اقبال پارک واقعہ، ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ہفتہ 21 اگست 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

یہ 2002 تھا ھم ایک ڈاکیومنٹری کے سلسلے میں سوات کے گرد و نواح میں موجود تھے، مالاکنڈ بازار  پہنچے، چوک میں کیمرہ نکالنے کے بارے میں سوچ رہے تھے، میرے سنئیر نے کہا کہ، یہاں کیمرہ باہر نہیں نکالنا، بہت مشکل کھڑی ہو جائے گی، صوفی محمد صاحب کی تحریک بھی عام تھی اور میرے سنئیر کا تعلق بھی خیبر پختونخوا سے تھا، خوف تھا کہ پتہ نہیں کیا ھو جائے میں نے رسک لیا کیونکہ مالاکنڈ کی خوبصورتی کو نظر انداز کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا، کیمرہ مین کو تیار کیا اور اتر گئے" جہاد فطرت بینی" میں، مگر توقع کے برعکس کئی لوگ اور خصوصاً نوجوان اکٹھے ہو گئے ، ھمیں مارنے کے لیے نہیں  سب نے مجھ سے فون نمبر لیا اور درخواست کرتے رہے کہ ھمیں بھی فلم، ڈرامے اور موسیقی کے پروگرام میں موقع دیں، میں حیران رہ گیا کہ اس ماحول میں بھی لوگوں کی خواہش کیا ہے، ایسا ہی مظاہرہ  سوات سرینہ ھوٹل میں فلمی شوٹنگ کے لیے آنے والے سید نور کی ٹیم کے ساتھ دیکھ چکا تھا، ھمارے لوگوں کو اظہار اور فن کی آبیاری کے مواقع کم ملتے ہیں، اس لئے سوشل میڈیا کے آنے سے انہیں موقع ملا جہاں کوئی روکنے والا نہیں تھا  وہ تمام معاشرتی اور سماجی حدود بھی بھول گئے،
   لاھور مینار پاکستان کے اقبال پارک میں 14 اگست کو ہونے والا واقعہ بھی انہی محرومیوں کا اظہار تھا جس پر انسانیت سوز واقعہ رونما ہوا، ایک بات طے ہے کہ فحش کلام،  فحش لباس اور فحش کام کا انجام اچھا تو نہیں ھوتا،مگر اس کے باوجود کچھ لوگ پاکستان کے ماتھے پر کالک ملنے کے لیے ھمیشہ تیار بیٹھے ہوتے ہیں، حکومت سے دشمنی ہے، کسی ذات سے تکلیف ہے، یا اپنی محرومیوں کا دکھ ھے، سب کا دکھ اٹھا کر پاکستان پر  ڈال دیں گے، کچھ لوگ "حریم شاہ، اور کچھ سٹارز کو دیکھ کر یہ جوہر دکھانے نکل آتے ہیں، پاکستانی معاشرہ تقسیم معاشرہ ہے، نہ یہ سارا ایسا ہے جو مینار پاکستان پارک میں نظر آیا اور نہ اتنا بنیاد پرست ھے کہ جو رنجیت سنگھ کے مجسمے کو توڑ پھوڑ کرتے نظر آیا، لیکن دنیا بھر نے یہ چہرہ دیکھ لیا اور اسی کو دیکھ کر تجزیہ کیا جائے گا، گویا اجتماعی تاثر یہی سمجھا جائے گا، یہی سب سے بڑی بدقسمتی ھے جسے بیس سال ھم دھوتے رہے اور پھر وہی ھے، اوپر سے کئی لوگ عالمی سطح پر ان واقعات کو طالبان کی فتح کے ساتھ جوڑنے کے لیے تیار بیٹھے تھے بس جوڑ دیا، یہ ایک اور بڑی بدقسمتی ھے،
   میں اس واقعے کو کسی طور درست نہیں کہہ رہا ، یہاں پولیس، انتظامیہ اور ھمارا معاشرہ سب ذمہ دار ہیں، سب کو سزا ملنی چائیے، اتنے اہم دن پر پولیس، سیکورٹی اور انتظامیہ کی یہ حالت ھوگی تو عام دنوں میں کیا ھوگا، خاتون کا جو بھی مقصد تھا، جس طرح بھی آئی تھی، وہ اہم نہیں ھے بلکہ قانون کہاں تھا، محافظ کہاں تھے، وہ اہم ھے، یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک اور انتظامی کمزوری کی مثال ہے، مجرموں کو سزا ملے گی تو جرم کی بیخ کنی ھو سکے گی، مگر اس خاتون کے جو ھمارے ہی معاشرے کا حصہ ہے، پہلے اور بعد کے انداز بیان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، یہ وہ ملک ھے جہاں انتہائی مذھبی معاشرت رکھنے والے علاقوں میں فلم اور گانے کی شوٹنگ سر عام ہوتی ہے، کوئی کچھ نہیں کہتا وہ زمانہ بھی تھا جو مرحوم طارق عزیز نے بیان کیا ھےکہ فلم  کی شوٹنگ کے دوران ھم پر پتھراؤ ھوتا تھا، آج ایسا نہیں ہے، لیکن سوشل میڈیا کے برے اثرات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے،  اور واقعات و سانحات کی ہر رخ سے تحقیقات ہوں مجرموں کو سزا ملے، دوسرا پہلو معاشرتی تربیت سے جڑا ہے جس کے لیے حکومت، علماء، اساتذہ اور میڈیا کو کام کرنا چاہیے، ایسے واقعات ہوتے رہے، تو انتشار اور افتراق وسیع ھوگا پاکستان کا داغ دھونے میں سال ہا سال لگ جائیں گے، سب مرد اور خواتین سے درخواست ہی کی جا سکتی ھے کہ خدارا ایسے حالات نہ پیدا کریں کہ ھم سب کو ایک دن جہاز کے پروں کے ساتھ لٹکنا پڑے، آزادی کی نعمت دیکھنی ہے تو آج افغانستان کے بہن بھائیوں سے پوچھیں، کشمیر میں جاکر دیکھیں، اور دنیا میں کئی جگہیں موجود ہیں جہاں انسان محکوم بھی ہے اور انسانی المیے بھی جنم لیتے ہیں،
سب کو اس میں کردار ادا کرنا ھو گا، حکومت اور ریاست کو بہرحال اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے تاکہ ایسے حالات بار بار معاشرے کے بھیانک چہرے نہ دکھائیں، خواتین کا احترام اور تحفظ ھماری معاشرتی، قومی اور دینی ذمہ داری ہے، پوری نہیں کریں گے تو سخت محاسبہ ہوگا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :