گزر گاہ، افغانستان اور پاکستان،

جمعہ 20 اگست 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

انسانی نفسیات ھے کہ وہ گزر گاہ بناتے بھی ہیں اور اسے قتل گاہ میں بھی تبدیل کر دیتے ہیں، امن و ترقی کے لیے گزر گاہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے، اسی معاشی اور تجارتی گزرگاہ کو ، قبضہ گاہ بنانا ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے، کبھی قافلوں کو لوٹنا، کبھی ٹرانزٹ معصولات کی خاطر اور کبھی بڑے بڑے تجارتی راستوں کو روکنے کے لیے، اس گزر گاہ پر قبضہ ضروری سمجھا جاتا ہے، ظاہرا یہ سب کچھ بزور قوت ہی حاصل کیا جاتا ہے، قدیم زمانے میں شام کو جانے والے تجارتی قافلوں کے ساتھ بھی یہ ہوتا رہا ہے عراق اور مصر میں بھی یہی اصول اپنایا جاتا تھا، سمندری راستوں میں بحر ہند تک گذرگاہوں کے ساتھ یہی سلوک تاریخ نے دیکھا تاہم جدید قومی ریاستوں کے قیام سے قوانین اور ضوابط بنے، مضبوط فوج وجود میں آئی، داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کا نظام بنا تو باہمی تجارت کے راستے  کسی ضابطے میں آئے، جس سے  انسانوں نے ترقی کی اور ملک وجود میں آئے، بدقسمتی سے افغانستان بھی ایک بفر اسٹیٹ یا گزر گاہ ہی تھی جہاں مختلف قبائل کا قبضہ تھا اسی گزرگاہ کی وجہ سے کبھی مغرب کی چڑھائی ہوتی تو کبھی باہمی اور علاقائی تنازعات جنم لیتے، کم و بیش پاکستان بھی جغرافیائی اعتبار سے اسی حثیت کا مالک ہے تاہم مضبوط فوج اور حکومت کی وجہ سے جنگ کا محور کم بنا البتہ دشمنیوں کا سامنا ھمیشہ رہتا ہے ، روس بھی افغانستان میں اسی لئے آیا تھا، جس کی واپسی کے بعد 1990ء میں طالبان تحریک وجود میں آئی اور  اس نے تیزی سےکامیابی حاصل کی ، 1996ء سے 2001 ء تک اس کے اثرات لوگوں نے دیکھے، آپ کو یاد ہوگا کہ امریکی کمپنی یونی کول کی پائپ لائن کا تنازعہ طالبان اور امریکا کے درمیان سب سے بڑا ایشو تھا جیسے بنیاد پرستی سے جوڑ دیا گیا، اور یوں سب کا راستہ بند کرنے کے لیے امریکہ بہادر یہاں اتر آیا، آج افغانستان پھر طالبان کے زیر اثر آچکا ہے ، فتح اور قبضے دونوں اصطلاحیں استعمال کی جا رہی ہیں،  سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ گزر گاہ سی پیک کا راستہ روکے گی، یا ترقی کا ایک نیا دروازہ کھل پائے گا؟ طالبان تحریک کے پاکستان اور خطے پر کیا اثرات ہوں گے؟ یہ سوال اہم ہے جو بائیڈن نے کہا کہ ھم نے دو ہزار ڈالر خرچ کیے  افغان فوج تیار کی، ستر ہزار افغان پولیس اور سیکیورٹی کے اہلکار مارے گئے، لیکن ھم چین اور روس کی خواہش پر مزید ڈالر نہیں خرچ کر سکتے، اور نہ ہی افغان فوج کے لئے لڑ سکتے ہیں، تو جناب بیس سال آپ نے اور انڈیا نے افغانستان میں کتنا زور لگایا؟ کیا یہ حکمت عملی درست تھی، پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بن کر معیشت، معاشرت اور تہذیب سب کچھ کھو دیا، یہی خطرہ ایک نئے طریقے سے اب بھی پاکستان کو درپیش ہیں، حیرت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان بیس سال امریکہ کی خوش نودی کرتے رہے اور اب بڑی تیزی سے تہنیتی پیغامات بھیجے جس رہے ہیں، پاکستان کو بیس سال معاشرے سے انتہا پسندی ختم کرنے کے لیے لگے ہیں، کیا اب یہ خطرات دوبارہ سر نہیں اٹھائیں گے؟ اس پر خصوصی حکمت عملی کی ضرورت ہے جہاں علماء، حکومت اور عوام کا کردار اہم ہے، دوسری اہم بات جیسے طالبان نے انسانی حقوق، خواتین کے ساتھ رویے، عالمی میڈیا ، اور اقلیتی برادری کے تحفظ کا۔

(جاری ہے)

جو اعلان کیا ہے اسی حکمت عملی کو اپنایا گیا تو ایک دیر پا حکومت قائم ھو سکتی ھے، امید یہ کی جاتی ہے کہ ایک مہینے کے اندر اندر دنیا افغان حکومت جو تسلیم کر لے گی، طالبان نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اپنی سر زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے پاکستان سے بھاگے کئی مجرم، یہاں تک کہ اے پی ایس حملے کے مجرموں کے بارے میں کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے، دوسرا خطرہ اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کا ھے، جن کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ بھارت چلے گئے، وہ وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگلیں گے، وہ نوجوان جو برطانیہ، کینیڈا اور دوسرے ممالک جس رہے ہیں وہ پاکستان کے خلاف ھائبرڈ وار کا حصہ بن سکتے ہیں، اس لئے پاکستان کے نوجوان، عوام اور حکومت کو آن چیزوں پر نظر رکھنی ھو گی، امریکہ شکست تسلیم کرے نہ کرے اب افغانستان میں اسٹیک ہولڈرز کوئی اور ھو گا وہ چین ھو سکتا ھے، روس ھو گا یا کوئی اور جلد دنیا دیکھ لے گی، یہ جنگ ،گزر گاہوں کو روکنے کی تھی، اب اس کا مالک کوئی اور ھو گا، پاکستان کو انتہائی جاندار اور بروقت فیصلہ کرنا ھو ں گے۔

معاشرت بچا لیں تو بڑی بات ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :