہ آزادی کا لطف اٹھا سکے گا کہ نہیں، لیکن تنہائی سے، آزادی  ھے مگر جدائی کا بھی دکھ ھے، گزشتہ دنوں دو غیر ملکی ڈاکٹرز اور 8 ٹیکنیکل سٹاف ممبرز نے کاوان کا معائنہ کیا، کاوان کے لیے روس کا چارٹر طیارہ منگوایا گیا، جو دہلی سے ہوتا ہوا اسلام آباد آیا، سول ایوی ایشن کی خصوصی اجازت، حکومت پاکستان اور ماحولیات کے خصوصی سرٹیفکیٹ جاری ہوئے، کاوان کو بے ہوش کر کے این ایل سی کے ٹریلوں کے ذریعے ائیرپورٹ منتقل کیا گیا ہے،  جسے کمبوڈیا  لے جاکر جنگل میں چھوڑا جائے گا، آزادی مبارک ہو کاوان تنہائی سے آزاد ھوئے مگر ھم سے جدا ھو گئے، ھم تمہارا خیال نہ رکھ سکے تو کئی دفعہ بیمار ہوا، سردی گرمی برداشت کی، کیچڑ اور انتہائی کسمپرسی میں تم نے چھتیس سال یہاں گزارے، ھمت ھے تمہاری، ھم کسی قابل نہیں ہیں، تمہارا خیال تک نہ رکھ سکے، وہ لوگ کیسے ہیں کہ گزشتہ دنوں ایک امریکی شخص کے باتھ روم میں سانپ نکل آیا بڑی محنت سے اس نے کموڈ سے اسے نکالا اور بڑے ہی سلیقے سے جنگل میں چھوڑ دیا، کیا ھم ایسے کر سکتے ہیں؟ نہیں نا تو پھر کاوان کا کیا خیال رکھتے؟، اس قید تنہائی میں بھی وہ بھوک پیاس اور مناسب غذا کے لیے ترستا رہا، جی رہا تھا مگر اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں ھمیشہ آنسو ہوتے تھے"یہاں سفید ھاتھی"بہت ہیں ان کو کوئی نہیں پوچھتا کھاتے کھاتے ملک کھا جاتے ہیں، قومیں اور نسلیں کھا گئے مگر کاوان کو ایک وقت کا کھانا من چاہا نصیب نہیں ہوا، اس کی تنہائی میں ایک نحیف سا بابا بس گھاس آگے کر دیتا، وہ دوڑ نہیں سکا، وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا، پرپیج غلامی، تنہائی اور اداسی نے اس کے پنتیس سال کھا لئے، اسی چڑیا گھر میں اور بھی اداس جانور ہیں جن کی حفاظت اور ان کا خیال رکھنا والا شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے ان سے محبت اور انس ہو، یہاں انسانی حقوق پامال کرتے ہوئے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، جانوروں کے حقوق کا کون خیال رکھے گا، سانڈے پکڑ پکڑ کر تیل نکالنے والے، بلیوں اور کتوں کو بے حسی سے مارنے والے بھی دیکھ لیں، تلور، مار خور، قسم قسم کے نایاب جانور پرندے، ، پودے اور یہاں تک کہ گدھے کے حقوق کے لیے بھی لڑنا پڑے گا،  انسان فطرت کو بگاڑتا جا رہا ہے اور فطرت یکدم انتقام  لیتی ہے، جس سے سب ملیا میٹ ھو جاتا ھے، کاوان کمبوڈیا جائے گا، اسلام آباد کے بچے تمہیں بہت یاد کریں گے، تجھے آزادی مبارک ہو کاوان،مبارک ھو۔

(جاری ہے)

دیکھ اپنا خیال رکھنا کیا پتہ تمھارے ساتھی تمہیں قبول کرتے ہیں کہ نہیں لیکن میرے خیال میں قبول کر لیں گے کیونکہ وہ ظالم انسان نہیں ہیں۔وہ بے حس نہیں، ان کے اندر حرص و ہوس نہیں، سب ایک جیسے ہیں، کوئی امیر یا غریب نہیں، کسی کی آنا کو ٹھیس نہیں پہنچتی، کوئی اس بات سے نہیں ڈرتا کہ میرا بھی کھا جائے گا، وہاں علم و عبادت کا گھمنڈ نہیں ہے، وہاں محلات اور دربار نہیں ہیں، جا تجھے آزادی مبارک ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :