ایک سالہ کورونا،۔۔۔۔سالگرہ اور جشن مرگ۔

بدھ 2 دسمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

کورونا ایک سال کا ھو گیا، نئی دنیا کی پہلی پیدائش ہے، جس پر پوری دنیا میں"جشن مرگ" منایا گیا تھا، وہان میں پیدا ہونے والا جرثومہ مشینی تھا، یا فطری اس وقت دنیا کے "پھپھڑوں" اور دلوں پر حکومت کر رہا ہے، اب تک پندرہ لاکھ انسانوں کو نگل چکا ہے، پیدائش سے چلنے تک اس نے 242 ٹریلین ڈالر نقصان کر دئیے، چالیس کروڑ افراد کو بے روزگار اور عالمی اسٹاک مارکیٹ کو 7 فیصد سے زائد کا جھٹکا لگا چکا ہے، جی 8 ھوں یا جی 20 اس کورڈ 19 کے ھاتھوں کساد بازاری کا شکار ھوئے ہیں، دنیا بھر میں سیاحت،ائیر سروس، اور برآمدات کو اس سے بڑا جھٹکا کبھی نہیں لگا، عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ اس بحران سے نکلنے کے لیے کئی سال لگیں گے، اس کی پیدائش سے ہی چین اور امریکہ کی سرد جنگ نے نئی صف بندی کا آغاز کردیا، سب معیشت، سیاست، معاشرت اور تجارت پوسٹ کرونا صفوں میں تلاش کرنی ہو گی، کیا کہیں کوئی دجال تو نہیں پیدا ہو گیا، جو یاجوج ماجوج کو راستہ دے رہا ہے، پہلے اس نے پیدا ہونے کا اعلان کیا اور بستیوں کی بستیاں اجاڑ گیا، بلکہ ایسے انمول لوگ بھی چھین لیے جو جیتے تو شاید لوگوں کو فائدہ ہی ھوتا، اسی نو مولود کے ساتھ سفر جاری ہے مگر حقیقت اب بھی ماسک کے پیچھے چھپی ہے، سرمایہ داروں کی کوئی عالمی چال تھی، یا فطری وبال، جان لیوا تو ہے، عوام کی کثرت اس کو سازش سمجھتی رہی پھر خوف و ہراس میں مبتلا ہو گئی اور جب یہ چلنے لگا تو لاتعلق ہو کر "کندھے سے کندھا"ملا کر چلنے لگی، پہلے دانشور انسانوں کو ھاتھ باندھ تہیث تھی مل کر چلیں، اتحاد کریں، مگر سب جدا جدا ، دانشوروں، ڈاکٹروں اور عالمی اداروں نے "فاصلے"رکھیں کا سلوگن جاری کیا تو سب مل کر چلنے لگے بس کورونا کو موقعہ مل گیا اور پلٹ کر ٹوٹ پڑا پانچ کروڑ افراد سے الجھ پڑا، پندرہ لاکھ کی گردن دبوچ لی، دنیا میں تباہی مچانے والا یہ جرثومہ دوسری لہر کے نام سے موت کا نقارہ بجا رہا ہے، کوئی کان نہیں دھر رہا سب چلتے اور گرتے جا رہے ہیں، پاکستان پر اللہ کا بڑا کرم تھا کہ اس معصوم کو لوگوں نے کہیں بند کر دیا تھا کچھ عاقبت نااندیش کھول کر میدان ھجوم انسان میں چھوڑ گئے، سب وہ پورا زور لگا رہا کہ نکل کر واپس جاؤں مگر ھجوم سیاست اور تجارت بڑھتا جا رہا ہے اور کورونا اور ھجوم میں چن چن کر بندے ساتھ لے جا رہا ہے، جہالت اور سیاست نے کہیں کا نہیں چھوڑا، روز کے تین ھزار سے اوپر کیسسز روایت بن چکی، صرف اکتوبر میں شرح نو فیصد تک بڑھ گئی ہے، کون کس کو سمجھائے کہ سمجھنے کا وقت نہیں وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں"کورونا بڑھ رہی ہے" شاید اس کی مونث وغم خوار بھی پیدا ہو گئی ہو لیکن وہ کہہ ٹھیک رہے ہیں ملک میں اپوزیشن کی ایک "کورونا موومنٹ بھی شروع ہے جو مینار پاکستان لاہور میں جاکر اجتماعی کورونا مہم میں شامل ھو جائے گی، ایک درد نہیں ہے سماج میں بے شمار "سماجی"کمزوریاں ہیں مثلاً ھماری یاداشت بہت کمزور ہے، جن کو بھلا چکے تھے ان کو بلا رہے ہیں، تاکہ وہ ملاوٹ میں، ناپ تول کی کمی میں، گدھے کا گوشت بیچنے اور مافیا کے لیے آسانیاں پیدا کر سکیں، وہ شاید چاھتے ھیں کہ کورونا اتنا پھیل جائے اور حکومت اس کو کنٹرول نہ کر سکے، اس لئے وزیراعظم استعفیٰ دیں اور گھر جائیں ھم ماضی کی طرح دودھ کی نہریں بہا دیں گے!یہی ھمارے سماج کی، قومی روایات اور سیاست کی پہچان ہے۔

(جاری ہے)

اسحاق ڈار کو "داتا"کے نام پر، میاں صاحب کو قرض اور مرض کے نام پر، زرداری صاحب کو شہیدوں کے نام پر اتنا ملتا ہے کہ ملک کنگال مگر عوام بدحال ، اس روایت کو کون توڑے گا، نوجوان یا خان یا دونوں مل کر، آصفہ بھٹو یا مریم نواز، پتا تو لگنا ھے، کورونا جس شہر سے چلا تھا اس کے باسیوں نے نکال باہر پھینکا، ٹرمپ تک اس میں ڈوب گئے، ٹریلین ڈالر جھونک دئیے مگر کورونا صحت مند اور اپنی سالگرہ منانے کے انتظام کر رہا ہے جہاں وہ جشن مرگ یا شاعر کے بقول" شادی مرگ منائے گا۔

  امریکہ، چین، روس اور دیگر کئی ممالک میں ویکسین کی دھوڑ لگی ہیں جہاں سیاحت، تجارت اور معاشرت متاثر ہوئی میڈیسن انڈسٹری کی چاندی ہو گئی قیمت اور قیامت شہروں کہ شہر بہہ لے گئی ہے۔گھرگھر ویکسین کا شور ہو گا، یہ ایک سالہ کورونا یوم پیدائش جوش و خروش سے منا کر جائے گا جہاں جنازے اٹھیں گے تدفین کی جگہ نہیں ملے گی اس سے پہلے کفن دفن کا انتظام کر لینا چاہیے، وصیت لکھی جانی چاہیے،
"اب کے مرنے کے دن قریب ہیں شاید کے اے حیات"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :