
اقبال پارک واقعہ، ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ہفتہ 21 اگست 2021

پروفیسرخورشید اختر
لاھور مینار پاکستان کے اقبال پارک میں 14 اگست کو ہونے والا واقعہ بھی انہی محرومیوں کا اظہار تھا جس پر انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا، ایک بات طے ہے کہ فحش کلام، فحش لباس اور فحش کام کا انجام اچھا تو نہیں ھوتا،مگر اس کے باوجود کچھ لوگ پاکستان کے ماتھے پر کالک ملنے کے لیے ھمیشہ تیار بیٹھے ہوتے ہیں، حکومت سے دشمنی ہے، کسی ذات سے تکلیف ہے، یا اپنی محرومیوں کا دکھ ھے، سب کا دکھ اٹھا کر پاکستان پر ڈال دیں گے، کچھ لوگ "حریم شاہ، اور کچھ سٹارز کو دیکھ کر یہ جوہر دکھانے نکل آتے ہیں، پاکستانی معاشرہ تقسیم معاشرہ ہے، نہ یہ سارا ایسا ہے جو مینار پاکستان پارک میں نظر آیا اور نہ اتنا بنیاد پرست ھے کہ جو رنجیت سنگھ کے مجسمے کو توڑ پھوڑ کرتے نظر آیا، لیکن دنیا بھر نے یہ چہرہ دیکھ لیا اور اسی کو دیکھ کر تجزیہ کیا جائے گا، گویا اجتماعی تاثر یہی سمجھا جائے گا، یہی سب سے بڑی بدقسمتی ھے جسے بیس سال ھم دھوتے رہے اور پھر وہی ھے، اوپر سے کئی لوگ عالمی سطح پر ان واقعات کو طالبان کی فتح کے ساتھ جوڑنے کے لیے تیار بیٹھے تھے بس جوڑ دیا، یہ ایک اور بڑی بدقسمتی ھے،
میں اس واقعے کو کسی طور درست نہیں کہہ رہا ، یہاں پولیس، انتظامیہ اور ھمارا معاشرہ سب ذمہ دار ہیں، سب کو سزا ملنی چائیے، اتنے اہم دن پر پولیس، سیکورٹی اور انتظامیہ کی یہ حالت ھوگی تو عام دنوں میں کیا ھوگا، خاتون کا جو بھی مقصد تھا، جس طرح بھی آئی تھی، وہ اہم نہیں ھے بلکہ قانون کہاں تھا، محافظ کہاں تھے، وہ اہم ھے، یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک اور انتظامی کمزوری کی مثال ہے، مجرموں کو سزا ملے گی تو جرم کی بیخ کنی ھو سکے گی، مگر اس خاتون کے جو ھمارے ہی معاشرے کا حصہ ہے، پہلے اور بعد کے انداز بیان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، یہ وہ ملک ھے جہاں انتہائی مذھبی معاشرت رکھنے والے علاقوں میں فلم اور گانے کی شوٹنگ سر عام ہوتی ہے، کوئی کچھ نہیں کہتا وہ زمانہ بھی تھا جو مرحوم طارق عزیز نے بیان کیا ھےکہ فلم کی شوٹنگ کے دوران ھم پر پتھراؤ ھوتا تھا، آج ایسا نہیں ہے، لیکن سوشل میڈیا کے برے اثرات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور واقعات و سانحات کی ہر رخ سے تحقیقات ہوں مجرموں کو سزا ملے، دوسرا پہلو معاشرتی تربیت سے جڑا ہے جس کے لیے حکومت، علماء، اساتذہ اور میڈیا کو کام کرنا چاہیے، ایسے واقعات ہوتے رہے، تو انتشار اور افتراق وسیع ھوگا پاکستان کا داغ دھونے میں سال ہا سال لگ جائیں گے، سب مرد اور خواتین سے درخواست ہی کی جا سکتی ھے کہ خدارا ایسے حالات نہ پیدا کریں کہ ھم سب کو ایک دن جہاز کے پروں کے ساتھ لٹکنا پڑے، آزادی کی نعمت دیکھنی ہے تو آج افغانستان کے بہن بھائیوں سے پوچھیں، کشمیر میں جاکر دیکھیں، اور دنیا میں کئی جگہیں موجود ہیں جہاں انسان محکوم بھی ہے اور انسانی المیے بھی جنم لیتے ہیں،
سب کو اس میں کردار ادا کرنا ھو گا، حکومت اور ریاست کو بہرحال اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے تاکہ ایسے حالات بار بار معاشرے کے بھیانک چہرے نہ دکھائیں، خواتین کا احترام اور تحفظ ھماری معاشرتی، قومی اور دینی ذمہ داری ہے، پوری نہیں کریں گے تو سخت محاسبہ ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسرخورشید اختر کے کالمز
-
مہنگائی کس کا ، کیا قصور ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
تحریک عدم اعتماد۔۔۔سیاست یا مزاحمت!
منگل 15 فروری 2022
-
لتا۔۔۔سات دہائیوں اور سات سروں کا سفر!!
منگل 8 فروری 2022
-
نیٹو ، نان نیٹو اتحادی اور اب قطر!!!
بدھ 2 فروری 2022
-
نظام بدلنے والے کہاں ہیں؟
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
یوکرین، یورپ میں بڑھتی سرد اور گرم جنگ!!
جمعہ 28 جنوری 2022
-
بھارت کی مسلم دشمنی اور نسل پرستی
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
کیا عثمان بزدار نے حیران نہیں کیا؟
جمعہ 21 جنوری 2022
پروفیسرخورشید اختر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.